بکروں کا تحفہ

امجد جٹ خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا کامیابی فتح کے گھوڑے پر سوار‘ اپنے علاقے کی مشہور کھوئے والی برفی کے ساتھ اپنی خوشی کامیابی مُجھ فقیر سے شیئر کر نے میرے گھر آیا ہوا تھا اُس کے انگ انگ سے خوشی کے چشمے پھوٹ رہے تھے خوشی سے اُس کا چہرہ گلنار اور بات بات پر جمپ مار رہا تھا میں بھی اُس کو خوش دیکھ کر خوش ہو رہا تھا آخر میں نے حقیقت جاننے کے لیے اُس سے پوچھا جٹ صاحب خیر ہے نا کوئی بانڈلگ گیا ہے پر موشن ہو گئی ہے کوئی مقدمہ جیت گئے ہو یا پھر برسوں سے پھنسا مسئلہ ٹرانسفر ہو گئی ہے جٹ پچھلے دو سالوں سے اپنے گھر سے سینکڑوں کلومیٹر دور جاب کر رہا تھا جب وہ اِدھر آتا تو ریگولر میرے پاس چھوٹے موٹے مسئلوں کے لیے حاضر ہو تا تھا میرا تعلق بہت پرانا تھا جب یہ بے روزگار تھا نوکری کی تلاش میں تھا تو کسی کے کہنے پر میرے پاس آیا کرتا تھا دیہاتی پس منظر ہو نے کی وجہ سے جلد ہی میرے قریب ہو گیا کیونکہ میرے ابتدائی زندگی بھی تو گاؤں میں ہی گزری تھی پیارا میٹھا جوان تھا اولیاء اﷲ سے عقیدت و عشق رکھتا تھامُجھ سیاہ کار کو بھی کوئی نیک انسان سمجھ کر آتا تھا جبکہ میں اپنی حماقتوں کوتاہیوں سیاہ کاروں سے بخوبی واقف ہوں پڑھا لکھا ذہین شخص تھا میں نے دنیاوی اور روحانی راہنمائی کی چند مہینوں بعد ہی نوکری مل گئی تو یہ میرے اور بھی قریب ہو گیا پھر شادی ہو گئی اب ایک کامیاب شادی شدہ زندگی اور نوکری کے ساتھ قافلہ زندگی کو چلا رہا تھا مُجھ سے عقیدت کے ساتھ دوستی بھی تھی ہر ٹاپک پر بات کر تا ہر مشورہ کر تا اِس کو میری قربت صحبت کی عادت سی ہو گئی تھی زیادہ دن نہ گزر پاتے کہ مُجھ سے ملنے آجا یا کرتا باپ انتقال کر گیا تھا اِس لئے ہر بات مُجھ سے آکر شیئر کر تا میں بھی محبت پیار سے پیش آتا پھر اِس کی پرسکون زندگی میں طوفان سا آگیا جب دوسال پہلے اِس کی ٹرانسفر یہاں سے دو سو کلو میٹر دور کر دی گئی ٹرانسفر نوکری کا لازمی جزو ہے لیکن اتنی دور کہ بیوی بچوں ماں اور مُجھ سے دور اِس کے لیے سوہان روح بن گئی یہ تڑپ تڑپ گیا بلکہ ایک دفعہ تو میرے گلے لگ کر خوب رویا کہ سر جی مُجھے آپ کو دیکھنے آپ کی صحبت کی عادت سی ہو گئی ہے اب میں اگر چند دن آپ سے نہ ملوں تو کسی شدید کمی کا احساس ہو تا ہے میرا وہاں پر بلکل بھی دل نہیں لگتا اب جٹ دن رات کو ششیں شروع کر دیں کہ کسی طرح واپس ٹرانسفر ہو جائے مُجھ سے بھی بار بار دعا کا کہتا مختلف وظائف بھی کرتا اپنے علاقے کے سیاسی لیڈروں کے ڈیروں پر بار بار جا کر اُن کی منتیں تر لے کر تا محلے کے کونسلروں اور چوہدریوں کے گھروں کا بھی مسلسل طواف کر رہا تھا لیکن وظائف اور بھاگ دوڑ کا کوئی رزلٹ نہیں نکل رہا تھا نوکری کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کر تا ٹرانسفر کے لیے واپس آتا جو سالانہ چھٹیاں تھیں وہ اِس بھاگ دوڑ میں ختم ہو گئیں تو مجبور ہو کر وہاں بیٹھ گیا اب خود تو نہیں آسکتا تھا اپنے گھروالوں دوستوں رشتہ داروں کو فون کر تا اُن کی خوشامدیں کرتا بیچارے کی جان سولی پر اٹکی ہو تی تھی مجھے جب بھی فون کر تا تو غم کرب اُس کی آواز سے چھلکتا شریف آدمی مصیبت میں پھنسا ہو ا تھا میں بھی دعا کر رہا تھا کہ کسی طرح اِس کی ٹرانسفر ہو جائے یہ اپنے بیوی بچوں ماں کے پاس آجائے اِس پس منظر کے ساتھ آج یہ چھلانگیں مارتا ہوا آیا تو بتا یا سر مجھے آپ کی دعا لگ گئی ہے میری ٹرانسفر ہو گئی میں