آکسفام رپورٹ: کب تک سرمایہ کے دھندے ،کب تک یہ سرمایہ داری

کورونا وائرس کی وبا کے باعث 2 سال کے بعد پہلی بار عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں لوگ بہ نفس نفیس شریک ہوئے ۔ اس موقع پر پھر ایک بار آکسفام نے اپنے تازہ ترین جائزے شائع کردئیے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق کورونا کی وباء کے دوران ہر 30 گھنٹوں میں ایک ارب پتی کا اضافہ ہوا یعنی وباء کے دوران جملہ 573نئے ارب پتی پیدا ہوگئے ۔ اس سے قبل 23سالوں میں ان لوگوں کی دولت جتنی بڑھی تھی اتنی ان لوگوں نے وباء کے 24 مہینوں میں بڑھا لی اس سے اندازہ لیا جاسکے کہ غریبوں کا اس مشکل وقت میں کس بری طرح سے استحصال کیا گیا ۔ سال 2000 میں ان سرمایہ داروں کی دولت عالمی جی ڈی پی کا صرف 4.4 فیصد تھی لیکن اب تین گنا بڑھ کر 13.9 فیصد ہوگئی۔ یہ اس لیے ممکن ہوسکا کیونکہ غربت و افلاس کے سبب محنت کش کم اجرت پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوگئے۔ نجکاری اورمونوپولی کے قوانین کی وجہ سے مزدوروں کے حقوق سلب کیے گئے ۔

وباء کے دوران عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والی جمہوری سرکاروں نے اپنے رائے دہندگان کا خیال رکھنے کے بجائے ان سرمایہ داروں کو ٹیکس میں زبردست سہولتیں فراہم کیں۔ اس کی بدترین شکل ہندوستان کے اندر دیکھنے کو ملی ۔عالمی سطح پر توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی پانچ سب سے بڑی کمپنیوں نے ہر سیکنڈ میں 2600 ڈالر منافع کمایا اور غذا کا روبار کرنے والے 62 نئے ارب پتی عالمِ وجود میں آگئے۔ کارگل نامی کمپنی کے اندر فی الحال 12 ارب پتی ہیں جبکہ وباء سے پہلے ان کی تعداد صرف 8 تھی۔ کارگل کے ساتھ تین مزید کمپنیوں نے دنیا ۷۰ فیصد غذا کے کاروبار پر قبضہ کررکھا ہے۔ کورونا وباء کے دوران چور دروازے سے گوتم اڈانی کو ہندوستان کا کارگل بنانے کی خاطر ظالمانہ کسان قانون بنایا گیا تھا لیکن ملک کے کسانوں نے زبردست تحریک چلا کر اس سازش کو ناکام کردیا مگر حکومت پھر سے اسے واپس لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔غذا کے علاوہ ادویات کے میدان میں ۴۰ نئے ارب پتی پیدا کردیئے اور ویکسین بنانے والی موڈرنا اور فائزر نے ہر سیکنڈ میں ایک ہزار ڈالر منافع کمایا کیونکہ ان کی کمائی ۲۴ گنا زیادہ ہے ۔

اس کے برعکس ا ٓ کسفام کی محترمہ بوچر کے مطابق ہر 33 گھنٹوں میں دس لاکھ لوگ انتہائی غربت کی کھائی میں ڈھکیل دیئے گئے اور ان کی تعداد میں اس سال26.3 کروڈ کا اضافہ ہوگا ۔ وطن عزیز میں چونکہ پانچ صوبوں کے انتخابات گزرگئے اس لیے 80 کروڈ لوگوں کی سرکاری خیرات سے گیہوں نکال دیا گیا۔ اب تو سنا ہے راشن کارڈ ہی چھیننے کی تیاری چل رہی ہے۔ ایک طرف اشیائے ضروری کی قیمتیں دن بہ دن آسمان کو چھورہی ہیں۔ ہندوستان میں یہ شرح گزشتہ ۲۸ سالوں میں سب سے زیادہ ہوگئی ہے وہیں دوسری جانب غذا اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ دار ہر دودن میں ایک سو کروڈ کمارہا ہے جبکہ لاکھوں لوگ ہر روز ایک وقت کا کھانا ترک کررہے ہیں اور فکر مند ہیں کہ آگے اپنا وجود کیسے قائم رکھ سکیں گے ؟ مشرقی افریقہ میں ہر منٹ ایک فرد بھکمری کا شکار ہورہا ہے۔ اس زبردست عدم مساوات انسانیت کے رشتے کو تار تار کردیا ہے۔

