فڈنویس کو اناتھ کرکے ایکناتھ وزیر اعلیٰ بن گئے!

مہاراشٹر کی سیاست میں بہت کچھ توقع کے خلاف ہوا لیکن سب سے زیادہ چونکانے والی خبر سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کی نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف برداری تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب سارے گودی میڈیا نے ان کے سرپر وزارت اعلیٰ کا تاج سجا دیا تھا اور تاجپوشی کے ماحول تیار ہوچکا تھا اچانک وہ خود پریس کانفرنس کے لیے نمودار ہوئے۔ اس موقع پر ایک چاپلوس صحافی نے تو گفتگو سے قبل ہی مبارکباد بھی پیش کردی لیکن فڈنویس نے جواب دینے کے بجائے اسے نظر انداز کردیا ۔ یہ عجیب و غریب بات تھی لیکن اس کے بعد انہوں نہایت سلیقہ سے اپنا مدعا بیان کیا ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ انتخاب شیوسینا نے بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑا تھا ۔ اس کے بعد شیوسینا نے کانگریس اور راشٹر وادی کے ساتھ ایک غیر اخلاقی الحاق کرکے اقتدار کی خاطر اپنے اصولوں (ہندوتوا اور قوم پرستی ) کو پامال کردیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادھو سرکار بدعنوان ہے کیونکہ اس کے دووزراء جیل میں ہیں ۔ تیسری اہم بات یہ کہی گئی کہ بال ٹھاکرے ہمیشہ ہی داود ابراہیم کے خلاف رہے مگر ان سے تعلق کے باوجود ایک وزیر کو ہٹایا نہیں گیا ۔

ان تینوں باتوں میں سچائی کا ایک ننھاساعنصر موجود ضرورہے لیکن اسی کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی توجہ طلب ہیں ۔ مثلاًیہ دعویٰ کہ شیوسینا کا بی جے پی کے ساتھ انتخاب جیتنے کے بعد راشٹروادی اور کانگریس سے ہاتھ ملانا عوام کے ساتھ دھوکہ دھڑی ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو دیویندر فڈنویس کو یہ بتانا ہو گا کہ علی الصبح پانچ بجے جس اجیت پوار کے ساتھ انہوں نے حلف برداری کی تھی ان کا تعلق کس جماعت سے تھا۔ شیوسینا کا راشٹروادی کے ساتھ جانا غلط ہے تو خود ان کا اپنے مخالف نظریہ کے حامل راشٹروادی اجیت پوار کو نائب وزیر اعلیٰ بنانا کیا رائے دہندگان کے ساتھ دھوکہ نہیں تھا ۔ یہ ایک ایسا کلنک ہے جس کو دیویندر فڈنویس اپنی پیشانی سے مٹا نہیں سکتے ۔ ادھو کی سرکار تو خیر ڈھائی سال چلی مگر وہ خود تو ڈھائی دن کے اندر چت ہوگئے تھے۔ شیش محل میں رہنے والوں کو دوسروں کی جانب پتھر پھینکنے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ آج کل اعتراضات کا بلڈوزر آجاتا ہے۔ دیویندر فڈنویس کو اس الزام تراشی کے وقت اپنے گریبان میں نہ سہی تو پڑوس میں بیٹھے ایکناتھ شندے کی جانب دیکھ لینا چاہیے تھا ۔ کسی جماعت کا سیاسی الحاق سے الگ ہوجانا موقع پرستی ہے لیکن اپنی ہی جماعت سے اقتدار کی خاطر بغاوت کردینا ابن الوقتی نہیں تو اور کیا ہے؟ بی جے پی نے اسے خوب بڑھایا چڑھایا ہے۔

