شہرت کا بخار

خالق کائنات کی پراسرار اور حسین ترین کائنات اور تخلیقات کا مطالعہ کریں تو حسن ترتیب کے ساتھ حیران کن تنوع ورائٹی نظر آتی ہے یہ تنوع ہمیں ہر جگہ پر نظر آتا ہے آپ چرند پرند آبی مخلوق زمینی مخلوق کا مشاہدہ کریں یا مشت غبار حضرت انسان کا آپ کو حیران کن ورائٹی نظر آئے گی ہر چیز دوسری سے مختلف اِس تنوع میں خوبصورتی اور ترتیب کا پوری طرح خیال رکھا گیا جب آپ تخلیق کے سب سے بڑے عجوبے انسان کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہی ورائٹی ہمیں انسانوں میں بھی پوری طرح نظر آتی ہے خالق کائنات نے بزم جہاں کے رنگوں میں تنوع بھرنے کے لیے انسانوں کو مختلف صلاحیتوں شکل و صورت کے ساتھ مختلف مقدر سے بھی نوازا ہے یہی ٹیلنٹ اور مقدر ہمیں نسل انسانی کے عروج و زوال تاریخ کے اوراق میں نظر آتا ہے حضرت انسان کا مطالعہ میرا فیورٹ ترین مشغلہ ہے کیونکہ میں تصوف فقر اور عشق ِ الٰہی کا طالب علم ہوں اِس لیے حق تعالیٰ کی ہر تخلیق دیکھ کر میں عش عش کر اٹھتا ہوں اِس پتلہ خاکی کا جب بھی مطالعہ کرتا ہوں تو سر خالق کے آگے سجدے میں جھک جاتا ہے روز اول سے آج تک اربوں انسان اِس گلشن خار زار میں اپنے وقت پرآئے اپنی صلاحیتوں اور مقدر کا مظاہرہ کر کے ماضی کا حصہ بنتے چلے گئے دنیا کی سٹیج پر جو بھی آیا اپنے ٹیلنٹ مقدر کا رنگ چھوڑ گیا انسانوں کے اِس ہجوم میں زیادہ تر افزائش نسل کو بڑھانے کا ہی موجب بنے خاموشی سے اِس جہان رنگ و بو میں آئے اور خاموشی سے ہی فنا کی وادی میں اُتر گئے لیکن ہر دور میں ایسے انسان بھی اِس دھرتی پر آئے جو دوسروں سے مختلف صلاحیتوں اور مقدر کے مالک تھے اِن میں کچھ ایسے بھی تھے جو کرشماتی طلسماتی شخصیت کے مالک تھے جتنا عرصہ بھی رہے طلسماتی انسان اس دھرتی پر موجود رہے ایک ہنگامہ زلزلہ سا برپا رہا یہ وہ لوگ تھے جس گمنام علاقوں میں پیدا ہوئے لیکن اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر پورے جہاں کو متاثر کر گئے یہ وہ لوگ تھے جن پر مقدر کی دیوی شہرت کی دیوی کے ساتھ جلوہ گر تھی تقدیر صلاحیت کے ساتھ تاریخ میں جب بھی شہرت کا ملاپ ہوا تو اہل دنیا نے عجوبہ روزگار انسانوں کو اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا اِن کی شہرت سحر انگیزی سرحدوں کو پار کر کے دنیا کے ایک خطے سے دوسرے خطے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے خدا ئے لازوال اِن کی تخلیق یا روح میں ایسی چیز شامل کر دیتا ہے کہ جو اِن کو دیکھ لے اِن کے پاس بیٹھ جائے اِن کی آواز سن لے بلکہ ایک جھلک دیکھ لے اِن کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے اِسی طلسمانی سحر انگیز شخصیات میں تاریخ کے ہر دور میں ملتی ہیں جو جہاں بھی طلوع ہو ئیں انہوں نے اپنے علاقے شہر ملک زاد پھر پوری دنیا کو اپنے سحر اور شخصیت کے طلسم میں جکڑ لیا اِسی نادر شخصیات علاقوں ملکوں مذاہب سے آزاد ہو تی ہی اِن کا طلسم قوموں اور مذہبوں کے دائروں کو توڑ کر رکھ دیتا ہے پھر اپنے لوگ دنیا پر راج کرتے ہیں لوگ مہینوں اِن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے انتظار کی صلیب پر لٹکتے ہیں جب بھی ایسے لوگوں کو شہرت کا لازوال عروج نصیب ہو تا ہے تو بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اِس شہرت ہر دلعزیزی کو ہضم کر پاتے ہیں آپ تاریخ انسانی کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں عین شہرت کے عروج پر یہ ایسی حماقتیں کر تے ہیں کہ زوال کے اندھے غار میں گر کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں جب اِن پر شہرت دولت مہربان ہوتی ہے یہ شہرت اور دولت کے بل بوتے پر ایوان اقتدار کی راہداریوں میں بھی اقتدار کے جھولے جھولتے نظر آتے ہیں شہرت اِن کی عقل کو اندھا اور شعور کو مفلوج کر کے رکھ دیتی پھر یہ خود کو عقل کل سمجھ کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ عام انسانوں سے بہت مختلف خاص الگ پیدا ہو تے ہیں یہ ہی اِن کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے جب بھی شہرت کسی پر مہربان ہوتی ہے تو زمانہ آنکھیں بچھائے اِن کے انتظار میں ہو تا ہے یہ جس کو اشارہ کر یں وہ اِن کا گرویدہ ہو کر غلام بنا نظر آتا ہے شہرت کی اِس دیو ی کو کوئی کوئی ہضم کر تا نظر آتا ہے ورنہ شہرت آسمان سے ذلت کی پستیوں میں گرا دیتی ہے ایسا ہی شہرت یافتہ کردار پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کے افق پر چمک رہا تھاڈاکٹر عامر لیاقت ۔جس دن سے عامر لیاقت نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھا ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کامیابی کے زینے چڑھتا چلا گیا پاکستان کے میڈیا میں جو شہرت کامیابی ڈاکٹر عامر لیاقت کو نصیب ہوا اِس کا کوئی صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے عامر صاحب صلاحیتوں سے مالا مال پرسنیلیٹی پرائیوٹ چینل پر عالم آن لائن کے نام سے پروگرام شروع کیا ایک کلین شیو جوان بندہ لیکن بے پناہ ٹیلنٹ اور شہرت کی دیوی کے مہربان ہو نے پر باقی تمام اینکر حضرات کو پیچھے چھوڑتا چلا گیا پھر شہرت کے آسمان پر صرف ایک نام تھا وہ تھا ڈاکٹر عامر لیاقت کا پھر رمضان ٹرانسمیشن میں جو جدت کامیابی ڈاکٹر صاحب کے حصے میں آئی کسی کو دوسرے کو نصیب نہ ہوئی رمضان ٹرانسمیشن کے ذریعے ڈاکٹر صاحب پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو زبان بولی جاتی تھی وہاں سب سے فیورٹ انیکر تھے یہ پروگرام ہر مہینہ سال ترقی کے نئے افق کھو گیا چلا جا رہا تھا یہاں تک کہ پھر آپ نے رمضان کے علاوہ اور بھی بہت سارے مختلف شوز کئے شہرت اور مقدر کا ملاپ ساتویں آسمان پر تھا یہاں تک کہ پاکستان کا ہر چینل ڈاکٹر صاحب کا دیوانہ پیچھے پیچھے پھر تا کہ ان کے ساتھ وابستہ ہو جائیں ڈاکٹر صا حب کو بلینک چیک بھار ی رقوم کی آفر ہو تیں عامر صاحب کامیابی شہرت کا سیمپل بن چکے تھے اُن کا مقابلہ کسی سے نہیں تھا وہ ون مین آرمی کی طرح جس میدان میں پاؤں رکھتے کامیابی شہرت اُن کے قدم چومتی پھر وہ کمزور عامر صاحب کی زندگی میں بھی آگیا جب شہرت کے آسمان پر چمکنے والے انسان یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ شہرت کامیابی دو لت اقتدار میری ذاتی صفت ہے یہی وہ غلطی ہے جو تاریخ میں بار بار اِس مٹی کے پتلے کے دہرائی سے شہرت کا بخار غرور تکبر میں تبدیل ہوا شہرت ہضم نہ ہوئی جب شہرت کسی بھی انسان کو حاصل ہوتی ہے تو دولت کے ساتھ انسانوں کا بے پناہ پیار اگر مرد ہو تو عورتوں کی برسات ہو جاتی ہے یہ غلطی عامر صاحب سے بھی ہوئی شاندار ازدواجی زندگی کے ہو تے ہوئے دوسری شادی پھر تیسری شادی کے چنگل میں پھنس گئے تیسری شادی خاندانی عورت سے نہ ہو ئی پھر غرور تکبر کی سزا کاعمل شروع ہو ا اور اِس عورت نے شہرت کے آسمان سے ذلت کے گہرے کنویں میں اِس طرح گرایا کہ کسی کو منہ دکھانے کے قائل نہ رہے پھر ٹی وی چینل والوں نے بھی ٹھکرانا شروع کر دیا یہ بے تو قیری ڈاکٹر صاحب سے برداشت نہ ہوئی خو د کو تنہا کمرے میں بند کر لیا اُسی کمرے میں بے بسی کے عالم میں دنیا کو چھوڑ دیا شہرت کے عروج کو اگر کسی نے ہضم کیا تو یہ اولیا اﷲ ہیں جو مرجع خلائق لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہوتے ہیں لیکن یہ متکبر نہیں عاجزی کی چادر اوڑھ کر خدمت خلق کے مشن میں زندگی گزار دیتے ہیں یہی عاجزی اور خدمت خلق اِن کو شہرت دوام عطا کر دیتی ہے یہ مرنے کے بعد بھی کروڑوں دلوں کے تاجدار ہو تے ہیں ۔
 
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 655357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.