اس قاتلانہ نابرابری نے سری لنکا اور سوڈان میں مہنگائی اتنی بڑھی کہ خانہ جنگی کی حالت آگئی۔ دنیا کے ۶۰ فیصد کم آمدنی والے ممالک خسارے کے سبب ٹوٹنے کے کگار پر پہنچ گئے ہیں۔ فی الحال غریب ممالک کے لوگ امیروں کے مقابلے دوگنا قیمت پر اناج خرید رہے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے غریب ترین پچاس فیصد محنت کش ۱۱۲سال میں جتنا کماتے ہیں اتنا اوپر کے ایک فیصد لوگ ایک سال میں کما لیتے ہیں ۔ آکسفام نے دنیا بھر میں جمہوریت کا ڈھونگ کرنے والی حکومتوں سے ان کروڈ پتیوں پر ۲ فیصد سے پانچ فیصد اضافی ٹیکس لگانے کی سفارش کی ہے ۔ اس سے ہرسال ۲۵۲۰ ارب روپئے جمع ہوں گے اور اس کی مدد سے ۳ء۲ ارب لوگوں کو غربت گڑھے سے نکالنے کے لیے کافی ہے۔ اس غریب اور متوسط آمدنی والے ملک میں ہر فرد کو ویکسین بھی مہیا کی جاسکتی ہے لیکن جس طرح پہلے آکسفام کی سفارشات کو ٹھکرا کر عوام کو مندر مسجد جیسے مسائل میں الجھا کر انتخاب جیتے جاتے تھے آگے بھی یہی ہوگا اور جمہوری حکمراں سرمایہ داروں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے رہیں گے ۔ ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
آیا جمہور میرے ملک میں گھر ٹوٹ گئے
دیس کے مدّو جزر زِیر و زَبر ٹوٹ گئے
رہبرِ قوم کے منشور سے توبہ ہے میری
ہے یہ جمہور تو جمہور سے توبہ ہے میری

کورونا کی وباء کے پہلے 6؍ ماہ میں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ بنی نوع انسانی کتنی بڑی تباہی سے دوچار ہونے والی ہے؟ کرونا وائرس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنے والے برطانوی امپیریل کالج کے ماہرین نے ہندوستان اور نائیجریا جیسے ممالک میں جہاں کم یا متوسط آمدنی والے افراد کی تعداد زیادہ ہےکورونا وائرس کی وبا کےتیزی سے پھیلنے کی پشنگوئی کردی تھی جو درست ثابت ہوئی ۔ آگے چل عالمی صحت کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں یہ کہہ دیا کہ ہندوستان میں وباء سے مرنے والوں کی اصلی تعدادسرکار اعدادو شمار سے تقریباً دس گنا زیادہ تھی۔ اس کی بنیادی وجہ صحت کے معاملات میں غیر منصفانہ فرق یا عدم مساوات ہے۔امپیریل کالج کے محقق پیٹر ونسکل کے مطابق امیر گھرانے سے آنے والے مریض کی نسبت غریب کے ہلاک ہونے کا 32 فی صد امکان زیادہ تھا کیوں کہ اسےاسپتال تک رسائی نہیں مل پارہی تھی اور اس کا انتہائی نگہداشت کے بستر تک پہنچنا محال تھا۔ بیماری کے دوران آکسیجن کے در بدر کی ٹھوکر کھانے والوں اور موت کے بعد دریامیں بہنے والی لاشوں کے مناظر کون بھول سکتا ہے؟

