عید کا تحفہ: یوگی پولیس کی گیروا کے بجائے خاکی وردی

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نےامسال جب رمضان کی مبارکباد کا پیغام حیرت کاخوشگوار جھٹکا تھا ۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں باشندگان وطن کو رمضان ِمقدس کے موقع پر نیک خواہشات کے ساتھ دلی مبارکباد اور پیش کی تھی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ رمضان کے مقدس دنوں میں روزہ،انسانیت کی خدمت ، ایشور کی بندگی جیسے نیک کاموں سے صبر، ضبط نفس، تحمل ، سادگی جیسے انسانی اقدار کو فروغ ملتا ہے۔ اس سے باہمی محبت اور بھائی چارے کا جذبہ مضبوط ہوتا ہے۔ کورونا کی بابت احتیاط کی تلقین کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اترپردیش خیر سگالی، بھائی چارہ اور تہذیبی اتحاد کی مثال ہے ۔وزیر اعلیٰ کے یہ الفاظ کچھ اٹ پٹے سے لگے لیکن چونکہ سیاست داں بغیر سمجھے بہت کچھ کہہ دیتے ہیں اس لیےانہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اس وقت کسی کو توقع نہیں تھی ایک ایسے ماحول میں جب راج ٹھاکرے زہر گھول رہا ہے یوگی کی جانب سے مسلمانانِ ہند کوقول سے آگے بڑھ کر ایک عملی تحفہ بھی ملے گا ۔ ایودھیا کے اندر فساد کی سازش کا جس طرح پردہ فاش کیا گیا وہ وزیر اعلیٰ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں تھا ۔ اس کارروائی نے ان کے رمضان کے پیغام میں جان ڈال دی ہے۔

رام مندر کی تعمیر نے شمالی ہندوستان میں ہندووں کے جذبات کو ایودھیا سے اس قدر وابستہ کردیا ہے اور وہاں فساد بھڑکا کر اس کی آگ میں پورے علاقہ کو جھونک دینا نہایت آسان ہو گیاہے ۔ اس خیال سے ایودھیا میں راج کرن اسکول کے سامنے ٹاٹ شاہ مسجد پر قابل اعتراض پمفلٹ اور گوشت پھینکا گیا ۔ اس کے بعد جیل کے پیچھے گلاب شاہ درگاہ پر قرآن شریف اور گوشت پھینکنے کی شنیع حرکت کی گئی نیز پمفلٹ پھینکنے کا یہی عمل عیدگاہ سول لائن، گھوسیانہ رام نگر مسجد میں بھی دوہرایا گیا ۔ ان حرکات کے پس پشت شرپسندوں کا منشاء تھا کہ ماہِ رمضان کی مقدس ساعتوں میں عید سے قبل مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرکے انہیں سڑکوں پر لایا جائے اور پویس کے ذریعہ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے ۔ بدمعاشوں کا یہ منصوبہ اس بار ناکام رہا اور جس انتظامیہ کے ذریعہ وہ مسلمانوں کو معتوب کرنا چاہتے تھے اس نے انہیں کو نہایت سرعت سے 24 گھنٹے کے اندر بے نقاب کرکے اصلی مجرموں کو دھر دبوچا ۔ اتر پردیش پولیس کا یہ بروقت اقدام قابلِ تعریف ہے۔

ایودھیا کی پولیس نے اس معاملے میں ہندو یودھا تنظیم کے سربراہ مہیش مشرا سمیت 7 لوگوں کو گرفتار کرکے چار شرپسندوں کے فرار ہونے کا اعلان کردیا اوران کی تلاش شروع کردی ۔ فسادات کے معاملے میں اول تو ہندو فسادیوں کی گرفتاری نہیں ہوتی اور ہو بھی جائے تو ان پر نہایت کمزور تعذیرات لگائی جاتی ہیں مگر یہاں تو این ایس اے اور غنڈہ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جارہی ۔ اس سے قبل یہ قانون مسلمانوں تک محدود ہوا کرتا تھا لیکن اس بار اس کا اطلاق ہندوتوا نواز شر پسندوں پر ہوا ہے ۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ تواز ن برقرار رکھنے کے لیے کسی بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور پولیس بھی لمبا چوڑا فلمی منظر نامہ لکھنے سے بچ گئی ۔ فساد کی سازش کے تحقیق و تفتیش میں پائی جانے والی شفافیت قابلِ تحسین ہے۔ یہ اقدام اگر ممتا بنرجی یا اشوک گہلوت کرتے تو اسے سنگھ پریوار اس کو مسلمانوں کی منہ بھرائی کا نام دیتالیکن یوگی کی پولیس پر یہ الزام لگانا نہ صرف مشکل بلکہ خطرناک بھی ہے ۔