جو ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا اب مشکل وقت ختم ہو گیا سر آپ کی دعاؤں نے آخر کار رنگ دکھا ہی دیا جب جٹ نے خوشخبری سنائی تو میں بھی بہت زیادہ خوش ہوا کہ آخر کار بیچارے کی سنی گئی اب میں نے پوچھا یہ کرشمہ کس طرح رونما ہوا تو جٹ قہقے مارتا بو لا سر میں تو مایوس ہو کر بیٹھا تھا پچھلی بار جب لاہور آیا تو پھر اپنے پاس کے دفتر میں گیا اور وہی درخواست کی سر اب تو مجھے دوسال گھر سے دور ہو گئے ہیں اب مجھے واپس لے آئیں تو باس نے سر سری انداز میں پوچھا تم کس علاقے میں جاب کرتے ہو کہاں سے واپس آنا چاہتے ہو میں نے پنجاب کے دور دراز علاقے کا نام بتا یا تو باس ایک دم چونک پڑے اور بولے یار وہاں کے تو بکرے بہت مشہور ہیں سنا ہے قربانی کے لیے بہت خوبصورت صحت مند بکرے وہاں سے ملتے ہیں تو میں مسکرا کر ملتجانہ لہجے میں بولا بس جناب بلکل آپ نے درست سنا ہے آپ حکم کریں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں تو صاحب بولے تمہاری ٹرانسفر ہو جائے گی تم بکروں کی تصویریں میرے پی اے کو سینڈ کر نا جو ہمیں پسند آئیں گے وہ لے کر آجانا میں ڈوبا ہوا شخص خوشی سے پی اے صاحب کے پاس آیا اور کہا صاحب نے یہ حکم دیا ہے تو پی اے صاحب نے بھی مجھے یہی کہا اگر تم واپس آنا چاہیے ہو تو یہ موقع ہے جا کر سب سے اچھے صحت مند دو بکروں کا انتظام کرو وہ لے کر آؤ صاحب کا دل راضی ہو گا تو تمہاری ٹرانسفر کر دیں گے میں بہت خوش ہوا پھر دبے لفظوں میں کہا پیسے ملیں گے یا جب میں بکرے لے کر آؤں گا تو پی اے صاحب نے غصے سے دیکھا اور بولا اگر پیسوں کے بکرے لینے ہیں تو ہم خود نہیں لے سکتے یہ تم تحفہ دے رہے بکروں کا تحفہ تم خوش قسمت ہو جو صاحب نے تم سے تحفہ مانگا ہے ورنہ صاحب کو بکرے دینے والے بہت ہیں جاؤ اور جاکر مفت دو صحت مند بڑے بکروں کا انتظام کرو اب اگر تم انکار کر و گے تو ٹرانسفر تو بعد کی بات ہے تمہاری نوکری بھی مسائل کا شکار ہو سکتی ہے جٹ کے غبارے کی ہوا نکل چکی تھی بہت پریشان گھر آیا بیگم کو بتایا تو بیگم نے زیوارت دئیے کہ یہ بیچ کر صاحب کو بکروں کا تحفہ دو نہیں تو یہ نوکری لگی ہے یہ بھی جا سکتی ہے اب جٹ بیچارے نے اپنی بیگم کے شادی کے زیورات بیچ کر صاحب کے لیے بکروں کا تحفہ صاحب کا پیش کیا صاحب نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے جٹ کی ٹرانسفر کر دی یہ بیچارہ ٹرانسفر کو میری دعاؤں وظیفوں کا ثمر قرار دے رہا تھا جب کہ حقیقت میں تو جنوبی پنجاب کے بکروں کے یہ کرشمہ دکھایا تھا جٹ بیچارہ برفی دے کر خوش ہو کر چلا گیا لیکن میرے دماغ کو دھوا ں دھواں کر گیا کہ ہماری افسر شاہی کہاں کہاں ہاتھ صاف کرتی ہے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی با اثر سیٹوں پر بیٹھ کر یہ جلا دبن کر لوٹ مار کے ساتھ لوگوں کو ذبح کر نے پر تلے ہو ئے ہیں قربانی جیسے مذہبی فریضے کو بھی رشوت کا لبادہ پہنا کر اپنی دنیا اور آخرت خراب کر رہے ہیں بکروں کے تحفے والی کہانی اکثر دفتروں میں دہرائی جا رہی ہے ماتحت بیچارے افسران بالا کی آنکھ کا تارا بننے اور قائم رہنے کے لیے آجکل بکروں کے تحفے پیش کر رہئے ہیں افسران بالا یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ایسی قربانی قبول نہیں بلکہ واپس منہ پر مار دی جاتی ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 655261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.