اِسلامی ریاست کا قیام اور اُس کی شرائط !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ محمد ، اٰیات 7 تا 9 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الذین اٰمنوا
ان تنصر اللہ
ینصرکم و یثبت
اقدامکم 7 والذین
کفروا فتعسالھم و اضل
اعمالھم 8 ذٰلک بانھم کرھوا
ما انزل اللہ فاحبط اعمالھم 9
اے ایمان دار انسانو ! اگر تُم اہلِ زمین کو زمین میں موجُود وسائلِ حیات فراہم کر کے زمین میں اُن کی ثابت قدمی کا عمل جاری رکھو گے تو اللہ بھی تُم کو زمین میں موجُود وسائلِ حیات فراہم کر کے زمین میں تُمہاری ثابت قدمی کا عمل جاری رکھے گا لیکن جو اہلِ زمین ہماری اِس ہدایت سے انکار کریں گے تو وہ اُس عملی ہلاکت سے دوچار ہو جائیں گے جو عملی ہلاکت اُن کے اعمالِ حیات غارت کردے گی اور جو اہلِ زمین تنگ دلی کے ساتھ یہ عمل کریں گے تو اُن کی قُوتِ عمل بھی اُن کی اُسی تنگ دلی کی طرف مُنتقل کر دی جاۓ گی اور اِس تنگ دلی کے بعد اُن کے مُثبت اعمال بھی مُثبت نتائج سے محروم ہو جائیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِن تین اٰیات کا یہ اہم مضمون ماقبل اٰیات کے ماقبل مضامین اور ما بعد اٰیات کے ما بعد مضامین سے ایک الگ اور مُستقل بالذات مضمون ہے اور اِس اہم مضمون کو اِس کے جن فطری و فکری حوالوں کے ساتھ سمجھنے کے لیۓ علی الترتیب جن باتوں کا سمجھنا لازم ہے اُن میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اِن اٰیات کے اِس سلسلہِ کلام کی پہلی اٰیت میں جس ایمان کا ذکر ہوا ہے اُس ایمان کا قُرآنی معنٰی اطمینانِ قلب ہے اور اِس قلبی ایمان سے مُراد وہ فقہی ایمان نہیں ہے جس کے ایک لفظی اقرار سے انسان اپنا فقہی ایمان ثابت کرتا ہے بلکہ اِس ایمان سے انسان کا وہی قلبی اطمینان مُراد ہے جس قلبی اطمینان کے لفظی اظہار کے بعد انسان اپنے اُس قلبی اطمینان کا وہ عملی اظہار بھی کرتا رہتا ہے جس عملی اظہار میں انسان اور انسانی جہان کے لیۓ کی گئی اُس کی وہ جانی و جہانی مدد نمایاں ہوتی ہے جس جانی و جہانی مدد کو اللہ تعالی نے ایک انسان کی دُوسرے انسان کی ذات کے ساتھ کی گئی مدد کے بجاۓ اپنی ذات کے ساتھ کی گئی مدد قرار دیا ہے اور جس مدد کے بعد اللہ تعالٰی نے اُس عمل کے عامل انسان پر اپنی بیکراں رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دینے کا وعدہ کیا ہے ، دُوسری چیز جس کی تفہیم اِن اٰیات کی تفہیم کے لیۓ لازم ہے وہ یہ ہے کہ اِن اٰیات میں انسان کو انسان کی جس مدد کی ہدایت کی گئی ہے اور اِس ہدایت کی اَنجام دہی کے لیۓ وحی کی جو اعلٰی تعلیم دی گئی ہے وہ ایک مُسلمان کی ایک مُسلمان کے ساتھ کی گئی وہ محدُود مدد نہیں ہے جو ایک مُسلم معاشرے سے شروع ہو کر ایک مُسلم معاشرے پر ہی ختم ہو جاتی ہے بلکہ یہ ایک انسان سے دُوسرے انسان کو ملنے والی وہ لامحدُود مدد ہے جو سارے انسانی معاشرے کی طرف سے سارے انسانی معاشرے کے لیۓ ہوتی ہے اور یہ انسانی مدد کسی رنگ و نسل اور کسی مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر ہوتی ہے اور یہ لا محدُود مدد سارے انسانی معاشرے میں ہوا کی طرح پھیل کر اُس کو زندگی کا پیغام دیتی رہتی ہے ، اِن دو باتوں کے بعد تیسری بات جو اِن اٰیات کے اِس مضمون سے مُتبادر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا زمین کے وسائلِ حیات کو زمین کے دُوسرے اہلِ حیات تک پُہنچانے کا یہ انسانی عمل انسان کا کوئی ایسا صواب دیدی عمل نہیں ہے کہ جس نے جب چاہا یہ عمل اختیار کر لیا اور جس نے جب چاہا یہ عمل ترک کر دیا بلکہ اِس کے برعکس یہ عمل ہر انسان پر قُرآن کا عائد کیا گیا وہ فرض ہے جو ہر انسان نے ہر حال میں ادا کرنا ہی کرنا ہے ، چوتھی بات جو اِن اٰیات کے اِس مضمون سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جس انسان نے انسانی فلاح کا یہ عملِ خیر کرنا ہے تو اُس نے یہ عملِ خیر دل و جان سے کرنا ہے اور دل و جان کی تمام صلاحیتوں کے ساتھ کرنا ہے تاکہ جو انسان یہ عمل کرتا رہے اُس انسان پر اِس عمل کے نتائج بھی اُس کی عملی صلاحیت کے مطابق اُس کی ثابت قدمی کی صورت میں ظاہر ہوتے رہیں ، پانچویں بات جو اِن اٰیات کے اِس مضمون سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین کے جو انسان قُرآن کے اِس فرمان پر عمل کرتے ر ہتے ہیں وہ اِس کے عملِ خیر کے نتائج و ثمرات سے بھی مُستفید ہوتے ہوتے ہیں لیکن جو انسان اِس عملِ خیر کا انکار کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے اِس انکار کی بنا پر اِس کے مطلوبہ نتائج سے محروم رہتے ہیں بلکہ وہ اپنے اِس انکار کی بنا پر اُس سزا کے بھی مُستحق ہو جاتے ہیں جو سزا اُن کے اِس عمل کے ایک قُدرتی رَدِ عمل کی صورت میں اُن پر وارد ہوتی رہتی ہے ، قُدرت سے ملنی والی اِس قُدرتی سزا کی زد میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو اِس عملِ خیر کا زبان سے اقرار کرلیتے ہیں لیکن جب وہ یہ عملِِ خیر اَنجام دیتے ہیں تو ایک بے دلی اور ایک بد دلی کے ساتھ اَنجام دیتے ہیں ، پہلی قسم کے اِن مُنکر افراد کے لیۓ قُرآن نے { اَضلَِ اعمال } کی جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ اِس سُورت کی اٰیت 1 اور اٰیت 8 میں دو بار استعمال کی ہے جبکہ اِن مُنکر افراد کی دُوسری قسم کے مُنکر افراد کے لیۓ { احبط اعمال } کی جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ اِس سُورت کی اِس اٰیت سے پہلے سُورَةُالاَحزاب کی اٰیت 19 اور اِس سُورت کی اِس اٰیت کے بعد اِس کی اٰیت 28 سمیت تین بار استعمال کی گئی ہے ، اہلِ اُردو نے اِن دونوں الفاظ کا معنٰی اعمال کا ضائع ہونا کیا ہے جو مقصدی اعتبار سے درست معنٰی ہونے کے با وصف بھی علمی وسعت سے ایک خالی معنٰی ہے ، بہر حال اگر پہلی اصطلاح سے پہلے { احبط اعمال } کا جائزہ لیا جاۓ تو اِس مُرکب کا جُزوِ اَوّل { احبط } ہے جو ماضی معروف کا وہ صیغہ ہے جس کا مفہوم ایک موجُود عمل یا نتیجہِ عمل کا دیکھتے ہی دیکھتے اِس طرح غائب ہو جانا ہوتاہے جس طرح کسی معلوم سبب کے بغیر پانی کے بھرے ہوۓ گلاس سے پانی غائب ہو جاتا ہے لیکن اِس کے برعکس ترتیبِ کلام میں آنے والی پہلی اٰیت کی پہلی اصطلاح { اضل اعمال } ہے جس کے مُرکب کا جُزوِ اَول { اضل } اسمِ تفضیل کا صیغہ ہے جس کا معنٰی کسی فرد یا شئی کا اپنے درست تر مقصد یا درست تر راہِ مقصد کو چھوڑ کر کسی غلط تر مقصد اور غلط تر راہِ مقصد کی طرف گامزن ہوجانا ہوتا ہے ، اِس اٰیت کے اِس مقام پر اسمِ تفضیل کا یہ صیغہ انسان کے غلط اعمال کے اُس کثیر تر اِس مفہوم کو واضح کرنے کے لیۓ لایا گیا ہے کہ جو انسان اہلِ حیات کے وسائلِ حیات اہلِ حیات تک پُہنچانے پر مامُور ہوتا ہے مگر وہ اپنی درست تر راہِ عمل کو ترک اور ایک غلط تر راہِ عمل اختیار کر کے اپنے سارے اعمالِ خیر ضائع کر دیتا ہے ، اِن اٰیات کا یہ مضمون اولاً تو اُن پاک دل و پاک نظر انسانوں کے لیۓ قُرآن کی ایک تنبیہ بنا ہے جنہوں نے شہرِ مدینہ میں پہلی بار قُرآنی ریاست کی بُنیاد رکھی تھی ، اِن اٰیات میں اُن لوگوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ جس ریاست میں انسان کو انسانی حقوق بلا تمیزِ رنگ و نسل اور بلا امتیازِ مذہب و ملت نہیں دیۓ جاتے وہ ریاست ایک مُنصفانہ ریاست کبھی نہیں بن سکتی اِس لیۓ اِس قُرآنی ریاست میں اِس اَمر کا اہتمام کیا جاۓ کہ اِس ریاست ہر انسان کو ہر وہ حق دیا جاۓ جو قُرآن نے اُس کو دیا ہے اور ثانیاً اِن اٰیات کا یہ مضمون اُن لوگوں کے لیۓ بھی ایک راہِ عمل ہے جو اگر زمین کے کسی گوشے میں مدینہ کی ریاست کی طرح کی کوئی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں تو اُن کو اُس ریاست کی تاسیس کے لیۓ قُرآن کی اُن شرائط پر سختی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا جو شرائط قُرآن کی اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بیان ہوئی ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462490 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More