میڈیا ایسا بھی ہے۔۔؟

گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں کسی شعبے نے ترقی کی ہو یا نہ کی ہو لیکن میڈیا کے شعبے نے بے انتہا ترقی کی ہے،اس شعبے میں جو انقلاب آیاہے وہ نہایت خو ش آئند ہے،اس انقلاب نے پاکستان کوبین الاقوامی سطح پر بہت اُجاگر کیا ہے،میڈیا یعنی اخبارات،رسائل و جرائد،ریڈیو،ٹی وی،انٹرنیٹ وغیرہ کی آج زبردست اہمیت ہے ۔ اوریہ ذرائع ہمارے سماجی ،معاشی،سیاسی،تجارتی،تعلیمی،مذہبی اورثقافتی زندگی پربراہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں،انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو ان ذرائع کے دسترس سے دور ہو،ان ذرائع کی وجہ سے آج وسیع و عریض دنیا سمٹ کرہمارے ڈرائنگ روم میں آگئی ہے،اور اب پوری دنیا کا نظارہ چھوٹی سی بات ہو کر رہ گئی ہے،ٹیکنالوجی اورذرائع ابلاغ کی اس ترقی کو دیکھ کر ہی جدید الیکڑونکس کے شہنشاہ مارشل میکلوہان نے آج کی دنیا کو گلوبل ویلج کے نام سے موسوم کیا ہے،میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے اور الیکٹرونک میڈیا آنے کے بعد یہ ستون اج انتہائی طاقتور بن چکا ہے،میڈیا انڈسٹری پوری دنیا میں دن بدن ترقی کرتی جا رہی ہے ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء تک دنیا کی انٹرٹیٹمنٹ انڈسٹری 108کھرب ڈالر سے تجاوز کر جائیگی۔آج پاکستان میں 80سے زائد tvچینل کام کر ہے ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ پندرہ سال قبل صرف ایک ہی چینل کام کرتا تھا ۔میڈیا نے اپنی ترقی کی اتنی بلند جست لگائی ہے کہ انسانی جذبات،احساسات اور خیالات کو اس نے بلواسطہ متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔پاکستان میں میڈیا مکمل آزاد نہیں ہے لیکن پھر بھی اسے کافی آزاد میڈیا کہہ سکتے ہیں ۔کسی بھی معاشرے میں میڈیا کے وجود کا مقصد حکومتوں اور دیگر اداروں کی کرپشن اور برائیوں کو بے نقاب کرنا ، عوام میں شعوری اقدار کو بیدار کرنا،عوام کے مسائل کو بلا امتیاز اُجاگر کر نا ،اور ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے مثبت کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔میڈیا آج کے معاشرے میں بے انتہا اہمیت کا حامل ہے اور اسی کی وجہ سے آج وہ اسباب ممکن ہوئے ہیں جس کے بارے میں پندرہ سال قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ میڈیا ہی کے سبب آج لوگ گھر بیٹھے علم حاصل کر رہے ہیں ،اس میڈیا کے بدولت ہی آج خبریں اورمعلومات سیکنڈوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں ۔وکی لیکس کے ذریعے آج بڑے بڑے ملکوں کے راز افشاں ہو رہے ہیں ۔ یہ میڈیا ہی کا کمال ہے کہ آج ورلڈ بینک کے سربراہ کے سیاہ کرتوت بھی رپوش نہ رہ سکے۔ آج حکومت ہو یا حزب اختلاف کسی کے بھی جرائم چھپ نہیں سکتے ۔ عوامی مسائل حل کرنے میں میڈیا کانہایت اہم کردار ہے ۔میڈیا عوام میں ہر قسم کی شعوری اقدار کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔میڈیا کے بدولت انصاف کی فراہمی میں کافی بہتری آئی ہے اگر میڈیا نہ ہوتا توآج خروٹ آباد اور بوٹ بیسن کراچی جیسے واقعات کے خطاکاروں کو کبھی بھی انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جا سکتا ۔میڈیا سچائی کی ایک بڑی طاقت ہے جس کے سامنے باقی ماندہ منفی قوتیں ٹہر نہیں سکتی،میڈیا کسی بھی معاشرے میں برائیوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔میڈیا میں جہاں بہت سی اچھائیاں پائی جاتی ہیں وہیں پر اس میں بہت سی برائیاں بھی ہیں ۔لیکن اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود بھی پاکستانی میڈیا پر عوام کا اعتبا رابھی تک قائم ہے۔