زندگی کا دور اور زندگی کا دائرہ !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مُحمد ، اٰیت 36 تا 38 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
انما
الحیوٰة
الدنیا لعب
و لھو و ان
تؤمنوا و تتقوا
یؤتکم اجورکم
و لا یسئل اموالکم
36 ان یسئلکموھا
فیحفکم تبخلوا و یخرج
اضغانکم 37 ھٰانتم ھٰؤلاء
تدعون لتنفقوا فی سبیل اللہ
فمنکم من یبخل و من یبخل فانما
یبخل عن نفسهٖ واللہ الغنی و انتم الفقراء
و ان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا
امثالکم 38
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ تُمہارے چرخِ زندگی کا یہ دور اور یہ دائرہ تَکلے اور ڈور کے شغل و مشغلے کی طرح ایک شغل اور ایک مشغلہ ہے ، اگر تُم اِس زندگی کے شغل اور مشغلے کے اِس دائرہِ اَمن میں رہو گے تو زندگی کا یہ تانا بانا تُمہارے وجُود کو سمیٹ اور لپیٹ کر رکھے گا ، تُم زندگی کے بہت سے کڑوے کسیلے سوال و جواب سے بھی بچے رہو گے ، تُمہاری سخاوت اور تُمہارے بُخل کی آزمائش بھی نہیں کی جاۓ گی تاکہ تُمہاری حرص اور تُمہارا کینہ کسی اور پر ظاہر نہ ہو اور اِس رُو رعایت کے بدلے میں تُم سے کوئی طلبانہ بھی طلب نہیں کیا جاۓ گا ، اگر تُم کُچھ دو اور کُچھ لو کی اِس دُنیا میں لینے میں حرص اور دینے میں بُخل کا مظاہرہ کرو گے تو تُم اپنی ذات کے ساتھ ہی بُخل کا مظاہرہ کرو گے لیکن اِس کے با وجُود بھی تُمہارے ساتھ کوئی زور زبر دستی نہیں کی جاۓ گی کیونکہ اللہ تُمہارا داتا ہے اور تُم اُس کے مُحتاج بندے ہو اِس لیۓ اگر تُم زندگی کے اِس سرمدی اصول پر چلتے رہو گے تو امن میں رہو گے اور اِس اصول سے انحراف کرو گے تو اللہ تُمہاری جگہ پر اُن لوگوں کو لے آۓ گا جو اِس اصولِ زندگی کے مطابق زندگی گزاریں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ہر زندہ انسان یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ اُس کے جسم میں زندگی کی ایک زندہ لہر ہے جس زندہ لہر کی بنا پر وہ زمین میں زندہ ہے لیکن کوئی انسان یہ نہیں جانتا کہ زندگی کیا ہے اور اِس کی حقیقت کیا ہے ، وہ کہاں سے انسانی جسم میں آتی ہے ، کس طرح آتی ہے اور پھر کس طرح انسانی جسم سے نکل جاتی ہے ، قُرآنِ کریم نے زندگی کی اِس حقیقت کو جن 71 زاویوں سے بیان کیا ہے اُن 71 زاویوں میں سے زندگی کا ایک قابلِ توجہ زاویہ وہ ہے جو اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ زندگی کا زندہ جسموں میں آنا اور نکل جانا زندگی کا ایک شغل اور ایک مشغلہ ہے لیکن اِس کے برعکس سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 32 میں جو یہ کہا گیا ہے کہ زندگی ایک شغل اور مشغلہ نہیں ہے تو قُرآن کی کتابی ترتیب میں آنے والا وہ پہلا قول بظاہر اِس دُوسرے قول کے خلاف نظر آتا ہے لیکن در حقیت وہ پہلا قول اِس دُوسرے قول کے خلاف نہیں ہے بلکہ اِس کی وہ تاکید ہے جس کا تاکید مقصد یہ ہے کہ زندگی واقعی ایک شغل اور مشغلے سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ہے لیکن اُردو زبان میں چونکہ شغل اور مشغلہ مُثبت سے زیادہ مَنفی مفہوم کا حامل ہے جس کی وجہ سے اِن اٰیات کے اِن مقامات پر نظر ڈالنے والے اہلِ علم نے زندگی کے اِس سنجیدہ عمل کو ایک ہی وقت میں شغلہ و مشغلہ کہنے سے احتراز بھی کیا ہے اور اِس احتراز سے اعراض بھی کیا ہے جو اہلِ علم کا ایک علمی و فکری تضاد ہے اور اِس تضاد نے زندگی کی اُس سادہ حقیقت کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے جس سادہ حقیقت کو سُورَہِ یُونس کی کی اٰیت 24 میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ زندگی کی مثال تو یہ ہے کہ پہلے ہم فضا میں بادل بناتے ہیں ، پھر ہم خلا سے زمین پر بارش برساتے ہیں اور پھر اُس بارش سے زمین میں وہ سبزہ و گُل اُگاتے ہیں جس سبزہ و گُل کو جب انسان و حیوان اور چرند و پرند کھاتے ہیں تو اُن کے جسموں میں زندگی کی وہ لہر آتی ہے جس سے وہ حرکت