مکافاتِ عمل (صرف بالِغان نظر کیلئے)

محترم قارئین کافی عرصہ ہُوا کہ کوئی تحریر لکھنے کی نہ ہمت رہی اور اور نہ ہی ایسی کوئی تحریک دِل میں پیدا ہُوئی لیکن شعبان المعظم کے آخری عشرے سے کوئی روزانہ میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ میں اِس واقعہ کو ضرور لکھوں آج طبیعت کُچھ بِہتر ہے تو سُوچا کیوں نہ اسکا فائدہ اُٹھاتے ہُوئے یہ امانت آج آپ تک پُہنچا ہی دُوں جِسے قریباً 25 برس سے اپنے سینے میں ایک زخم کی طرح پال رہا ہُوں۔

یہ اُن دِنوں کا واقعہ ہے جب میں قریباً سولہ برس کا تھا ایک شام گھر لوٹتے ہُوئے ایک ایسا دلخراش منظر آنکھوں نے دیکھا کہ میرا ننھا سا ذہن خُوف سے بھر گیا اور وہ حادثہ میرے ذہن میں بے شُمار سوالات چھوڑ گیا۔

ہمارے گھر کے نزدیک ایک نوجوان جو کافی تعلیم یافتہ اور علاقے کا سب سے زیادہ خُوش لباس اور مالدار شخص اپنے والد کو(جو علاقے کے سب سے نیک بُزرگ مشہور تھے) مار رَہا تھا والد بیٹے کے ہاتھوں مار کھا کر زمین پر نیم بے ہُوش پڑا تھا اور اِس آپا تھاپی میں اُس بوڑھے شخص کا تہنبد کُھل گیا تھا۔

اُس رات میرے حساس ذہن میں سب سے پہلا سوال یہی پیدا ہُوا کہ کیا کوئی بیٹا اپنے باپ کو اسطرح مار سکتا ہے اور آخر اُس بوڑھے شخص نے ایسا کونسا جُرم کردِیا تھا کہ جسکی وجہ سے اُسکا دُنیاوی تعلیم یافتہ بیٹا انسانیت کی معراج سے گِر کر حیوانوں کے رِیوڑ میں شامل ہونے پر مجبور ہُوگیا تھا۔

میری پریشانی کو اگر اُس وقت کِسی نے بھانپا تو وہ ہستی میری ماں کی تھی جو میرے چہرے کے بدلتے رنگوں اور میرے ٹُوٹے ہوئے دِل کو محسوس کرسکتی تھی۔

رات کو جب میں سونے کی تیاری کررہا تھا تب وہ میرے سرہانے آکر میرے سر میں اپنی انگلیاں پھیرتے ہُوئے وہ مجھ سے دریافت کرنے لگیں کیا بات ہے اقبال آج اتنے اداس اور پریشان کیوں نظر آرہے ہُو؟

میں نے ماں کی نرم انگلیوں کا لمس محسوس کرتے ہی اپنے دِل و ذہن سے تمام سوالِ پریشان نکال کر ماں کے سامنے بکھیر دِیئے اُنہوں نے اُن تمام سوالوں کو سمیٹ کر مجھے میری عمر کے مطابق جوابات عطا کردیئے۔

وہ کہنے لگیں بیٹا بات صرف اتنی تھی کہ بابا جی سے دوسروں کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی وہ رات دِن اپنے وقت کو لوگوں کی خِدمت کے لئے وقف کرچُکے ہیں یا تو مسجد کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں یا لوگوں کی پریشانیاں اپنے دامن میں سمیٹ کر اُنہیں خُوشیاں تقسیم کرتے رہتے ہیں اور یہاں تک کہ جب سارا علاقہ رات کو خُواب غفلت میں پڑا ہُوتا ہے یہ بابا جی تہجد ادا کررہے ہُوتے ہیں اور لوگوں کی پریشانیاں اپنے کریم رَبّ کی بارگاہ میں پیش کرکے اُنکے لئے آسانیوں کی تمنا میں اپنے رُخسار کو رات کے اندھیروں میں آنسوؤں سے بھگو رہے ہُوتے ہیں۔