اگر آج ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا ہماری زندگی کے تمام تر شعبوں اور پہلوں پر اثر انداز ہورہا ہے تو ہاں کوئی ایسا بھی ہے جو میڈیا پر اثر انداز ہو رہا ہے اور وہ بزنس ، کاروبار یا بازار ۔بزنس نے میڈیا کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا ہے خبریں ہوں تجزیے ہوں ڈرامے ہو یا فلمیں سب پر بزنس حاوی ہو چکا ہے ۔آج میڈیا اور بزنس ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم بن گئے ہیں اور ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں ۔بزنس میڈیا پر اتنا حاوی ہو چکا ہے کہ پانچ منٹ کے نیوز بلٹن میں بھی تین بارکمرشل دیکھا کر عوام کو بور کیا جارہا ہے، اخبارات ،رسائل اور ٹی وی پر بسا اوقات نامنا سب اشتہارات میڈیا پر بزنس کے منفی اثرات کی عکاسی ہے،میڈیا اگر ایک طرف ہماری سیاسی سماجی برائیوں کوبے نقاب کر رہا ہے تو بعض اوقات چند افراد کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے ۔اور یہ قصور ہے بزنس کا جو میڈیا پر حاوی ہو چکا ہے اگر چینلوں اور اخباروں کو پیسے نہیں ملے گے تو وہ کمائے گیں کیسے،لہذا وہ کمائی کے لیے وہ چیزیں بھی دیکھاتے ہیں جس کے دیکھانے پر میڈیا کے ذمہ دار اصولی طور پر مخالف ہوتے ہیں ۔میڈیا کا کام صرف بزنس نہیں بلکہ سماج کو درست اطلاعات فراہم کرنا ہے لیکن آج جس انداز میں اطلاعات فراہم کی جا رہی ہیں اُس میں تجارتی پہلوکو اولیت حاصل ہے، اسی طرح صحافت چاہے طباعتی ہو یانشریاتی بزنس بن کر رہ گئی ہے ۔اگر ہم نیوز چینلوں اور اخبارات کے مواد کا تجزیہ کریں تو دونوں جگہ کچھ مثبت اور کچھ منفی چیزیں پائیں گے ۔صحافت کے پیشے سے وابستہ افراد ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کے رگ وپے میں رچ بس گئے ہیں ،ایک طرف وہ کچھ اچھا کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ کچھ ایسا بھی کر جاتے ہیں جو انسانی زندگی اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں جب سے الیکڑونک میڈیا شروع ہوا ہے صحافت کی دنیا زبردست مقابلے میں مصروف ہوگئی ہے ان میں اس قدر مقابلہ ہو رہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے ہی میں بقا کا راز سمجھتے ہیں ،آپس میں مقابلے کے رجحان کے سبب معمولی خبروں کو بھی بریکینگ نیوز بنا یا جا رہاہے ،آج نیوز چینلوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ اگر کوئی بڑا واقعہ ہو جائے تو وہ پورا دن بلکہ کئی دنو ں تک اُس کو دیکھاتے رہتے ہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی دوسری خبر ، خبر ہی نہیں ہے ،کسی بھی واقعے کو تفریحی طور پردیکھایاجاتا ہے سنسنی خیزی کو پروان چھڑایا جاتا ہے ،جیسا کہ ماضی قریب میں کراچی میں کیٹگری فورکے سمندری طوفان کے خدشے کو میڈیا نے بہت بڑھا چڑھا کر مسلسل سنسنی خیز انداز میں دیکھایا ،جسکی وجہ سے کراچی کے ساحلی علاقوں کے لوگوں پر بھیانک خوف سوار ہو گیا اور وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ،آج ایکسکلیوسیو خبروں کی تلاش میں جائز نا جائز سارے راستے اختیار کئے جارے ہیں،اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا یہ عالم ہے کہ کوئی خبر بریک کرتے وقت اینکر پرسن یہ کہنا نہیں بھولتے کہ یہ خبر سب سے پہلے ہم نے بریک کی ہے،تحقیقاتی رپوٹوں کے نشریات کے دوران ایکسکلیوسیو کی کلپ لگانا فیشن بن چکا ہے ،اس مقابلہ آرائی نے سنسنی کو بری طرح بڑھا وا دیاہے،جس کی وجہ سے معیار پست ہو کر رہ گیا ہے،میڈیا میں نقل کے رجحان کے سبب ایک خبر ایک ہی وقت میں ہو بہو زیادہ تر چینلوں کے ٹیکر کی زینت ہوتی ہے ،خبروں میں سنسنی پیدا کرنے کے لیے غیر اخلاقی طریقہ کار اپنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے،یہاں تک کہ اگر کسی واقعے کی رپورٹ پیش کرنی ہو اور اسکی فوٹج دستاب نہ ہو تو فرضی کرداروں سے ایکٹینگ کروا کر رپوٹ کے ساتھ دیکھایا جاتا ہے ۔