انتظامیہ نے یہ گرفتاری سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر کی ہے یعنی اس کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں ۔ عام طور پر ایسے نازک وقت میں سی سی ٹی وی کے کیمرے سوجاتے ہیں یعنی خراب ہوجاتے ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر پولیس کی نیت ٹھیک ہوتو کیمرے کی کیا مجال کہ پلک جھپکے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے موقع پر مجرمین کو بچانے کی خاطر انہیں جان بوجھ کر خواب غفلت کا شکار کردیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کے بعد پولس نے ایک پریس کانفرنس کرکے لیپا پوتی کرنے کے بجائے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ۔ اس سے بدمعاشوں کو یہ واضح پیغام دیا گیا کہ اب پرانے شکاری اگر نیا جال لائیں گے تو اس میں وہ خود پھنس جائیں گے ۔ آئی جی رینج ایودھیا کے پی سنگھ نے اپنی پریس کانفرنس میں اس سازش کے ڈانڈے آئی ایس آئی وغیرہ سے جوڑنے بجائے یہ بتایا کہ گرفتار شدہ ملزمان نے دہلی کے جہانگیر پوری میں تشدد کے واقعہ سے ناراض ہوکر یہ حرکت کی ۔

پولیس کے ذریعہ کسی ہندو رہنما کے لیے ماسٹر مائنڈ کی اصطلاح کا استعمال بھی ایک خوش کن حیرت کا جھٹکا تھا اس لیے کہ عرصۂ دراز سے اسے مسلمانوں کی خاطر مخصوص کردیا گیا ہے ۔ اس انکشاف نے ٹیلی ویژن چینل کے اینکرس کو مشکل میں ڈال دیا جن کی ایسی خبریں دینے کی عادت ہی چھوٹ گئی تھی۔ جہانگیر پوری میں تشدد کے بعد بی جے پی کے بدنامِ زمانہ ترجمان سمبت پاترا نے ایک ٹیلی ویژن مباحثہ میں مسلم نام لے لے کر سوال کیا تھا کہ وہی تشدد میں کیوں ملوث ہوتے ہیں اور ہندو کیوں نہیں ہوتے؟ بات دراصل ملوث ہونے کی نہیں پکڑے جانے کی تھی۔ پولیس جن کو گرفتار کرتی ہے اور جنھیں چھوڑ دیتی ہے اس کی بنیاد پر سامبت پاتر جیسے لوگ نام لے لےکر اوٹ پٹانگ الزام لگا تے ہیں لیکن اب تو مہیش کمار مشرا کے اپنے ساتھیوں پرتیوش سریواستو ، نتین کمار، دیپک کمار گور عرف گنجن ، برجیش پانڈے ۔ سترو گھن پرجا پتی اور ومل پانڈے کے ساتھ مل کر برجیش پانڈے کے گھر پر منصوبہ بنانے کا الزام پاترا کی چہیتی پولیس نے لگادیا اور وشو ہندو پریشد و بجرنگ دل سے ان کے رشتے کو بھی نہیں چھپایا گیا۔ اس لیے اب پاتراکو اپنا تھوکا ہوا چاٹ کر ملک کی عوام سے معافی مانگنی چاہیے ۔
پولیس نے نہایت سرعت کے ساتھ پوری سازش کو طشت ازبام کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مہیش نے یہ پمفلٹ لال باغ کے آشیرواد فلیکس نامی چھاپہ خانے سے چھپوائے تھے۔ بے حرمتی کرنے کی غرض سے ایک اور ملزم پرتیوش سریواستو نے چوک کے گدری روڈ پرواقع محمد رفیق بک سٹور سے قرآن کے نسخے حاصل کیے تھے۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کا بھیس بدلنے کی خاطر پمی کیپ ہاؤس سے ٹوپیاں خریدی تھیں ۔ آکاش نامی ملزم نے لال باغ سے گوشت خریدا تھا۔ ان لوگوں نے ایک سازش کے تحت ساراسامان 26؍ اپریل کی رات 10 بجے ناکا ورما ڈھابہ میں جمع کیا۔ پھر یہ ٹولہ برجیش کے گھر پہنچا اور وہیں فلیکس پر قابل اعتراض تبصرے لکھے گئے۔ اس کے بعد یہ لوگ چار موٹر سائیکل پر سوار ہوکر دیوکالی بائی پاس سے ہوتے ہوئے بینی گنج تیراہہ پہنچے جہاں پر پولس کی گشتی گاڑی موجود ہونے کے سبب واردات کو انجام نہیں دے سکے ۔اس لیے کشمیری محلہ مسجد میں جا کر قرآن شریف اور گوشت پھینکنے کا غلیظ کام کیا ۔ ان لوگوں نے جرم کا ارتکاب کرتے وقت مسلمانوں جیسی ٹوپی پہن رکھی تھی یعنی اس کو انجام دینے والے بہروپیہ ہندو تھے۔ اس طرح اگر فساد پھوٹ پڑتا تو اس کا الزام نامعلوم مسلمانوں کے سر منڈھ دیا جاتا لیکن بقول غالب (ترمیم کی معذرت کے ساتھ) ؎
تھا یہ منصوبہ کہ مسلم کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے وہ تو گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