آج محلے کی ایک سیوریج نالی اہل مُحلہ کی بے حِسی اور غیر ذِمہ داری کی وجہ سے شاپر اور کپڑے نالی میں پھنس جانے کی وجہ سے اُبل پڑی جسکی وجہ سے سیوریج کا گندہ پانی سڑک پر اُبل پڑا تھا سب اپنے اپنے کپڑے بچا کر اُس گندے پانی سے بچ کر نِکل رہے تھے اور بلدیہ کو کُوس رہے تھے لیکن کسی کو بھی اتنی توفیق نہ ہُوسکی کہ مرض کو کوسنے کے بجائے علاج کی طرف توجہ دیتے۔

جب بابا جی ظہر کی نماز پڑھنے کیلئے وہاں سے گُزرے تو نمازیوں کو وہاں سے پریشانی کی حالت میں گُزرتے دیکھ کر خُود بھی پریشان ہُوگئے چُونکہ نماز کا وقت قریب تھا اِس لئے بجائے جمعدار کو تلاش کرنے کے خُود آگے بڑھے اور چارے کی دو لکڑیوں کی مدد سے احتیاط سے وہ شاپر اور اور کپڑے سیوریج کی نکالی سے نِکالنے لگے اِتفاق سے اُسی وقت اُنکا بیٹا اپنے کسی افسر دوست کیساتھ گھر کی جانب آرہا تھا اُس وقت تو اُنکا بیٹا مصلحت کی وجہ سے خاموش ہُوگیا اور شائد اُس آفیسر دوست کو یہ علم بھی نہ ہُوسکا کہ سیوریج کی نالی صاف کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اُسکے دوست کا والد ہے لیکن دوست کے جانے کے بعد شام کو اِسی جرم کی بِنا پر اُس نے جُوش میں آکر اپنے والد کو پِیٹ ڈالا اور اسطرح یہ افسوسناک واقعہ پیش آگیا۔

لیکن اَمّاں بابا جی تو ایک نیک کام کررہے تھے کیا نیکی کی جزا دُنیا میں اسطرح ملتی ہے میں نے اَمَّاں کے خاموش ہوتے ہی اگلا سوال پیش کردِیا؟

نہیں بیٹا اللہ کے نیک بندے نیکی اس لئے نہیں کرتے کہ اُنہیں دُنیا میں اُسکی جَزا چاہیئے ہوتی ہے بلکہ وہ تو اپنے کریم مالک کو راضی کرنے کی سبیل تلاشتے رہتے ہیں مگر آج بابا جی کے بیٹے نے اپنے بوڑھے باپ پر ہاتھ اُٹھا کر اپنے لئے دُنیا میں بے عزتی کا سامان خرید لیا ہے۔ اسکا بدلہ آخرت میں تو مِلے گا ہی لیکن دُنیا میں بھی اسکی سزا سے اُسے کوئی نہیں بچا سکے گا۔


مجھے اپنی ماں کی بات سمجھنے میں سات برس کا عرصہ لگا ۔ کیوں کہ سات برس بعد اُسی مقام پر لوگوں کا جمِ غفیر دیکھ کر میں نے ایک صاحب سے جب معلوم کیا کہ یہاں اتنے لوگ کیوں جمع ہیں تُو مجھے کِسی نے بتایا کہ بابا جی کے پُوتے نے آج کسی بات پر اپنے باپ کے مُنہ پر تھپڑ مار دِیا ہے جسکی وجہ سے لوگ اُس نافرمان بیٹے کو تنبیہ اور لعن طعن کررہے ہیں لوگ شائد اُس واقعے کو بھول چُکے تھے لیکن مجھے اَمَّاں کے کہے ہوئے الفاظ یاد آرہے تھے کہ اسکا بدلہ آخرت میں تو مِلے گا ہی لیکن دُنیا میں بھی اسکی سزا سے اُسے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

اُس وقت بابا جی کو وصال کئے ہُوئے دو برس گُزر چُکے تھے اور میں سُوچ رہا تھا کہ اچھا ہے کہ بابا جی دُنیا میں موجود نہیں ہیں ورنہ اُنہیں دُگنی تکلیف محسوس ہوتی ایک اُس تھپڑ کی جو اُنکے بیٹے کے چہرے پر پڑا تھا اور دوسرے اُس تھپڑ کی تکلیف جو سات برس قبل اُنکے چہرے پر پڑا تھا ۔

