میرا دیر سے گھر آنا

ماں جی کے جانے کے بعد یہ میر ی پہلی عید تھی میری ماں محبتوں شفقتوں کے سارے رشتے توڑ کر وہاں چلی گئیں جہاں ساری مائیں چلی جایا کرتی ہیں ماں کے جانے کے بعد میں خالی ہو گیا تھا ایک خلا سا تھا جس میں گھر گیا تھا مجھے ہر وقت اپنی پناہ میں لینے والا دعاؤں کا لشکر کسی گہرے غار میں غرق ہو گیا تھا جب سے ماں گئی تھی مجھے اپنے آگے پیچھے کسی کی آہٹ کسی غیر مرئی وجود کی سر سراہٹ محسوس نہیں ہو رہی تھی گھر کے در و دیوار برآمدہ کمرے آنگن جامن کا درخت ہر جگہ قائم تھی لیکن گھر کا وہ کمرہ جہاں ماں تھی ایسا سونا اجاڑ ہو ا کہ چار سو خاک اڑتی محسوس ہو رہی تھی گھر کے چپے چپے سے اداسی ٹپک رہی تھی ماں کا کمر ہ پلنگ چارپائی ویل چیئر مصلہ لاٹھی سب ماتم کناں تھے اداس تھے پچاس سال پہلے ہمارے گاؤں میں ماں کو بے بے جی کہا جاتا تھا لہذا ہم بہن بھائی بھی ماں جی کو بے بے جی کہا کرتے تھے روزگار کے سلسلے میں کئی سال پہلے گاؤں چھوڑا تو جب بھی گاؤں سے کسی کا فون آتا یا میں کال کر تا تو پہلی بات یہی ہو تی بے بے جی کیسی ہیں ۔آج کل ان کی طبیعت کیسی ہے کھانا کھا رہی ہیں آج کل کس بیٹے یا بیٹی کے گھر ہیں اگر ماں جی پاس ہوتی تو اُن کو فون دے دیا جاتا ان کے لہجے سے کمزوری عیاں ہوتی لیکن وہ پھر بھی کہتی میں بلکل ٹھیک ہوں تم کیسے ہوبچے کیسے ہیں سب بچوں کا پو چھنے کے بعد دلگیر لہجے میں کہتی تم کب آرہے ہو میں اداس ہوں آکر چہرہ دکھا جاؤ اگر میں زیادہ دن ملنے نہ جاتا تو بار بار فون کرتیں یا پھر خود میرے پاس آجاتیں ساری زندگی جس گاؤں میں پیدا ہوئیں وہیں گزار دی لیکن میرے مری قیام کے درمیان اداس ہوتیں تو سینکڑوں میل کا سفر کر کے میرے پاس آکر میرے گھر کو جنت بنا دیتیں ۔میں گھر کے اداس در و دیوار کو اداسی سے دیکھ رہا تھا بچپن میں سنا کرتے تھے کہ مرنے والے کی روح اپنے پیاروں سے ملنے اکثر گھر کی منڈیر پر آبیٹھتی ہے میں گھر کی دیوار کو دیکھ رہا تھا کہ کیا واقعی میری ماں آج عید کے دن بھی آئی ہوں گی اور اگر خدا کے حکم سے روحیں واقعی اپنے گھروں میں آتی ہیں تو ماں جی میری اداسی کو سمجھ رہی ہو نگی ۔ بلا شبہ ساری دنیا کی مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں یقینا میری ماں بھی اُن ماؤں جیسی ہو گی لیکن کیونکہ وہ میری ماں تھی اِس لیے مجھے تمام ماؤں سے افضل لگتی تھی نیک سادہ ان پڑھ دیہاتی نیک عورت پانچ سال کی تھیں تو والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا جوانی کے آنگن میں قدم رکھا ہی تھا تو شادی کر دی گئی۔ کھیلنے کودنے کے دن تھے کہ اﷲ تعالی نے ماں بنا دیا پھر اوپر تلے چار بیٹوں چار بیٹیوں آٹھ بچوں کی ماں بن گئیں ۔میں بھائیوں میں سب سے چھوڑا تھااِس لیے مجھے دامانِ شفقت میں رہنے کا زیادہ موقع مل گیا ہوش سنبھالا تو بڑے صحن والے کچے گھر کی کچی مٹی کی دیواروں کچے آنگن میں غربت کی چادر میں لپٹی ماں کو دیکھا جو گیلی لکڑیوں پر پھونکیں مار مار کر ہانڈی بناتی ‘تندو ر میں روٹیاں بناتی ‘چکی پیستی ‘برتن مانجھتی ‘ گھر کی دیواروں پر مٹی کا پوچا لگا تی ‘ کمروں کے کچے فرشوں کو لیپتی ‘ کپڑوں کی گٹھڑی سر پر رکھ کر نہر یا ندی پر دھونے لے جاتی ‘صبح شام منہ دھلواتی سکول جانے کے لیے تیار کرتی صبح سویرے مکھن کو گر م توے پر ڈال کر پراٹھا بناتی تو سارا آنگن مکھن کی خوشبو سے مہک اٹھتا دوپہر کے لیے اچار کی پھانک یا پیاز پراٹھے میں رکھ کر ساتھ دیتیں تاکہ اُن کا بیٹا سکول میں بھوکا نہ رہے تھوڑا بڑا ہو اتو مختلف کھیلوں میں حصہ لینے لگا تو میری ڈیمانڈ پر نماز فجر کے بعد جب دہی والی چاٹی میں مدھانی ڈالنی تاکہ مکھن کو نکال کر لسی بنائی جا سکے تو مکھن نکالنے سے پہلے میرے لیے رہیٹر کا نکال کر ایک جگ بھر دینا جو پی کر میں سکول کالج چلا جاتا تھا پھر سکول سے واپسی پر ملائی زیادہ دودھ کم کا بڑا پیالا میرے ہاتھ میں