ہندو شر پسندوں کی نئی سازش ”لَو جہاد“

کئی برس پہلے ایک دوست نے جو غیر مسلم علاقے میں رہتا تھا، اور اس کے دوستوں میں غیر مسلم بھی کافی تعداد میں تھے، نے بتایا کہ ہندو شر پسندوں کی شدت پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس اپنے نوجوانوں کو یہ تربیت دے کر مخلوط تعلیمی اداروں (کالجز و یونی ورسٹیز) میں بھیجتی ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو عشق و محبت کے جال میں پھانسو اور شادی کرو، لڑکیاں اگر ہندو مذہب قبول کرلیں تو ٹھیک ورنہ ایسے ہی شادی شدہ زندگی گزارو۔ اس لائحہ عمل کے تحت خفیہ طریقے پر یہ عمل برسوں سے جاری ہے۔ آر ایس ایس ذہنیت کے زیر اثر فلموں اور ٹی وی پر بھی مسلم لڑکی، ہندو لڑکے کے رومانس اور شادی کے تصور کو عام کرکے پختہ کیا جارہا ہے اور مسلم لڑکیوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ جس کی ایک مثال ۵۹۹۱ءمیں بابری مسجد کے پس منظر میں بننے والی فلم ”بامبے“ ہے، جس میں ایک مسلمان برقعہ پوش لڑکی گھر سے بھاگ کر ہندو لڑکے سے شادی کرتی ہے اور دونوں ہی اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔

لیکن اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق آر ایس ایس، ہندو جن جاگرن سمیتی وغیرہ شر پسند بلکہ دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں پر یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر شادی کررہے ہیں، ان کا مذہب بدل رہے ہیں، یا عشق کے جال میں پھانس کر عصمت تار تار کررہے ہیں۔ کچھ انفرادی واقعات کو بنیاد بناکر یہ ہندو توا وادی عناصر ان معاملات کو ”لو جہاد“ نامی ایک منصوبہ بند سازش قرار دے رہے ہیں اور اس بارے میں ایسی من گھڑت باتیں پھیلا رہے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔حال ہی میں ”لو جہاد“ نام سے ایک انتہائی قابلِ اعتراض اور نفرت انگیز کتاب شائع کی گئی ہے، اس کتاب کے ذریعے نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کی جارہی ہے، بلکہ عیسائی، سکھ، پارسی اور دیگر طبقات کو بھی مسلمانوں کے خلاف ورغلانے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی حرکت کی جارہی ہے۔

مسلم لڑکی ہندو لڑکا شادی کے تصور کو اس قدر عام اور غیر معیوب معاملہ بنا دیا گیا ہے جس کے زیر اثر دین دھرم کے آج کے نوجوانوں کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ اسی لیے مسلم لڑکے بھی ہندو لڑکیوں سے ان کا مذہب بدلے بغیر شادی کر رہے ہیں اور زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کلچر کو عام کرنے میں انڈین فلم انڈسٹری نمایاں ترین ”خدمات“ انجام دے رہی ہیں۔ جہاں بظاہر دین دھرم کا کوئی تصور ہی نہیں۔ جب چاہے کوئی کسی سے بھی شادی کرے، جب چاہے چھوڑ کر نئے ساتھی کے پیچھے لگ جائے۔

لیکن ہم اور آپ بلکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ آج فلم اسٹار ہی نوجوان لڑکے لڑکیوں کے آئیڈیل ہیں اور رفتہ رفتہ کرکٹر بھی اس کے زیر اثر آرہے ہیں۔ مشہور کرکٹر عرفان پٹھان جو کہ ایک موذن کا بیٹا ہے، نے ایک ہندو لڑکی سے اس کا مذہب تبدیل کیے بغیر شادی کی اور ازدواجی زندگی گزار رہا ہے۔

جبکہ ایک مسلمان کے نزدیک ایمان ہی سب کچھ ہونا چاہیے۔ ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اسلام دشمن اور ہندو توا وادی عناصر نے جب دیکھا کہ مسلمان ایمان میں اس قدر پختہ ہوتے ہیں کہ ان کو کسی بھی معاملے میں شکست دینا ممکن نہیں رہتا، تو انھوں نے منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کی نئی نسل کا ایمان کمزور اور خراب کرنے کے لیے یہودیوں کی طرح لڑکے لڑکیوں کا استعمال شروع کردیا۔

مسلم علما، والدین، سماج کے ذمے داران اس حسّاس معاملے پر توجہ فرمائیں اور اپنی نئی نسل خصوصاً لڑکیوں پر گہری نظر رکھیں، بلکہ جہاں تک ممکن ہو لڑکیوں کو مخلوط تعلیمی اِداروں میں نہ بھیجتے ہوئے صرف لڑکیوں کے لیے مختص تعلیمی اداروں میں بھیجیں۔ اس کے علاوہ آج موبائل فون کے ذریعے لڑکے لڑکیوں میں چپکے چپکے راہیں ہموار ہوجاتی ہیں اور لڑکے سرگوشیوں میں نہ جانے لڑکیوں کے کان میں کیا سُر پھونکتے ہیں کہ لڑکیاں والدین، سماج اور مذہب سے بغاوت کرکے غیر مذہب کے لڑکے کو بآسانی قبول کرلیتی ہیں اور خاندان کے ساتھ پورے معاشرے کے لیے بدنامی کا سبب بنتی ہیں۔ ان حالات میں کیا آپ اب بھی نہ بیدار ہوں گے؟؟؟
zubair qadri
About the Author: zubair qadri Read More Articles by zubair qadri: 6 Articles with 6523 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.