و عمل کے قابل ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ انسان جب زندگی کی اِس تاب و توانائی اور اِس رونق و رعنائی کو اپنی ملکیت سمجھ کر اپنے خالق کو بُھولنے لگتا ہے تو ہم اچانک ہی اُس کی زندگی کی بساط کو شب یا دن کے کسی حصے میں اِس طرح سمیٹ کر لپیٹ دیتے ہیں کہ زندہ انسانوں کے پاس اُن مرنے والے انسانوں کی زندگی کا کوئی نشان بھی نہیں رہتا بلکہ زندگی کا وہ گمان ہی گمان رہ جاتا ہے کہ یہاں پر اِس سے پہلے کوئی موجُود تھا جو اَب موجُود نہیں ہے ، اِس تفصیل کے مطابق زندگی آسمان کی کسی بلندی سے اُتر کر زمین کی گود میں آتی ہے اور انسان کو اپنا ایک جلوہِ باغ و بہار دکھا کر دوبارہ آسمان میں چلی جاتی ہے ، انسان کی عملی زندگی کا یہی وہ دور اور دائرہ ہے جس دور اور دائرے میں رہ کر انسان نے اپنی قول اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اِس عالَم میں اُس کا ایک خالق ہے جس کی وہ مخلوق ہے اور اُس خالق کا ایک نظامِ حیات ہے جس نظامِ حیات میں اُس نے اپنے اُس خالق کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق زندہ رہنا ہے اور مرنے کے بعد اپنے عملِ حیات کا اپنے اُس خالق کو حساب دینا ہے ، جس طرح قُرآن کی مُتعدد اٰیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رزق محض اُس آب و دانے کا نام نہیں ہے جس آب و دانے کو کھا پی کر انسان زندہ رہتا ہے بلکہ علمی اعتبار سے ہر وہ علمی و عملی چیز بھی رزق ہی ہوتی ہے جس چیز کی ہر انسان کو ضرورت ہوتی ہے اسی طرح مال سے بھی مُراد محض کھنکتے سکے ، کڑکتے نوٹ ، سونے و چاندی کے ذخائر اور پالے جانے والے وہ جانور نہیں ہیں جن سے انسان مُختلف اوقات میں مُختلف نفع بخش کام لیتا ہے بلکہ مال کا معنوی حلقہ بھی رزق کے وسیع حلقے کی طرح ایک وسیع حلقہ ہے اور اُسلوبِ کلام کی اسی وسعت کے حوالے سے اُس تَکلے کو بھی مال کہا جاتا ہے جو چرخے کی گردش سے بَننے اور تَننے والے اُس دھاگے کو سمیٹتا ہے جس دھاگے کے تانے بانے سے انسان کے تن ڈھانپنے کا وہ لباس بنتا ہے جو لباس انسان کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکال کر مال کمانے ، مال بنانے ، مال کو اپنے قبضے اور استعمال میں لانے کا اہل بناتا ہے اور اٰیاتِ بالا میں آنے والے مال کے اِس وسیع المعنی پس منظر میں انسان کو یہ وسیع المفہوم فلسفہِ حیات سمجھایا گیا ہے کہ زمین میں زندگی کے مِنجُملہ مقاصد میں زندگی کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ انسان زندگی کو تَکلے سے بننے والے اُس تار کی طرح وسعت دے جس تارے کے ریشے زندگی کی حرارت سے جانور کے جسم پر اُگنے کے بعد انسان کے ہاتھ میں آتے ہیں اور انسان کے ہاتھ سے گزر کر ایک جان سے دُوسری جان تک ہی نہیں جاتے ہیں بلکہ انسان کے کفن کی صورت میں انسان کی قبر تک بھی انسان کے ساتھ جاتے ہیں اور انسان کا زندگی اِس دور اور اِس دائرے میں رہنا اِس لیۓ لازم ہے کہ زندگی آسمان سے زمین پر کُچھ دو اور کُچھ لو کے اصول کے تحت آتی ہے اور زندگی جب تک زمین پر اہلِ زمین کے ساتھ رہتی ہے اہلِ زمین سے کُچھ دو اور کُچھ لو کے اسی اصول کا مطالبہ کرتی رہتی ہے ، زمین کی جو اقوام زندگی کے اِس اصول و مطالبے پر عمل کرتی ہیں وہ دیر تک زمین پر زندہ رہتی ہیں اور زمین کی جو اقوام اِس اصول و مطالبے سے انحراف کرتی ہیں وہ اقوام جلد ہی زمین سے مٹا دی جاتی ہیں اور اُن کہ جگہ پر وہ زندہ اقوام لائی جاتی ہیں جن کی زندگی میں ہمہ وقت زندگی کی حرکت و حرارت اور ایثار و قربانی کی ایک زندہ لہر زندہ رہتی ہے ، اِس سُورت کی اِن اٰیات سے پہلی اٰیات کا مضمون اگر عہدِ نبوی کا ایک تاریخی مُرقع تھا تو اِس سُورت کی اِن آخری آیات کا یہ آخری مضمون انسان کے قلبی و رُحانی جذبوں کا اور اُمنگوں کا ایک حسین و جمیل گُلدستہ ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 474265 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More