اور میں آج تک ایک انتظار کی کیفیت میں ہُوں کہ نجانے کب اِس تھپڑ کا جواب بابا جی کے پُوتے کو اپنے بیٹوں سے مِلتا ہے ویسے بھی قدرت نے بابا جی کے پُوتے سے عجیب انتقام لیا ہے کہ بابا جی کا وہ پُوتا جو رات دِن دولت کی مستی سے سرشار رہا کرتا تھا آج دانے دانے کو ترس رہا ہے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے زکواۃ اور خیرات کی بھیک تلاش کرتا اپنے کینسر زدہ جسم کیساتھ لوگوں کی جھڑکیاں اور گالیاں برداشت کرتا نظر آتا ہے۔

میرے ذِہن میں ہمیشہ ایک اور سوال بھی مجھے پریشان رکھا کرتا تھا جسکا جواب تلاش کرتے ہُوئے ایک دِن میں نے بابا جی کے ایک دوسرے بیٹے سے اپنے سوال کا جواب مانگا تھا۔ کہ بابا جی تو نہایت نیک بُزرگ تھے اُنہیں آخر کس جُرم کی وجہ سے اپنی اولاد کے ہاتھوں یہ ذلت برداشت کرنی پڑی کیا اُنہوں نے بھی اپنی جوانی میں اپنے والد پر ہاتھ اُٹھایا تھا؟

بابا جی کے بوڑھے بیٹے نے میرے سوال کا جواب دیتے ہُوئے بتایا کہ بابا جی کی پیدائش کے فوراً بعد ہی بابا جی کے والد کا انتقال ہوگیا تھا جسکی وجہ سے ایسا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ البتہ میں نے ایک واقعہ ضرور سُنا ہے شائد یہ معاملہ اُسی وجہ سے پیش آیا ہُو۔ اُنہوں نے کُچھ سوچتے ہُوئے اپنی بات کو ادھورا چھوڑ دیا۔

میں نے تجسس کے عالم میں بے چینی سے پوچھا کیسا واقعہ؟

بابا جی کا بوڑھا بیٹا اپنے دِماغ پر زور ڈالتے ہُوئے کہنے لگا بابا جی یتیمی کے باوجود بُہت غیرت مند تھے اور دس برس کی عمر میں ہی مزدوری وغیرہ کرنے لگ گئے تھے ایک دِن مزدوری کرنے شہر گئے تو واپسی پر بابا جی کو دیر ہُوگئی وہ یہ سوچ کر پریشان تھے کہ اماں اور بڑی بہن بھوکی انتظار کررہی ہُونگی لیکن جب گھر پُہنچے تو معلوم ہُوا کہ اماں اور بہن کھانا کھا چُکے ہیں بابا جی کی غیرت نے اُنہیں مشکوک بنا دیا وہ ایک لکڑی ہاتھ میں اُٹھا کر ماں کو ڈرانے لگے کہ کھانا کہاں سے آیا اور کس نے ہانڈی پکانے کے پیسے دیئے ۔

تب اُنکی اماں نے ڈرتے ڈرتے بابا جی کو بتایا کہ آج بھوسے کی کوٹھری صاف کی تھی جس سے کُچھ سوکھی مٹر اور باجری نکل آئی تھی وہی پکا لی تھی بابا جی نے جب دیگچی کھولی تو اسمیں بھوسہ کے چند دانوں کیساتھ مٹر اور باجری نظر آگئی بابا جی نے اگرچہ اماں سے معافی مانگ لی تھی ۔ مگر مجھے لگتا ہے بابا جی کے ساتھ یہ معاملہ اسی وجہ سے پیش آیا تھا کہ انہوں نے ہماری دادی کو ایک مرتبہ لکڑی سے غیرت کے سبب ڈرایا تھا کیونکہ بابا جی اکثر اس واقعہ کو یاد کر کے رونے لگ جاتے تھے۔

آج یہ واقعہ تحریر کرتے ہُوئے مجھے کتاب میں پڑھا وہ واقعہ بھی یاد آرھا ہے جب ایک بیٹا اپنے باپ کے گلے میں چادر ڈالے اُسے گھیسٹ رہا تھا جب وہ شخص اپنے باپ کو گھسیٹے ہوئے ایک برگد کے درخت کے نیچے سے گُزرنے لگا تو باپ کہنے لگا،، اے میرے بیٹے رُک جا آگے نا جانا۔

بیٹے نے حقارت سے وجہ معلوم کی تو باپ بُولا ،، اس لئے کہ میں نے اپنے باپ کو بھی صرف یہیں تلک گلے میں چادر ڈال کر گھسیٹا تھا!
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060202 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More