مہاراشٹر کے اندر گزشتہ انتخاب سے قبل خود دیویندر فڈنویس نے مخالفین کو توڑ کر اپنی پارٹی میں لانے کی ایسی مہم چلائی تھی کہ ایوان میں کانگریس کے رہنما وکھے پاٹل کو اپنے ساتھ ملا لیا ۔ راشٹر وادی میں اس قدر سیندھ ماری کرتے ہوئے یہاں تک اعلان کردی کہ ا انتخاب کے آتے آتے این سی پی میں صرف شرد پوار رہ جائیں گے۔ فی الحال ایکناتھ شندے سے بغاوت کروا کر ان کو حواریوں سمیت اپنا ہمنوا بنالیا ۔ کیا یہ اخلاق پر مبنی اصولی سیاست ہے؟ بی جے پی لاکھ کہے کہ یہ شیوسینا کا داخلی معاملہ ہے مگر باغی ارکان اسمبلی کا پہلے گجرات ، پھر گوہاٹی اور بالآخر گوا میں روپوش ہوجانا پوری کہانی کہہ دیتا ہے کیونکہ ان تینوں صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ممبئی کے علاوہ ملک بڑے شہر دہلی، کولکاتہ ، چنئی اور حیدرآباد بھی ہیں لیکن چونکہ وہاں نامواقف صوبائی حکومت ہے اس لیے ان کا رخ نہیں کیا گیا۔ بی جے پی کے عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ حلف برداری کے موقع پروزیر اعلیٰ کے حق میں نعرے بازی کی خاطر باغیوں میں سے ایک رکن اسمبلی موجود نہیں تھا ۔ وہ سیکڑوں کلومیٹر دور گوا میں جشن منا رہے تھے۔ ان سب کو ممبئی آنے سے یہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ ایوان اسمبلی میں رائے دہندگی سے قبل ممبئی میں داخل ہونے کی زحمت نہ کریں حالانکہ تاج ہوٹل میں خالی کمرے ان کئ منتظر ہیں۔ ۔
دیویندر فڈنویس نے ادھو سرکار پر بدعنوانی کا الزام لگایا تو لوگوں کو ہنسی آگئی اس لیے سیاست کے حمام میں سبھی برہنہ ہیں۔ فی الحال جو آپریشن کمل چل رہا ہے اس کی بابت کنڑ کے رکن اسمبلی اودے سنگھ راجپوت نے الزام لگایا کہ انہیں گاڑی سمیت پچاس کروڈ رشوت کی پیشکش کی گئی تھی ۔ ان باغی ارکان اسمبلی پر ای ڈی کے چھاپے پڑ چکے تھے لیکن اب انہوں نے گنگا نہا لیا ہے۔ مرکزی سرکار کے تحت کام کرنے والی ای ڈی کو صرف مخالف جماعتوں کے بدعنوان سیاستداں نظر آتے ہیں۔ اس لیے انل دیشمکھ اور نواب ملک کی گرفتاری کو عوام بدعنوانی کے بجائے سیاسی انتقام کے زاویہ سے دیکھتے ہیں ۔ دیویندر فڈنویس نے انتخابی مہم کے دوران اجیت پوار پر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگائے مگر ان کے ساتھ آتے ہی معافی نامہ دے دیا۔ اجیت اس محضر نامہ کے ساتھ ٹاٹا بائی بائی کرگئے ایسے میں بی جے پی کی جانب سےبدعنوانی کے الزامات عوام کے لیے تفریح کا سامان کرتے ہیں ۔

دیویندر فڈنویس نے نام لیے بغیر نواب ملک پر داود ابراہیم سے تعلق کا الزام لگایا ۔ یہ معاملہ فی الحال عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن سیاستدانوں پر یہ الزام نیا نہیں ہے۔ دیویندر فڈنویس جس وقت وزیر اعلیٰ تھے تو وزارت داخلہ کا قلمدان خود ان کے اپنے پاس تھا یعنی پولیس ان کے اشاروں پر کام کرتی تھی۔ اس وقت فڈنویس کی کابینہ میں دوسرے نمبر کے سب اہم وزیر محصول ایکناتھ کھڑسے کے گھر سے داود کو فون جانے کے سنگین الزامات منظر عام پر آئے۔ ان پر بدعنوانی کا الزام بھی لگا ۔ اس کی سزا کے طور پر ان سے وزارتی قلمدان چھین لیا گیا ۔ آگے چل کر انہیں کلین چٹ تو دی گئی مگر ان کو وزیر کی حیثیت سے بحال نہیں کیا گیا۔ ان کی بہو کو رکن پارلیمان اور بیٹی کو رکن اسمبلی نہیں بنایا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کھڑسے کے ساتھ یہ سلوک ان سنگین الزامات کے سبب تھا اگر ہاں تو وہ جیل کیوں نہیں گئے ؟ وہ الزامات اگر بے بنیاد تھے اور سیاسی انتقام کے لیے لگائے گئے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اپنوں کو سبق سکھانے کے لیے اس حد تک جاسکتے ہیں وہ پرایوں کے ساتھ کیا نہیں کرتے ہوں گے؟

