معاشی سماجی ترقی کی شہ رگ

کسی بھی ملک کی مجموعی سماجی معاشی ترقی میں مضبوط نقل و حمل کو شہ رگ کا درجہ حاصل ہے۔یہ وہ ذرائع ہوتے ہیں جو ترقیاتی عوامل کو آپس میں مربوط کرتے ہیں اور ملک کی ترقی و خوشحالی کی عمدہ ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی ملک میں چلے جائیں پہلا واسطہ ٹرانسپورٹ سسٹم سے ہی پڑتا ہے اور یہیں سے ملک کا پہلا تائثر بھی ابھرتا ہے۔چین کے مختلف شہروں کے دورے کے دوران اس چیز کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ یہاں ہر گزرتے لمحے عوام کے لیے سفری سہولیات کو زبردست ترقی مل رہی ہے اور ذرائع نقل و حمل کی مستقل بہتری کو ملک کی مجموعی ترقیاتی منصوبہ بندی میں کلیدی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔

انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے چین نے اعلیٰ معیار کی ترقی کے حصول کے لیے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کا ایک نیا منصوبہ شروع کیا ہے، جو وبا کی وجہ سے سست عالمی نمو کے تناظر میں معاشی بحالی کو بڑھانے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔ان میں ذرائع نقل و حمل کی اسمارٹ ترقی بھی شامل ہے جس سے نہ صرف شہری نقل و حمل کے نظام کی اعلیٰ معیار کی ترقی میں مدد ملے گی بلکہ جدید، سمارٹ شہروں کی تعمیر میں بھی مدد ملے گی۔اس ضمن میں یہ منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ سینسنگ، اینالیسس، کنٹرول اور مواصلاتی ٹیکنالوجیز سے آراستہ ایک ذہین نقل و حمل نظام کا اطلاق کیا جائے گا تاکہ سفری سہولیات میں حفاظت، نقل و حرکت اور کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے 2020 تک، ملک بھر میں چلنے والی بسوں اور ٹرامز کی تعداد 375,000 سے بڑھ کر تقریباً 589,900 ہو چکی ہے۔ اسی دہائی کے دوران، ہائی ٹیک نے تیز رفتاری سے ترقی کی ہے، جس کے نتیجے میں ڈسپیچ مینجمنٹ ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے میں مدد ملی اور سینسنگ ، ٹریول سروسز اینالیسس ، کنٹرول اور مواصلاتی ٹیکنالوجیز کے اطلاق میں سہولت ملی ہے ۔ اس سے نہ صرف شہری ٹریفک کے تقاضوں کو بہتر طریقے سے پورا کرنے میں مدد ملی ہے بلکہ چین میں سمارٹ شہروں کی ترقی کو بھی فروغ دیا گیا ہے۔ملک میں ذہین عوامی نقل و حمل کی تیاری کا بنیادی مقصد نقل و حمل کی خدمات کے معیار کو بہتر بنانا، عوامی نقل و حمل کے معقول انتخاب میں شہری عوام کی مدد کرنا، اور پائیدار شہری ترقی کو فروغ دینا ہے۔

اس ضمن میں معاون حکومتی پالیسیوں کی بدولت بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مقامات پر خودکار ڈرائیونگ اور وہیکل۔روڈ کوآرڈینیشن پائلٹ منصوبے تشکیل دیے گئے ہیں ۔انفارمیشن اور مواصلاتی ٹیکنالوجیز جیسا کہ فائیو جی ، انٹرنیٹ آف تھنگس کی مدد سے کئی شہروں میں بغیر پائلٹ بسوں نے کام بھی شروع کر دیا ہے۔یوں نئی ٹیکنالوجیز اور شہری پبلک ٹرانسپورٹ کو مربوط کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت ساری نئی اختراعات ہوئی ہیں ۔

یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ 14ویں پانچ سالہ منصوبے (2021تا 2025) میں بھی بدلتے دور کے تقاضوں کے عین مطابق شہری ذہین نقل و حمل اور گرین ٹرانسپورٹ نظام کی تعمیر، روایتی نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کرنے، شہری عوامی نقل و حمل کی ترقی کو ترجیح دینے اور نئے سمارٹ شہروں کی تعمیر کو فروغ دینے کے اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں ذہین پبلک ٹرانسپورٹیشن اعلیٰ معیار کی ترقی کے مرحلے میں داخل ہونے کو ہے۔ماحول دوستی کے اعتبار سے بگ ڈیٹا، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، خود کار ڈرائیونگ، ذہین نیٹ ورکنگ اور الیکٹرک وہیکل جیسی نئی ٹیکنالوجیز کی بدولت کاربن کے اخراج کو بھی کم کیا جا سکےگا۔ٹرانسپورٹ آپریشن کے انتظام کو مضبوط بنانے اور بہتر معیار کی خدمات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ صارف دوست عوامی نقل و حمل کا نظام تشکیل دیا جا سکے گا۔اس ضمن میں سمارٹ بس اسٹیشنوں کی تعمیر میں کیمرے، وائی فائی بیس، موبائل فون چارجنگ انٹرفیس، ماحولیاتی نگرانی کے سینسرز، ڈیجیٹل ڈسپلے، لائٹ کنٹرولرز، اور ایمرجنسی کال اور دیگر سہولیات شامل ہیں۔یوں چین کی کوشش ہے کہ نئی اختراعات اور ٹیکنالوجیز کے موئثر استعمال سے شہریوں کو ایک نیا ماحول دوست ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم کیا جائے جو ملک کی دیرپا اور پائیدار ترقی کا بھی ایک ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 414776 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More