کورونا کے منفی اثرات تو عوام پر ہوئے مگر اس دوران جمہوری ممالک میں رہنے والے دنیا کے 10 امیر ترین افراد نے اپنی دولت کو دوگنا کر لیا ۔ امیر ترین مردوں کی دولت 700 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 1.5 کھرب ڈالرز تک پہنچ گئی ہے یعنی اوسطاً 1.3 ارب ڈالرز یومیہ کی شرح بڑھی۔ یعنی جو عدم مساوات روزانہ 21 ہزار غریبوں کو لقمۂ اجل بنارہی تھی وہی امیروں کی تجوری میں یومیہ 1.3 ارب ڈالر کا اضافہ کررہی تھی۔ جمہوری نظام اس لوٹ کھسوٹ کا محض خاموش تماشائی نہیں تھا بلکہ اس کے آسانیاں فراہم کررہا تھا اور اس بہتی گنگا میں نہ صرف ہاتھ دھو رہا تھا بلکہ ڈبکی لگا رہا تھا ۔ وبائی مرض کے دوران پچھلے 14 سالوں کے مقابلے میں ارب پتیوں کی دولت سب سے زیادہ بڑھ گئی اور عالمی دولت میں ان کا حصہ ریکارڈ رفتار سے بڑھ گیا ۔ آکسفام نے دنیا بھر میں ویکسین کی تیاری کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال، موسمیاتی موافقت اور جنس کی بنیاد پر تشدد میں کمی کے لیے فنڈز فراہم کرکے زندگیاں بچانے کی خاطر ٹیکس اصلاحات پر زور دیا لیکن اس کے مشورے کو جمہوری حکمرانوں نے نظر انداز کردیا ۔

یہ صورتحال محض یوروپ اور امریکہ تک محدود نہیں تھی بلکہ ارب پتی افراد کی لسٹ میں بیجنگ سرِفہرست تھا۔ اس کے علاوہ دور دراز کے براعظم آسٹریلیا میں بھی 47 ارب پتیوں کی دولت میں تقریباً 205 ملین ڈالر یومیہ اضافہ ہوتارہا تھا۔ کووڈ 19کے پہلے دو سالوں میں انہوں نے اپنی دولت کو دوگنا کر کے 255 بلین ڈالر تک پہنچا دیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ افراد فی سیکنڈ 2300 ڈالر کی شرح سے کما رہے ہیں۔ ان لوگوں کی دولت کا ایک فیصد عالمی آبادی کے 99 فیصد افراد سے زیادہ تھا ۔اس لیے آکسفام نے آسٹریلیا سمیت دنیا کی مختلف حکومتوں سے استدعا کی کہ امیر افراد پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لیا جائے لیکن چونکہ وفاقی انتخابات نزدیک تھے اس لیے سرمایہ داروں ٹیکس کے بجائے چندہ لے کر انتخاب لڑنے کو ترجیح دی گئی ۔ا ٓسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کرافرڈ سکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر پیٹر وائٹ فرڈ نے عمر رسیدہ افراد کی نگہداشت کے اداروں میں سرمایہ کاری کرنے پر زور دیا لیکن ان کی کون سنتا ہے؟

آکسفام کے چیف ایگزیکٹیو ڈینی سرسکندراجا نے تعجب کا اظہارکیا کہ وبا کے دوران تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی نیا ارب پتی بنا جبکہ دنیا کی بقیہ 99 فیصد آبادی لاک ڈاؤن، کم ہوتی بین الاقوامی تجارت اور سیاحت کی وجہ سے بدتر حالات میں مبتلا رہی۔اس کے نتیجے میں دنیا کے مزید 160 ملین سے زیادہ افراد غربت میں جا گرے یعنی ان کی یومیہ آمدنی 5.50 ڈالر سے بھی کم ہوگئی۔انھوں نے اعتراف کیا کہ ’ہمارے معاشی نظام میں کچھ بہت غلط ہے۔‘کیونکہ عالمی بحران کے دوران بھی ہمارا غیر منصفانہ معاشی نظام امیر کو امیر تر کرتا رہا لیکن غریب افراد کو تحفظ نہیں دے سکا۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی رہنماؤں کے پاس اب یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ ’ہم جس خطرناک راستے‘ پر ہیں، وہ اسے ’تبدیل کرنے کے لیے‘ جرأت مندانہ معاشی حکمت عملی کی حمایت کریں۔سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سیاسی چندے کے بل بوتے پر ذرائع ابلاغ کو خرید کر حکومت سازی کرنے والے رہنماوں سے اس کی توقع کیسے کی جاسکتی ہےـڈینی سرسکندراجا تو سرمائے اور دولت پر زیادہ محصولات عائد کرکے ااضافی آمدنی کو معیاری صحت اور سماجی تحفظ پر خرچ کرنے کی سفارش کرتے ہیں لیکن رہنما تو سرمایہ داروں کی سرپرستی کرکےان کو امیر ترین بنانے کے لیے فکر مند رہتے ہیں گوتم اڈانی اس کی کھلی مثال ہیں۔اسی لیے علامہ اقبال کہتے ہیں؎
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہُوری لباس
جب ذرا آدم ہُوا ہے خود شناس و خود نگر
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1240109 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.