ایودھیا کے اس واقعہ کو دیکھنے کے بعد 1975 بیچ کے آئی پی ایس آفیسر و اتر پردیش کے سابق ڈائرکٹر جنرل وبھوتى نارائن رائے یاد آتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس‘‘ کے دیباچہ میں لکھا تھا کہ ’’ایک پولیس آفیسر کی حیثیت سے مجھے کئی فرقہ وارانہ فسادات کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پولیس والوں کا رویہ میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف کا باعث رہاہے۔ ہر مرتبہ یہی محسوس ہوا کہ پولیس والے ایک خاص قسم کے تعصب اور اقلیت مخالف ذہنیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس میں لازمی طور پر ان کی ناقص تربیت کا ہاتھ تو ہوتا ہی ہے، پولیس فورس میں اقلیتوں کی مناسب نمائندگی کا فقدان بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ملک کے تقریباً تمام بڑے فسادات کا مطالعہ کرنے کے بعد میرا یہ یقین پختہ ہوا ہے کہ پولیس فورسز میں عملہ کی تعداد، ہتھیار، گاڑیاں، مواصلاتی آلات جیسے’ لاجسٹکس‘ میں اضافہ کرنے سے زیادہ اہم ان کی سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔

وبھوتی نرائن ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں بڑی اور مسلح پولیس فورس قوت ارادی اور سیکولر طرز عمل کے بغیر ویسا ہی مظاہرہ کرے گی جیسا کہ ہم نے 6دسمبر1992 کو دیکھا ہے، جب بیس ہزار سے زیادہ پولیس والوں کے سامنے بابری مسجد توڑ دی گئی اور وہ کسی مزاحمت کے بغیر خاموش تماشائی بنے رہے تھے۔ ‘‘رائے صاحب کا مشاہدہ درست ہے مگر یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ پولیس فورس اپنی مرضی سے زیادہ اپنے آقاوں کے احکامات بجا لاتی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ملائم سنگھ کے زمانے میں جس پولیس نے معمولی فائرنگ کرکے بابری مسجد کی بے حرمتی کرنے والوں کو تتر بتر کردیا وہی پولیس کلیان سنگھ کے وزیر اعلیٰ بنتے ہی یکسر بدل گئی ۔ ایودھیا کے حالیہ واقعات میں بھی اگر پولیس کو اوپر سے مختلف اشارہ ملتا تو وہ ایسا دوٹوک انکشاف کرنے کے بجائے گول مول باتوں کے ذریعہ معاملہ الجھا دیتی اور ٹیلی ویژن والے اپنے مشتہرین کی خوشنودی کے لیے بات کا بتنگڑ بنا دیتے لیکن یوپی کے وزیر اعلیٰ نے اپنا ’راج دھرم‘ نبھاتے ہوئے انہیں اس کا موقع نہیں دیا۔ اٹل جی نے جس راج دھرم کی تلقین مودی جی کو دی تھی اس پر ایودھیا کے اندر یوگی جی نے اس بار عمل کرکے دکھا دیا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2062 Articles with 1252289 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.