فکر ہے تو حال کی اور مال کی

اس وقت حق بولنا اور حق لکھنا اتنا ہی مشکل ہوچکا ہے جتناکہ اللہ کے رسول ﷺ کے مکی دور میں مشکل تھا ، یا کچھ اور آگے بڑھ کر جائیں تو وہی مشکلات درپیش ہورہی ہیں جو بھارت میں برٹش دور میں ہورہی تھیں۔اس وقت بھارت میں دو طرح کی گروہ بندی ہوچکی ہے ایک گروہ مودی بھگت ہوچکا ہے تو دوسرا گروہ اہل علم اور سیاستدانوں کا بھگت ہوچکا ہے اور دونوں ہی گروہوں پر اگر آپ کچھ تنقید کرتے ہیں یا سچ کہتے ہیں تو آپ کی خیر نہیں ، ایک طرف بلڈوزر چلانے کیلئے تیاریاں ہوتی ہیں تو دوسرا گروہ تنقید کرنے والوں کی خبرگیری کرنے پہنچ جاتا ہے ۔ باوجود اسکے کہنا ہمارا حق ہے ، لکھنا ہمار ا حق ہے اور تنقید برائے اصلاح قلم اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ بھارت میں پچھلے کچھ دنوں سے توہین رسالت کے جو واقعات رونماہورہے ہیں اور ان واقعات کی مذمت کو لیکر عام بھارتی مسلمان جس طرح سے غم و غصے میں ہیں یا پھر اپنا درد ظاہر کرنے کیلئے احتجاجات کررہے ہیں وہ لازمی عمل ہے کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک سب سےزیادہ شخصیت ہے تو وہ پیغمبر رسول ﷺ ہیں جن کیلئے مسلمان اپنا سب کچھ قربان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اسی بات کو لیکر بھارت کے رانچی میں دو کمسن جوانوںنے اپنی جانیں قربان کی اور مرتے وقت بھی اسلام زندہ باد اور لبیک یارسول ﷺ کا جملے زبان پر جاری ہوئے ۔ کئی لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں اور کئی لوگ حراستوں میں اذیتیں جھیل رہے ہیں اور نبی ﷺکی شان میں اپنی جان ، مال اور اولاد قربان کرنے کا جو دعویٰ رہاہے ا س پر عمل کررہے ہیں ۔ بھارت کا عام مسلمان نبی ﷺ کی شان کے تحفظ کیلئے اپنا حق ادا کررہاہے شاید وہ یہ عمل اپنے خدا اور نبی ﷺ کو راضی کرنے کیلئے انجام دے رہےہیں ۔ دوسری جانب اسی بھارت میں ایک طبقہ اہل علم اور سیاستدانوں کا بھی ہے جو کہنے کو تو قائد ہیں ، لیڈر ہیں ، اہل علم ہیں اور نہ جانے کیا کیا ہیں وہ اب بھی حکمت کے تحت کام کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں اورسوائے چند تنقیدی بیانات کے اور کسی بھی طرح کی رد عمل ظاہر نہیں کررہے ہیں ۔ گستاخ رسول ﷺ نوپور شرما اور نوین جندال کو جب بی جے پی سے برطرف کیا گیا تھا تو اس وقت مولانا محمود مدنی نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انہوںنے کہا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک ذمہ دار قومی سیاسی جماعت ہے اور اس نے گستاخوں کو باہر کا راستہ دکھا کر اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور یہ ملک کیلئے خوش آئند بات ہے ۔ مولانانے جو بیان دیا ہے وہ بی جے پی کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرنے والابیان تھالیکن اسکے بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں جس طرح سے بی جے پی کی زیر قیادت والی حکومتوںمیں نہکتے مسلم نوجوانوں کا قتل عام ہورہاہے اس وقت بھاجپاکی ذمہ داری کیوں یاد نہیں دلوائی جارہی ہے ۔ ایک بات قابل غور یہ ہے کہ اس وقت بھارت کا بیشتر علمی طبقہ ، سیاستدان اور قائدین اپنے محلات نماگھروں میں سکون کے ساتھ ہیں اور وقتاًفوقتاًایک دو بیانات دیکر خاموشی اختیار کررہے ہیں، ایک دوسرے کی واہ واہی کرتے ہوئے مطمئن ہوئے جارہے ہیں ، اپنی جانوں اور مالوں کے تحفظ کیلئے حکمت کا لبادہ اوڑھے گھوم رہے ہیں ۔ کہیں اپنی ملکیت پر ای ڈی اور سی بی آئی کی ریڈ نہ پڑھ جائے اس فکر سے زبانوں کو لگام دئے ہوئے ہیں ۔ جن مقاصد کے تحت تنظیموں ، اداروں اور جمعیتوں کا قیام کیا گیا تھا ان مقاصد سے ہٹ کر مفادات کو ترجیح دی جارہی ہے ۔ دل میں خود خدا کے بجائے خوفِ ای ڈی و سی بی آئی لئے گھوم رہے ہیں ۔ نبی ﷺ کی شان میں مرمٹنے کی دہائی دینے والے اہل علم اب ارباب اقتدار کے سائے میں چلے جارہے ہیں ۔ اگر سوال کیاجاتا ہے تو پلٹ کر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ تم نے کیا کرلیا ؟۔ یقیناًبھارت کا ہر مسلمان کچھ نہیں کرسکتا لیکن جنہوںنے کچھ کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر عائد کرلی ہے تو انکو ہی کرنا ہوگا۔ افسوس صد افسوس کہ آج نبی ﷺ کی شان میں گستاخیاں کھلے عام ہورہی ہیں اور قائدین کے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں ۔ جبکہ عام مسلمان سڑکوں پر اتر کر احتجاج کررہے ہیں ، سینوں پر گولیاں کھارہے ہیں ، مائیں اپنے بچوں کی شہادت پر رشک کررہی ہیں ، حق گواپنے گھروں کو مسمار ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور زبان پر اب بھی لبیک یارسول کا نعرہ ہی ہے ۔ کاش کہ اس وقت مسلمانوں کے قائدین جیل بھرو اندولن شروع کرتے ۔ گنگاجمنا تہذیب کو بچانے کا نعرہ لگاکر بڑے بڑے جلسے منعقد کرنے کے بجائے رام لیلا میدان میں نبی ﷺکی شان میں احتجاج کرتے ۔ کاش کہ جنگ آزادی کیلئے شروع ہونے والی تحریک کا ایک حصّہ تحریک ریشمی رومال کی طرح تحریک نالعین رسول ﷺ شروع کرتے ۔ شہید ہوتے نوجوانوں کے حق میں اجتماعی دعائوں کا اعلان کرتے اور نبی ﷺ کی شان کی بقاء کیلئے بھارت حکومت کو للکارتے ۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہورہاہے ،کیونکہ ہمیں اپنی جانیں پیاری ہیں ، اپنا مال پیاراہے ، اپنے چندے پیارے ہیں ، اپنے عہدے پیارے ہیں ، اپنا وجود پیاراہے ، ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہمیں شہادت کی موت میدانِ کار میں آتی ہے ۔ ایوانوں ، محلات ، بنگلوں اورلال بتی والی کاروں میں گھومنے سے نہیں آتی ۔ ہم نے اپنا ماضی بھلادیا ہے ، ہمیں مستقبل کی فکر نہیں ہے ،ہمیں فکر ہے تو حال کی اور مال کی۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.