کرہ ارض کو گرم ہونے سے کیسے بچایا جائے ؟

پاکستان میں حالیہ دنوں عوام کو شدید گرم موسم کا سامنا ہے جس سے نہ صرف انسانی صحت بلکہ زرعی مصنوعات اور دیگر فطری وسائل کو بھی سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کے نزدیک گرمی کی حالیہ لہر غیر معمولی ہے جس نے درجہ حرارت میں اضافے کے کئی ریکارڈ توڑے ہیں اور قلت آب ،خشک سالی،گلیشئرز کے پگھلاو سمیت کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔

مجموعی صورتحال کا ایک جائزہ لیا جائے تو ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن یا ڈبلیو ایم او کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا نے 2021 میں گرین ہاؤس گیسوں کے ارتکاز، سطح سمندر میں اضافے، سمندری حدت اور سمندری تیزابیت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا ہے، جس سے شدید موسمیاتی واقعات رونما ہوئے اور دو ارب سے زائد افراد کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئےہیں۔

اس ضمن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جس کا شمار ایک ایسی گرین ہاؤس گیس میں کیا جاتا ہے جو موسمیاتی حدت میں اضافے کے باعث مشہور ہے ، عالمی سطح پر 413.2 پارٹس فی ملین تک پہنچ چکی ہے، یا آسان الفاظ میں کہا جائے تو پری انڈسٹریل سطح کے اعتبار سے 149 فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔ ڈبلیو ایم او کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ کاربن اخراج میں حد سے زیادہ اضافہ سمندروں میں تیزابیت کا باعث بنا ہے، جو انسانی سرگرمیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تقریباً 23 فیصد کو جذب کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔تشویشناک امر یہ ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، سمندر کی گرمی، سمندری تیزابیت، سطح سمندر میں اضافہ، سمندری برف کے گلیشیئرز کا پگھلاو اور انتہائی شدید موسم جیسے موسمیاتی اشارے پائیدار ترقی، خوراک کے تحفظ، نقل مکانی اور ماحولیاتی نظام پر سنگین اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔درجہ حرارت میں اضافے کی ہی بات کی جائے تو 2022 سے 2026 کے درمیان سالانہ اوسط عالمی درجہ حرارت میں پری انڈسٹریل دور کے مقابلے میں 1.1 تا 1.7 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی پیش گوئی ظاہر کی گئی ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ کم از کم اگلے پانچ سالوں میں سالانہ اوسط عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کا 50 فیصد امکان ہے۔اسی طرح سمندر کی عالمی اوسط سطح میں 2013 سے 2021 تک اوسطاً 4.5 ملی میٹر سالانہ اضافہ ہوا ہے، جو کہ 1993 سے 2002 کی درمیانی مدت کی شرح سے دوگنا ہے۔ اس طرح کا خطرناک اضافہ لاکھوں ساحلی باشندوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے اور سمندری طوفانوں کے کے خطرے کو مسلسل بڑھا رہا ہے۔

موجودہ خطرناک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے دنیا بھر میں یہ اتفاق رائے موجود ہے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب تیزی سے بڑھا جائے تاکہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج میں کمی ممکن ہو سکے۔اس حوالے سے اقوام متحدہ نے قابل تجدید توانائی کی جانب تیزرفتار منتقلی کے کے لیے پانچ اہم اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔ ان میں قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی اور سپلائیز تک آسان رسائی، قابل تجدید توانائی ذرائع میں نجی اور عوامی سرمایہ کاری میں تین گنا اضافہ اور رکازی ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کی تجویز بھی شامل ہے جس کی مالیت تقریباً 11 ملین ڈالر فی منٹ بنتی ہے۔

اس ضمن میں چین جیسے بڑے ممالک کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس نے اپنی پوری توجہ قابل تجدید توانائی کی ترقی پر مرکوز کی ہوئی ہے۔ رواں سال کی ہی بات کی جائے تو ملک میں قابل تجدید توانائی کی نصب شدہ صلاحیت نے سال کے پہلے چار مہینوں میں تیزی سے ترقی کی ہے کیونکہ چین اپنے کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے اہداف تک پہنچنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔چین میں رواں سال جنوری سے اپریل تک کے عرصے میں، ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سالانہ 17.7 فیصد اضافے سے 340 ملین کلوواٹ تک پہنچ چکی ہے، جب کہ سولر فارمز کی صلاحیت 320 ملین کلوواٹ تک پہنچ گئی، جس میں سالانہ 23.6 فیصد کا اضافہ ہے۔یہ ایک غیر معمولی امر ہے کہ چین میں تاحال قابل تجدید توانائی کی کل پیداواری صلاحیت تقریباً 2.41 بلین کلوواٹ تک پہنچ چکی ہے، جو کہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں 7.9 فیصد زائد ہے۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ پیک اور 2060 تک کاربن نیوٹرل حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔اس مقصد کی خاطر چین اپنے توانائی کے ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے قابل تجدید توانائی کی ترقی میں آگے بڑھ رہا ہے تاکہ 2030 تک غیر رکازی توانائی کی کھپت کا شیئر تقریباً 25 فیصد تک بڑھایا جا سکے۔

آج ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ قابل تجدید توانائی حقیقی توانائی کے تحفظ، بجلی کی مستحکم قیمتوں اور پائیدار روزگار کے مواقع کا واحد راستہ ہے۔ اگر ساری دنیا مل کر کام کرئے تو قابل تجدید توانائی کی تبدیلی 21ویں صدی کا عظیم "امن منصوبہ" ہو سکتا ہے۔


 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1130 Articles with 425934 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More