تاریخ دہرائی جا رہی ہے

أئیے میں أپکو ۷۴ سال پیچھے لے کر چلتا ہوں۔۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو جب پاکستان معرض وجود میں تو اس نوزائدہ ملک کو چاروں طرف سے انتہائی شدید مصائب نے گھیرا ہوا تھا ۔ایک نئ حکومت کا قیام،مسلح افواج کی تنظیم نو،لاکھوں مہاجرین کی أباد کاری ،بھارت کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے وسائل کا فقدان اور پھر کشمیر کی جنگ اذادی کا أغاز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قسم کے بے شمار سنگین مسائل کو نوابزادہ لیاقت علی خان نے بڑے تدبر ،تحمل اور انتظامی قابلیت سے سنبھالا ۔قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان کی قیادت کا سارا بوجھ لیاقت علی خان صاحب کے کندھوں پر ہی أ پڑا تھا ۔اس بار گراں کو بھی انہوں نے بعنوان شائستہ اٹھایا ۔اس میں شک نہیں کہ ان کی وزارت عظمیٰ کا دور پاکستا ن کے لیے استحکام، استقلال اور سر بلندی کا زمانہ تھا ۔لیکن ایسی بات کا زکر بھی ضروری ہے جس نے ہمارے حالات پر منفی اثر ڈالا

اپنی وزارت عظمیٰ کےدوران نوابزادہ لیاقت علی خان نے کسی وجہ سے مسلم لیگ کی صدارت کا عہدہ بھی خود سنبھال لیا تھا ۔أگے چل کر یہ ادغام مسلم لیگ کے وجود کے لیے صحت مند ثابت ہوا ۔اس نے مسلم لیگ کو حکومت ساز پارٹی کی بجائے حکومت نواز پارٹی میں تبدیل کر دیا ۔حکومت اور سیاست کے امتزاج سے حکومت کو تو ضرور تقویت ملتی ہے لیکن سیاسی عمل آزاد نہیں رہتا بلکہ وہ سرکاری مصلحتوں کے تابع ہو کر کمزور ہو جاتا ہے ۔رفتہ رفتہ اس میں حکومت کی سر پرستی کے بغیر فعال رہنے صلاحیت سلب ہونے لگتی ہے اور حزب اختلاف کے طور پر سیاسی کردار ادا کرنے کی قوت ماند پڑ جاتی ہے ۔اس سلسلے میں مسلم لیگ کا اپنا انجام اظہر من الشمس ہے۔

اس زمانے میں پاکستان اسلامی ممالک میں پانچواں بڑا ملک تھا ۔اس کی اس اہمیت کے پیش نظر روس نے وزیر أعظم اور بیگم رعنا لیاقت علی کو روس کا دورہ کرنے کی دعوت دی ۔یہ دعوت نامہ ملنا تھا کہ بھارتی صفوں میں کھلبلی مچ گئ۔بھارت خود روس سے پینگیں بڑھانے کا جتن کر رہا تھا ۔انہوں نے روسیوں کے کان بھرنا شروع کر دیےکہ پاکستان خود تو روس کا دعوت نامہ قبول نہ کرے گا بلکہ اسے اچھال کر امریکہ کی نظر میں اپنی قدر وقیمت بڑھانے کی کوشش کرے گا۔دوسری طرف امریکہ کی نظر میں بھی یہ دعوت نامہ بری طرح کھٹکنے لگا ۔پاکستان میں ہر سطح پر ایسے افسروں کی کمی نہ تھی جو مغربی تہذیب کے ذہنی غلام تھے ۔سیاسی أذادی نے ان کے دل اور دماغ کو مغرب پرستی کے احساس کمتری سے نجات نہیں دی تھی ۔ان کے قلوب اور اذہان پر غلامی کے دور کی روایات اور اقدار برف کی سلوں کی طرح جمی ہوئ تھیں اور أذادی کی تپش نے ابھی تک انہیں پگھلایا نہ تھا ۔اعلی سطح کے بیشتر افسر برطانوی عہد کے تربیت یافتہ تھے وہ انگریزی نظام حکومت کی لکیر کے فقیر تھے أذادی کے تقاضوں کو نئ پالیسیوں کے سانحے میں ڈھالنا ان کے بس کا روگ نہ تھا ۔تغیرات کے عمل سے وہ نا أشنا تھے ۔خاص طور پر بین الاالاقومی امور کا انہیں کوئی تجربہ نہ تھا ہماری وزارتِ خارجہ میں تقریباً سب کے سب پرانی أئ ۔سی۔ایس۔کےممبر تھے ۔وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ خان بذات خود نہلے پہ دہلہ تھے ۔چناچہ روس کا دعوت نامہ کھٹائی میں پڑا رہا اور جب امریکہ نے اپنے دعوت نامہ کا دانہ پھینکا تو ہماری وزارت خارجہ اس پر چیل کی طرح جھپٹی۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعظم روس کی دعوت پر روس کا دورہ کرتےاور امریکہ کی دعوت پر امریکہ تشریف لے جاتا ۔أخر پر میرا أپ سب سے ایک سوال ہے اور أپ اس کا جواب ضرور دیں
کیا أج ۷۳ سال بعد بھی ہم اپنی خارجہ پالیسی میں وہیں کھڑے ہیں جہاں قیام پاکستان کے وقت کھڑے تھے ؟
 

Rao Hamid Raza
About the Author: Rao Hamid Raza Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.