علم ہی ہے امراضِ ملت کی دوا

کسی بھی قوم کی ترقی کا دارو مدار اس قوم میں علم کے فروغ اور ترقی پر منحصر ہے۔ جو قوم علم کے فروغ کے لئے جتنی محنت اور کاوش کرے گی وہ اقوامِ عالم میں اسی نسبت سے بلند مقام حاصل کرتی جائے گی۔تاریخِ عالم کا اگر بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ بلا تفریقِ رنگ و نسل اور دین و مذہب اقوام عالم کے عروج و زوال کے اصول ابدی ہیں ۔ جو قوم بھی ان اصولوں پر عمل کرے گی وہ عروجِ تام حاصل کرے گی اور جو ان سے روگردانی کرے گی وہ ذلت کی اتھا ہ گہرایوں میں گم ہو جائے گی۔ان اصولوں اور لائحہ اعمال میں سے سب سے بڑا اصول اور لائحہ عمل اپنی قوم کو علم کے زیور سے آراستہ کرکے ،اسے جہالت کے اندھیروں سے نکال کر جدید ٹیکنالوجی سے ہمکنار کرنا ہے۔

تاریخِ عرب کا ایک بہت بڑا مورخ بلاذری اپنی کتاب ’فتوح البلدان ‘ میں لکھتا ہے کہ ” اعلانِ اسلام سے پہلے مکہ اور اس کے اردگرد تقریبا دس لوگ افراد آباد تھے مگر ان میں سے صرف دس سے لیکر سو افراد پڑھے لکھے تھے“۔ اور یہی جہالت اور علم سے دوری ان اہلِ عرب کی فرسودہ خیالی ، انسانی قدروں کی پامالی اور نہ ختم ہونے والی جنگوں کا سبب تھی۔جہالت نے ان کے شعور کو سلب کر لیا تھا ، وہ نفرت کی آگ میں جل رہے تھے اور اندھے گڑھے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔جب اسلام آیا تو اس نے اپنی پہلی ہی وحی میں علم اور تحقیق کا حکم دیکر قیامت تک کی بنی نوع انسانی کو ترقی و عروج کی راہ پر گامزن ہونے کا اصولِ ابدی دیدیا۔

محسن انسانیت نے علم و تحقیق کی ترویج کا جو سفر صفہ سے شروع کیا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے عرب میں تعلیمی اداروں اور ریسرچ سنٹرز کی صورت میں پھیل گیا اور پھر یہی علم نور ہدایت کا اجالا بن کر اطرافِ عالم میں چمکنے لگا جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ صدیوں تک عروج، تام کی حامل رہی اور ہر میدان میں بنی نوع انسان کی رہنمائی کرتی رہی۔

افلاک کی گردشوں کے ساتھ ساتھ اہلِ اسلام علم و تحقیق کی راہ سے ہٹ گئے تو اقوام ِ عالم کی سربراہی بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور پھر جہالت زدہ قوم کا مقدر ذلت ہی ٹھہری۔بر صغیر کو ہی دیکھ لیں جب تک مغل سلطنت علم کے فروغ کے لئے کوشاں رہی عزت، تمکنت اور جاہ و جلال ان کا مقدر ٹھہرا۔ یہاں تک کہ اہلِ یورپ یہاں آنے کو ترستے تھے کہ یہ علم و تجارت کا مرکز تھا۔اور جب ان مغل حکمرانوں نے علم کی راہ چھوڑ دی،عیش و عشرت میں پڑ گئے اور نسیمِ سحر کے جھونکوں سے لطف اندوز ہونے لگے تو ان کا سفینہءاقتدار بھی بالآخر جمنا کے کنارے ڈوب گیا۔

