پلاسٹک آلودگی کا عالمی چیلنج

اس وقت دنیا میں پلاسٹک آلودگی پر قابو پانے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔اس ضمن میں مختلف آگاہی سرگرمیوں کے انعقاد سے شہریوں میں پلاسٹک استعمال کی حوصلہ شکنی کے رویوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ایک حالیہ تحقیقی نتائج کے مطابق،آج پلاسٹک آلودگی سے بری طرح متاثر ہونے والی دنیا نے چار دہائیوں سے بھی کم عرصے میں پلاسٹک کے استعمال میں تقریباً تین گنا اضافہ دیکھا ہے۔ 1950 کی دہائی سے، تقریباً 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا گیا ہے جس میں 60 فیصد سے زائد یا تو زمین کی بھرائی میں چلا گیا،یا جلا دیا گیا یا براہ راست دریاؤں اور سمندروں میں پھینک دیا گیا ہے۔صرف 2019 میں ہی تقریباً 460 ملین ٹن پلاسٹک استعمال کیا گیا، جو 20 سال پہلے کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ پلاسٹک فضلے کی مقدار بھی تقریباً دوگنی ہو چکی ہے اور مجموعی تعداد 350 ملین ٹن سے تجاوز کر گئی ہے، جس میں سے 10 فیصد سے بھی کم کو ری سائیکل کیا گیا ہے۔

تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی (او ای سی ڈی) کے مطابق، رکازی ایندھن پر مبنی پلاسٹک کی سالانہ پیداوار 2060 تک 1.2 بلین ٹن سے تجاوز کر جائے گی جبکہ پلاسٹک فضلہ بھی ایک بلین ٹن سے بڑھ جائے گا۔یہ امر تشویش ناک ہے کہ دنیا میں پلاسٹک مانگ میں کمی اور پلاسٹک استعمال کو ترک کرنے کے لیے جاری فعال کوششوں کے باوجود، 40 سال سے بھی کم عرصے میں پلاسٹک کی پیداوار تقریباً دوگنی ہو جائے گی۔ تاہم یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ عالمی سطح پر مربوط پالیسیاں اور پلاسٹک کی حوصلہ شکنی کے اقدامات کی بدولت مستقبل میں ری سائیکل کیے جانے والے پلاسٹک فضلے کے شیئر کو 12 سے 40 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ پلاسٹک آلودگی کے حجم ، ہمہ گیر موجودگی اور اس کے منفی اثرات پر بین الاقوامی خطرے کی گھنٹی مسلسل بڑھ رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پلاسٹک کرہ ارض کے سب سے دور دراز اور بصورت دیگر قدیم خطوں تک پہنچ چکی ہے ،سمندر کی گہرائیوں میں مچھلیوں کے اندر مائیکرو پلاسٹک اور آرکٹک برف کے اندر پلاسٹک زرات کی موجودگی ، یہ سب خطرے کے الارم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پلاسٹک فضلہ ہر سال 01 ملین سے زائد سمندری پرندوں اور 01 لاکھ سے زائد سمندری ممالیہ کی موت کا سبب بنتا ہے۔اسی باعث ماہرین پلاسٹک آلودگی کو 21ویں صدی کے عظیم ماحولیاتی چیلنجوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں، جس سے ماحولیاتی نظام اور انسانی صحت کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔

اس ضمن میں مختلف ممالک کی جانب سے پلاسٹک فضلے کے بہتر انتظام کی پالیسیاں بہت بڑا فرق لا سکتی ہیں کیونکہ فی الحال تقریباً 100 ملین ٹن پلاسٹک فضلہ یا تو بدانتظامی کا شکار ہے یا اسے ماحول میں رسنے کی اجازت ہے، جو کہ 2060 تک دوگنا ہو جائے گا۔پلاسٹک فضلے کا بہتر انتظام کرہ ارض کو گرم کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار کو بھی کم کر سکتا ہے جبکہ عدم توجہ عالمی حدت کو مزید بڑھا سکتی ہے۔

چند دیگر ممالک کی طرح چین بھی ملک میں پلاسٹک کی حوصلہ شکنی کے لیے مختلف اقدامات اپنا رہا ہے۔ چینی حکومت نے یکم جون 2008 کو سپر مارکیٹوں اور دکانوں پر صارفین کو مفت پلاسٹک بیگز دینے پر پابندی عائد کرتے ہوئے توانائی کی کھپت کو کم کرنے اور ماحول کے تحفظ کے لیے قوانین متعارف کروائے تھے۔اس اقدام نے ملک میں پلاسٹک بیگز کی تعداد میں نمایاں کمی لائی ہے اور آج سپر مارکیٹس میں چینی شہری اپنے کپڑے کے تھیلوں کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔اسی طرح چین نے ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے 24 اقسام کے ٹھوس فضلے کی درآمد پر پابندی کا اعلان بھی کیاہے جبکہ اس سے قبل چین دنیا کا نصف سے زائد پلاسٹک ویسٹ درآمد کرتا تھا ۔اسی طرح چین کی کوشش ہے کہ رواں سال کے آخر تک، اہم صوبوں اور شہروں میں پوسٹل اور ایکسپریس سروسز کے لیے نان ڈیگریڈ ایبل پلاسٹک کی پیکیجنگ سمیت ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک تھیلے کے استعمال کو مکمل ترک کر دیا جائے۔اسی طرح نئے اقدامات کی روشنی میں ایسی تمام پلاسٹک مصنوعات پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جو ایک مرتبہ ہی استعمال ہو سکتی ہیں مثلاً ریستورانوں اور کیفے وغیرہ میں استعمال ہونے والے ڈسپوزایبل برتن وغیرہ۔انہی ماحول دوست اقدامات کی روشنی میں چین پر امید ہے کہ 2025 تک ملک میں پلاسٹک آلودگی کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے، اہم شہروں میں پلاسٹک فضلے کو کافی حد تک کم کرنے، ایک جامع پلاسٹک مینجمنٹ سسٹم قائم کرنے اور متبادل مصنوعات کی ترقی میں پیشرفت سے اپنی ماحول دوستی کو مزید اجاگر کرتے ہوئے دیگر دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی جائے گی۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1158 Articles with 453208 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More