re enactmentکے اس عمل میں اصل واقعے اور اس کے پہلووں کو اُجاگر کرنے کے بجائے سنسنی کو ابھارا جاتا ہے جس سے معاشرے پر بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔انوسٹی گیٹیڈ سٹوری بناتے وقت ماورائے عدالت جج بن کر کسی کو بھی مجرم بنادیا جاتا ہے۔جیسا کہ ایک واقعے میں شوہر نے بیوی پر تشددکیا تھا ۔پورے رپورٹ میں شوہر کو وحشی اور درندہ نما انسان بنا کر پیش کیا گیا لیکن نہ تو شوہرسے اُسکے اس عمل کی اصل وجہ پوچھی گئی اور نہ ہی دکھا ئی گئی جو صحافتی اصولوں کے منافی ہے۔ صحافی معاشرے کا حقیقی ترجمان ہوتا ہے اور اُسکا کسی سیاسی، لسانی ،مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن آج میڈیا کے اداروں میں پائی جانے والی لابی ازم اورسیاسی پیرولی کی وجہ سے اصولی صحافت کا سورج غروب ہوتا جارہاہے۔حالیہ کٹی پہاڑی ،قصبہ کالونی کراچی کے پردشدد واقعات میں صرف ایک کمیونٹی کے نقصانات کو بار بار دکھا کر میڈیا نے جانبداری اور پیرولی صحافت کا ثبوت دیا ہے۔اس طرح کی یک طرفہ رپورٹنگ کی وجہ سے میڈیا کا معیار پست ہو تا جارہا ہے اور معاشرے میں میڈیا کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ایک طرف اگر میڈیا معا شرتی برائیوں کو بے نقاب کرکے اچھا کام کر رہا ہے تو دوسری جانب ان برائیوں کے نشاندہی میں صرف چند مخصوص افراد یا صرف ایک پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو صحافتی اقدار کے منافی ہے۔ پاکستانی میڈیا اگرآج پیپلز پارٹی کے کرپشن اسکینڈلز کو بے نقاب کر کے اپنا فرض ادا کررہا ہے تو دوسری جانب مسلم لیگیوں ،ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے کرتوتوں اور کرپشن پر خاموش تماشائی بن کر اپنے دوہرے معیا ر کا ثبوت دے رہا ہے یہ دوہرہ معیار میڈیا کے وقار میں پستی کا سبب بنتا جارہا ہے ۔کرپشن جوآج ہماری نسوں میں سرائیت کرچکا ہے اور اس وقت شاید ہی کوئی ادارہ ایسا ہو جو کرپشن کے زیر اثر نہ ہو۔اسی طرح میڈیا کے اداروں میں بھی بڑے پیمانے پر کرپشن پائی جا تی ہے ۔صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور صحافی اسے پیشہ نہیں بلکہ مشن سمجھ کر اختیار کرتے ہیں لیکن پاکستان میں صحافت سیکھنے لیے نہ کوئی ادارہ ہے اور نہ اسٹیٹیوٹ جہاں صحافیوں کی مکمل اخلاقی اور پیشہ وارانہ تربیت کی جاتی ہو جسکی وجہ سے صحافت کے پیشے سے وابستہ زیادہ تر لوگ بلیک میلنگ بھتہ خوری اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے لاکھوں ،کروڑوں روپوں کے کرپشن میں ملوث ہیں ، معاشرے میں میڈیا کی خاص اہمیت ہے جسکا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈیا کے کئی لوگ بھتہ لینے والوں سے بھتے وصول کر رہے ہیں ، سیاسی پارٹیوں اور حکومتی اداروں سے ناجائز مراعات وصول کر رہے ہیں ۔میڈیا اپنی ان تمام تر خامیوں اور برائیوں کے باوجود عوام کا اعتبار حاصل کرنے میں تا حال کامیاب ہے لیکن اگر میڈیا کے ذمہ داروں کی جانب سے ان خامیوں اور برائیوں کی روک تھام نہ کی گئی اور گزرتے وقت کے ساتھ ان خامیوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا رہا اورمیڈیا کا معیار یوں گرتا رہاتو وہ دن دور نہیں جب ہر طرف سے مایوس قوم میڈیا سے بھی مایوس ہو جائیگی اور پھر شایدمعاشرے پرراج کرنے والے اس میڈیا کو اپنا کویا ہوا مقام حاصل کرنے میں صدیاں بیت جائے ۔
جان عالم سوات
About the Author: جان عالم سوات Read More Articles by جان عالم سوات: 21 Articles with 26308 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.