آثارِ عالٙم و تاثیرِ عالِم اور اِسرارِ عالٙم و اسیرِ عالٙم

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالنجم ، اٰیت 26 تا 32اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و کم
من ملک فی
السمٰوٰت لا تغنی
شفاعتہم شیئا الا
من بعد ان یاذن اللہ
لمن یشاء و یرضٰی 26
ان الذین لا یومنون بالآخرة
لیسمون الملٰئکة تسمیة الانثٰی
27 و ما لھم بذٰلک من علم ان یتبعون
الا الظن و ان الظن لا یغنی من الحق شیئا
28 فاعرض عن من تولٰی عن ذکرنا و لم یرد الا
الحیٰوة الدنیا ذٰلک مبلغھم من العلم ان ربک ھو اعلم
بمن ضل عن سبیلہ وھو اعلم بمن اھتدٰی 30 و للہ ما فی
السمٰوٰت والارض لیجزی الذین اساءو بما عملوا و یجزی الذین
احسنوا بالحسنٰی 31 الذین یجتنبون کبٰر الاثم و الواحش الا للّمم
ان ربک واسع المغفرة ھو اعلم بکم اذ انشاکم من الارض و اذ انتم
اجنة فی بطون امھٰتکم فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰی 32
اے ہمارے رسُول ! جن تٙخلیق پرستوں کی جس تخلیق پرستی کا آیاتِ ما سبق میں ذکر ہوا ہے اُن تخلیق پرستوں نے ایک طرف تو خالق کے اِس عالٙم کے اُن آثارِ عالٙم کو اپنا معبُود و مسجُود بنالیا ہے جن آثارِ عالٙم میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے خالق کے حُکم کے بغیر مخلوق کو کوئی نفع یا کوئی نقصان پُہنچا سکیں اور دُوسری طرف اُن نفس پرستوں نے اپنے شوقِ نفس پرستی میں آسمان کے تاروں کے نام بھی اپنی عورتوں کے نام بھی پر { زُہرا و مُشتری } وغیرہ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اُن کے پاس وحی کا علمِ یقین نہیں ہے بلکہ اپنے گُم راہ کُن خیالات کا وہ گمان ہی گمان ہے جو گمان تحقیقِ حق میں کبھی بھی اور کہیں بھی کار آمد نہیں ہوتا اِس لیئے اِس عالٙم کے جو لوگ اپنی عالٙم پرستی میں اتنے غرق ہو چکے ہیں کہ وہ دعوتِ حق کو سمجھ ہی نہیں سکتے تو آپ اُن سے بچ بچا کر اپنی دعوتِ حق کا فریضہ اٙنجام دیں کیونکہ اُن کا فہمِ ناقص آپ کے اُس علمِ کامل کا مُتحمل ہی نہیں ہے جس علمِ کامل کے آپ داعی و مناد ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ بہت آسانی کے ساتھ حق سے بٙہٹک جاتے ہیں وہ بہت مُشکل کے ساتھ راہِ حق پر واپس آتے ہیں بخلاف اِس کے کہ جو لوگ حق کو جلد جانناچاہتے ہیں وہ حق کو جلد ہی جان جاتے ہیں اور جب وہ حق کو حق جان کر دل و جان سے حق مان لیتے ہیں تو زمین و آسمان کے چھوٹے بڑے وسائل خود بخود ہی اُن کی دسترس میں آجاتے ہیں اور اِن لوگوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اِن سے اِس عالٙم کے کسی ایک فرد کے بارے میں کوئی اٙدنٰی سی کوتاہی ہو بھی جائے تو وہ جلد ہی اُس کا ازالہ کر لیتے ہیں کیونکہ یہ مُنصف مزاج لوگ ہمیشہ ہی عالٙم کی اجتماعی بٙھلائی کے بڑے نصب العین پر قائم رہتے ہیں اور یقین جانو کہ اللہ تُمہارے سارے ظاہری و باطنی اعمال کا ہمیشہ سے نگہ دار ہے اور ہمیشہ کے لیئے نگہ دار ہے کیونکہ وہ تُم کو اُس وقت سے جانتا ہے جب تُم نے رحمِ مادر میں اپنی پہلی ساننس بھی نہیں لی تھی اِس لیئے تُم اپنے اندر اپنی نفسانی خواہشات کو پروان چڑھانے کے بجائے اپنے اندر اپنی ایمانی و رُوحانی خواہشات کو پروان چڑھاو کیونکہ انسان کی یہی وہ آزمائش ہے جس آزمائش میں اللہ انسان کی کامیابی و کامرانی چاہتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا سے پہلی اٰیات میں مُشرکینِ عرب کے بہت سے قومی و قبائلی دیوتاوں میں سے اُن تین بڑے قومی و قبائلی دیوتاوں ، لات و منات اور عُزٰی کا ذکر کیا گیا تھا اور اٰیاتِ بالا میں نام لئے بغیر مُشرکینِ عرب کی بہت سی قومی و قبائلی دیویوں میں سے اُن کی چنیدہ دیویوں کا ذکر کیا ذکر کیا گیا ہے جن چنیدہ دیویوں میں { زُہرہ و مُشتری } وغیرہ بھی شامل ہیں ، اول الذکر تین مذکر دیوتا اُن کے وہ زمینی دیوتا تھے جن کی وہ پُوجا کیا کرتے اور ثانی الذکر مُوْنث دیویاں میں اُن کی وہ آسمانی دیویاں تھیں جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے ، اِس مضمون کے مرکزی خیال میں عالٙمِ خلق کے وہ آثار و مظاہر زیادہ قابلِ ذکر ہیں جن آثار و مظاہر کو دیکھ کر انسان نے اُن آثار و مظاہر کو خالق کی تٙخلیق میں شریکِ تٙخلیق سمجھ کر اُن کی پرستش شروع کی تھی اور پھر رفتہ رفتہ انسانی نوع کی اکثریت اُس پرستش کی عادی ہو گئی تھی ، انسان کی اُس عادتِ بٙد کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے مُختلف زمانوں میں اپنے مُختلف اٙنبیاء ورُسل کے ذریعے انسانی ہدایت کے لئے جو مُختلف ہدایت نامے جاری کئے تھے اُن ہدایت ناموں میں آخری ہدایت نامہ یہی قُرآن ہے جس قُرآن نے اللہ تعالٰی کے اِس عالٙم و آثارِ عالٙم کے بارے میں سب سے پہلے تو یہ عالمی اصول بیان کیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے جس عالٙم کا سارا کُل اللہ تعالٰی کی مخلوق ہے اُس عالٙم کے اُس سارے کُل کے اٙجزائے کُل بھی اللہ تعالٰی کی مخلوق ہیں ، اِس عالٙم کے بارے میں قُرآن نے جو دُوسرا عالمی اصول بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالٰی نے عقل کی جن اعلٰی صفات سے مُتصف کیا ہے اُن صفات کی رُو سے انسان نہ تو اِس عالٙمِ کُل کا غلام ہے اور نہ ہی اِس عالٙمِ کُل کے اٙجزائے کُل کا غلام ہے کیونکہ انسان اپنی عقلِ بے مثال اور اللہ تعالٰی کی وحیِ لازوال کی رُو سے صرف اللہ تعالٰی کا غلام ہے اور اللہ تعالٰی کو اپنے اِس غلام کے لئے اپنے عالٙمِ کُل کی غلامی بھی منظور نہیں ہے اور اِس عالٙمِ کُل کے اٙجزائے کُل کی غلامی بھی منظور نہیں ہے اِس لیئے اللہ تعالٰی کا جو غلام عقل و شعور کا نُور رکھنے کے باوصف بھی اللہ تعالٰی کی غلامی سے نکل کر غیر اللہ کی غلامی میں جاتا ہے وہ راندہ درگاہِ حق ہو کر سزائے جہنم کا مُستحق ہو جاتا ہے ، قُرآن نے اِن دو عالمی ضابطوں کے بعد اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کا جو پیغام اللہ تعالٰی کے آخری نبی کو دیا ہے وہ پیغام یہ ہے کہ جس طرح ہر عمل اور اُس عمل کے رٙدِ عمل کی ایک مُقررہ حد ہوتی ہے اسی طرح اِس دعوتِ حق کے سُنانے کی بھی ایک حد ہے اِس لئے جب کوئی قوم انکارِ حق کی ایک خاص حد سے گزر جاتی ہے تو اُس قوم کے لئے دعوتِ حق بے اٙثر ہو جاتی ہے اور جس قوم کے حق میں دعوتِ حق بے اٙثر ہو جاتی ہے تو اُس قوم کو سوچنے کا مزید موقع دینے کے لئے اُس قوم میں حق کی وہ دعوت وقتی طور پر معطل بھی کی جاسکتی ہے جو عام حالات میں عام طور پر اُس کو دی جاتی ہے اور اُس مُنکر قوم کے مقابلے میں اُس مُسلم قوم کو زیادہ وقت دیا جاتا ہے جس میں سُننے اور قبول کرنے کی زیادہ اہلیت اور زیادہ صلاحیت ہوتی ہے ، قُرآن نے اِس مضمون کے آخر میں اہلِ عالٙم کو جو اجتماعی پیغام دیا ہے اُس پیغام کو { اثمِ کبیر } اور { اثمِ صغیر } کے دو عنوانات سے واضح کیا ہے اُن دو عنوانات میں سے پہلا عنوان اثمِ کبیر اور دُوسرا عنوان اثمِ صغیر ہے لیکن اِن دونوں سے انسان کے وہ صغیرہ و کبیرہ گناہ مُراد نہیں ہیں جو اہلِ رایت نے اپنی اُن روایات میں بیان کئے ہیں جو روایات اُن کے لوٹے اور استنجے کے مسائل کے ساتھ جُڑی ہوئی ہیں بلکہ اِن دونوں سے انسان کی وہ عملی کشادہ دستی یا وہ عملی کوتاہ دستی مُراد ہے جس کو قُرآن نے اٰیاتِ بالا کی آخری اٰیت خود ہی بیان کردیا ہے اور قُرآن نے اُس مُتعلقہ اٰیات کے متعلقہ مضمون میں جو بیان کیا ہے اُس میں اثمِ صغیر سے مُراد انسانی مٙملکت کی اٙفرادِ معاشرہ کے ساتھ کی گئی وہ کوتاہ دستی ہے جس کا دائرہ کار محدُود ہوتا ہے اور اُس کا دائرہ کار محدُود ہونے کی بنا پر اُس کا ازالہ بھی قدرے آسان ہوتا ہے اور اثمِ کبیر سے مُراد اہلِ عالٙم کی اہلِ عالٙم کے ساتھ کی گئی وہ اجتماعی کوتاہ دستی ہوتی ہے جس کا اہلِ عالٙم کے لئے ازالہ قدرے مُشکل ہوتا ہے ، اللہ تعالٰی کے اِس پیغام کا منشا یہ ہے کہ اُس کے ایمان دار بندے انسانی معاشرے کے فرد کے ساتھ بحدِ امکان انفرادی کوتاہ دستی سے اور انسانی معاشرے کے ساتھ بحدِ یقین اجتماعی کوتاہ دستی سے بچنے کی کوشش کریں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462255 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More