برِ صغیر کے بطن سے پھر اک وطن پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا جس کا مقصد ایک تجربہ گاہ کے طور پر ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں اسلام کے ذریں اصولوں کو آزماکر ایک فلاحی ریاست کو دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔افراد ِ معاشرہ کو ہر قسم کی ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے جا سکیں اور انہیں یکساں نظام ِ تعلیم کے ذریعے ایک وحدت میں پرو کر ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کیا جا سکے۔مگر تریسٹھ برس گذرنے کے بعد بھی اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے لئے آنکھیں سوال ہیں ۔تعلیم حکمرانوں کی کبھی ترجیح ہی نہیں رہی۔اب بھی شرح خواندگی در اصل بیس فی صد سے زیادہ نہیں۔انتہائی غریب ممالک بھی اپنے جی ڈی پی کا چار فیصد اپنی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں مگر ہم اپنے جی ڈی پی کا صرف دو فی صد مختص کرتے ہیں اور ایک اعشارہ دو فیصد خرچ کرتے ہیں جو کہ انتہائی شرمناک بات ہے مگر شرم تو اہلِ شرم کے لئے ہوتی ہے ۔تعلیمی اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ مرغی خانوں میں سکول بنے ہوئے ہیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ سکول میں مرغی خانہ ہے یا مرغی خانے میں سکول؟ بچے اور مرغیا ں ایک ہی کلاس میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں ۔کہیں سکول ہے تو اساتذہ نہیں اور کہیں اساتذہ ہیں تو سکول نہیں تھوک کے حساب سے نصاب پڑھائے جا رہے ہیں جو قوم کی تقسیم ِ مسلسل کا باعث بن رہے ہیں ۔ علم کے نام پر جہالت بانٹنے کا کارو بار عروج پر ہے۔ اس پر کوئی حکومتی ادارہ حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ کیا یہ ادارے کسی بورڈ کے تابع نہیں ہیں ؟ اور ان تعلیمی بورڈز کی تشکیل کے مقاصد اور جواز کیا ہے؟ پھر یہ حکومت کی رِٹ کی رَٹ ؟ یہ تماشہ کیا ہے؟۔یہ پنجاب کا حال ہے دوسرے صوبوں کا حال کیا ھوگا؟حالانکہ معیاری بنیادی تعلیم مفت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ فکرِ معاش کا شکار اساتذہ کیا خاک تعلیم دیں گے؟ مگر کسی کو فکر نہیں ۔ خادم ِ اعلیٰ ہوں یا مخدوم ِاعظم سب ایک ہی صف میں ہیں کسی کو تعلیم کے فروغ میں دلچسپی نہیں ۔شائد تعلیم یافتہ قوم ان حکمرانوں کو سوٹ ہی نہیں کرتی کیونکہ تعلیم یافتہ اور با شعور قوم ان کے فرسودہ نظامِ حکومت اور طرزِ سیاست کو چیلنج کر سکتی ہے۔
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے

جو ریاست ، سیاسی جماعتیں اور عدالتیں تریسٹھ سالوں میں قوم کو یکساں نظامِ تعلیم نہ دے سکیں ان کی تشکیل اور جواز سوالیہ نشان ہے! یہاں تو آرڈینینس جاری کرنے کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں پھر آج تک کسی صدر یا گورنر نے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم جاری کرنے آرڈینینس جاری کیوں نہیں کیا؟ اپنے مفادات پہ مبنی قوانیں بھی اسمبلیوں سے پاس ہو جاتے ہیں ۔ یہ قانون آج تک کیوں پاس نہیں ہوا؟یہاں آئے دن سو موٹو ایکشن ہوتے ہیں کسی چیف جسٹس نے اس پر کوئی سو موٹو ایکشن کیوں نہیں لیا؟ آخر یہ بھی تو بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے؟سب اپنے اپنے مفادات کے گرداب میں گم کیوں ہیں؟اور عوام بھی ایک منتشر ہجوم کی صورت میں ذلت کی زندگی گزارنے پر کیوں تل گئے ہیں ؟

مگر ایک بات طے ہے کہ قوم کو جتنے بھی امراض لاحق ہیں ان سب کا علاج ملک میں تعلیم کے فروغ میں ہے کہ تعلیم ہی امراضِ ملت کی دوا ہے جو عوام میں شعور پیدا کرے گی۔یہ شعور افرادِ معاشرہ کو اچھے برے میں تمیز کرنے کی فہم دے گا۔ اور یہی شعور انقلاب کے رستے کی طرف رہنمائی کرے گا ۔ ایک ایسا انقلاب جو امن ،سکون،ترقی اور خشحالی کا ضامن ہو گامگر اس کے لئے چراغ علم جلانا ہوں گے۔
چراغِ علم جلاﺅ بڑا اندھیرا ہے
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 28028 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More