سابق وزیر اعلیٰ نے اپنی طول طویل تمہید کے بعد شام پانچ بجے یہ اعلان کرکے سب کو متحیر کردیا کہ آج(جمعرات،30؍جون) کو صرف ایک فرد کی حلف برداری ہوگی ۔ ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے آئین کی وفاداری کا حلف لیں گے ۔ اپنی پارٹی سے غداری کرنے والے کےلیے آئین سے وفاداری ایک نہایت مشکل کام ہے لیکن اقتدار کی خاطر انسان کیا نہیں کرتا ؟ ایکناتھ شندے اس کام کے لیے برضا و رغبت تیار ہوگئے ۔ ان پر تو یہ محاورہ صادق آرہا تھا کہ ’’گئے تو تھے آگ لینے پیغمبری مل گئی‘‘۔ مہاراشٹر کی سیاست میں یہ دوسرا موقع ہے۔ ڈھائی سال قبل لوگ اول تو یہ توقع کررہےتھے کہ اگر بی جے پی نصف مدت کے لیے شیوسینا کا وزیر اعلیٰ تسلیم کرلے گی تو ایکناتھ شندے اس عہدے سے سرفراز ہوں گے یا مول بھاو کے بعد ادیتیہ ٹھاکرے کو نائب وزیر اعلیٰ بناکر اس معاملہ کو رفع دفع کردیا جائے گا۔ کسی کے خواب و خیال میں یہ بات نہیں تھی کہ انتخابی سیاست سے الگ تھلگ پارٹی کے سربراہ کو وزیر اعلیٰ بنادیا جائے گا اور وہ اپنے ڈھائی پورے کرکے لوٹیں گے۔ اس وقت اگر بی جے پی سے بات بن جاتی تو ایکناتھ شندے کو ابھی وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملتا لیکن بات بگڑنے کے باوجود ٹھیک ڈھائی سال اور ایک ماہ بعدانہیں یہ موقع مل گیا۔ اسے کہتے ہیں جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔

دیویندر فڈنویس کےمذکورہ اعلان نے سب سے بڑا سوال یہ پیدا کردیا کہ آئندہ کی حکومت میں خود ان کا کیا کردار ہوگا ؟ اس سے پہلے کہ کسی نامہ نگار کی جانب سے یہ سوال کیا جاتا انہوں خود اسے واضح کردیا۔ دیویندر نے بتایا کہ بی جے پی ایکناتھ شندے کی حمایت کرے گی ۔ وہ خود اس حکومت میں بہ نفسِ نفیس شامل نہیں ہوں گے لیکن نئی سرکار کو ان کا مکمل تعاون حاصل رہے گا ۔ فڈنویس کے لیے یہ اعلان ایک زہر کی پڑیا سے زیادہ تلخ تھا مگر انہوں نے دیومالائی شیوجی کی مانند اسے نگل لیا ۔ پارٹی کے لیے اس طرح کی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ ساڑھے سات سال قبل جب وزارت اعلیٰ کی کرسی کے سب بڑےدعویدار ایکناتھ کھڑسے کے ذریعہ بی جے پی نے دیویندر فڈنویس کا نام پیش کروایا تھا تو ان کی بھی یہی کیفیت رہی ہوگی لیکن اقتدار کی خاطر انہوں نے وہ زہر کا پیالہ پی لیا تھا ۔ ہندی زبان میں ناتھ کے معنی آقا اور اناتھ لاوارث کو کہتے ہیں ۔ یہ حسن اتفاق ہے ساڑھے سات سال قبل جس ایکناتھ کھڑسے کی تقدیر میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ نہیں لکھا تھا وہ تمام تر کوشش کے باوجودسیاست کی دنیا میں اناتھ ہوگیا اور اب یہ وزارت جس ایکناتھ شندے کا مقدر تھی اس کی گود میں پکے ہوئے پھل کی مانند آگری۔پچھلی بار کامیاب ہونے والا دیویندر فڈنویس ایک اناتھ کی مانند حسرت بھری نگاہوں سے یہ منظر دیکھتا رہ گیا۔ ارشادِ ربانی ہے:’’ کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے۔ جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1236591 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.