دیتیں کہ پی کر اب کھیلنے جاؤ جب میں نے پرائمری پاس کی تو بڑے بھائی کے کہنے پر مجھے پچاس میل دور ماموں کے پاس اِس لیے بھیج دیا کہ میری پڑھائی اچھی ہوسکے جب بھی میں جاتا بہت پیار کرتیں واپسی پر بھی خوب اپنا پیار لٹاتیں جوان ہوا تو گاؤں کے ماحول کے مطابق میں بھی یار دوستوں میں رات گئے وقت گزارتا آدھی رات کے بعد جب گھر آتا تو والد صاحب دروازہ اندر سے بند کر چکے ہوتے تھے میری ماں کو پتہ ہو تا تھا کہ میں ابھی تک گھر نہیں آیا وہ میرے انتظار میں مصلہ ڈال کر نوافل اور ذکر اذکار پر لگ جاتیں میں لڑکپن جوانی کے نشے میں لیٹ آتا تو دروازہ بند ہونے کی وجہ سے پچھلی دیوار جو آٹھ فٹ سے زیادہ ہو گی چڑھ کر دیوار پھلانگ کر آواز پیدا کئے بغیر گھر کے آنگن میں اُتر آتا تو دیوار کے پاس ہی ماں مرغیوں کے ٹوکرے کے نیچے میری روٹی رکھ کر بیٹھی ہوتی تھیں میں پاس آتا تو ٹوکرے کو اٹھا کر نیچے کپڑے میں لپٹی روٹیاں سالن میری طرف سرکا دیتیں روٹیوں کو کپڑے میں اسطرح رکھتیں کہ دیر تک گرم رہیں روٹیوں کی چنگیر میری طرف سرکا کر خود جا کر چارپائی پر لیٹ جاتیں آواز اِس نہ نکالتیں کہ باپ یا بڑے بھائی کو میرے لیٹ آنے کا پتہ نہ چل جائے اگلے دن ضرور پوچھتی بیٹا روٹی گرم تھی نہ تو میں ہاں میں سر ہلا دیتا ایک ماں ہی ایسا چشمہ محبت ہے جو لیٹ آنے پر ناراض نہیں ہوتی بلکہ خوش ہوتی ہے کہ شکر ہے میرا بیٹا گھر تو آیا بیوی لیٹ گھر آنے پر جو سلوک خاوند کے ساتھ کرتی ہے وہ سب جانتے ہیں میری ماں کے ایک ایک مسام میں میری محبت بھری تھی جو وہ ہر لمحے لٹاتی رہتی تھی سینکڑوں ایسی راتیں مجھے یاد ہیں جب میں لیٹ گھر آتا تو ماں کو مصلے پر عبادت کرتے پایا کہ میرا بیٹا خیر سے واپس آجائے پھر کھانا دے کر چارپائی پر چلے جانا پیار کا ایسا اظہار صرف اور صرف ماں ہی کر سکتی ہے جو ساری زندگی پیار پر پیار لٹاتے جاتی ہے معاوضے میں کچھ بھی نہیں مانگتی میں جوان ہوا تو گاؤں کے بہت سارے لوگوں کی طرح میں نے بھی گھر کی چھت پر سونا شروع کر دیا ۔سارے گھر والے نیچے کھلے صحن میں سوتے میں اکیلا کچے مکان کی کچی چھت پر سوتا رات گئے میں جب چاند تاروں کی دودھیا ٹھنڈی روشنی میں چھت پر جاتا تو میری چارپائی سفید چادر پھولوں والا پھولا ہوا نرم و گداز تکیہ اور سفید چادر میرے لیے آغوش کھولے منتظر ہوتی جب بارش آتی جیسے ہی بارش کی بوندیں کچی مٹی اور در و دیوار سے ٹکراتیں تو مٹی کی مہک چاروں طرف پھیل جاتی میں چارپائی چھوڑ کر تیزی سے نیچے کی طرف لپکتا تو برآمدے میں ماں جی چارپائی کی طرف اشارہ کر تیں کہ پُتر اُس پر سو جا چھت پر چارپائی بستر لے کر جانا روزانہ بستر نیچے لانا پھر رات کو بچھانا بر سات میں چارپائی کو بھی نیچے لانا ایک کٹھن کام تھا جو میری ماں مجھے بتائے بغیر خود ہی کر دیتی کبھی اعتراض نہیں اور نہ ہی مجھے کہا کہ تم یہ کام کرو معصوم ماں خود ہی سارے کام کئے جارہی تھی میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کی شرافت سادگی متانت صبر و شکر درویشی قناعت فقر جیسی صفات اگر کسی انسان میں ڈھل جائیں تو لاریب وہ میری ماں تھی ہر مشکل وقت میں مصلا بچھا کر خدا کے حضور بیٹھ جاتیں ان کا اسم اعظم تیسرا کلمہ تھا جب مشکل آتی تیسرا کلمہ سوا لاکھ شروع کر دیتیں اِس کا کرشمہ میں نے پہلی بار اُس وقت دیکھا جب گریجویٹس کے بعد میں پنجاب یو نیورسٹی میں داخلہ لینا تھا صرف تیس سیٹیں تھیں پورے پنجاب کے طالب علم امیدوار تھے میری ماں نے سوا لاکھ تیسرے کلمے کا وظیفہ شروع کیا اور میں جا کر سیلکٹ ہو گیا واپس آکر ماں سے گلے ملا تو آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر بولیں اُس نے مجھے کبھی بھی مایوس شرمندہ نہیں کیا یہ ماں کا خدا سے تعلق اور مان تھا ۔
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 655306 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.