ملیریا کا عالمی دن اور حیرت انگیز حقائق

دنیا میں کورونا کی وباء پھیلنے کے کچھ ہی عرصہ بعد جب لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے تو ہر طرف خوف کی فضاء پیدا ہوگئی ایسے حالات میں بھی مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کا کہنا تھا کہ اگرچہ کورونا کی وباء ہر طرف پھیل چکی ہے لیکن دنیا کا سب سے بڑا قاتل جاندار اس وباء کے دوران بھی آرام نہیں کررہا۔بل گیٹس کامزید کہناتھا کہ کویڈ19 سے کہیں زیادہ ہلاکتوں کا سبب بننے والا جاندار مچھر ہے جو ہر رات لاکھوں افراد کو متاثر کرتا ہے اور ہر دوسرے منٹ میں ایک بچہ اس کی وجہ سے ہلاک ہوجاتا ہے۔ بل گیٹس کی کہی ہوئی یہ بات بھلے اس وقت کسی کو سچی نہ لگی ہو لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا قاتل مچھر ہے۔ انسانوں کے درمیان اڑنے والا یہ ننھا اور کمزورسا کیڑا حقیقت میں کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر سال بیس لاکھ افراد اس کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماریوں ڈینگی بخار،پیلا بخار اور ملیریا میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اسی لئے مچھر کو دنیا کے سب سے چھوٹے مگر زہریلے اور جان لیوا جانداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں مچھروں کی تقریبا تین ہزار پانچ سو اقسام پائی جاتی ہیں۔مچھر کی حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس کی بعض اقسام مسلسل چار گھنٹے تک اُڑ سکتی ہے اس طرح یہ رات بھر میں بارہ کلومیٹر کا سفرآسانی سے طے کرسکتے ہیں۔مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماری ملیریا قدیم بیماری تصور کی جاتی ہے کیونکہ 2700قبل مسیح میں بھی اس بیماری کے وجود کے ثبوت ملتے ہیں۔دنیا میں ہر سال کروڑوں افراد ملیریا کا شکار بنتے ہیں اسی لئے اس بیماری پر قابو پانے اور اس کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ کے زیراہتمام25اپریل کو ملیریا سے بچاو کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ عالمی سطح پر مشترکہ کوششیں کرکے دنیا کو ملیریا فری بنایا جاسکے۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق سن2019میں 23کروڑ افراد ملیریا سے متاثر ہوئے جن میں سے چار لاکھ نو ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے،مرنے والوں میں 80فیصد پانچ سال سے کم عمر کے بچے تھے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے100ممالک میں 3ارب20کروڑ افراد کو اب بھی ملیریا ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال دس لاکھ افراد ملیریا مچھر کا شکار بن جاتے ہیں اسی لئے ملیریا کی بیماری پاکستان کی دوسری بڑی بڑی بیماری سمجھی جاتی ہے۔عالمی ادارہ صحت نے انہی اعدادوشمار کی بنیاد پر پاکستان کو ملیریا کے حوالے سے دنیا کے حساس ترین ممالک میں شامل کررکھا ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عالمی ادارہ صحت پاکستان کے ہمسایہ ملک چین کو ملیریا سے پاک ملک قرار دے چکا ہے اس طرح چین دنیا بھر میں ملیریا سے پاک ہونے والا 40واں ملک بن چکا ہے۔چین میں 1940کی دہائی میں ہر سال ملیریا کے تین کروڑ کیسز رپورٹ ہوتے تھے لیکن سن2016 سے اب تک وہاں ملیریا کاایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔دنیا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں حیرت انگیز طور پر کبھی ملیریا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

ملیریا کی بیماری اب لاعلاج نہیں رہی اسی لئے سن2000سے سن2020تک ملیریا کے کیسز میں 97فیصد کمی ہوئی ہے۔عالمی ادارہ صحت نے سن2030تک ملیریا کو مکمل ختم کرنے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے گلوبل ملیریا پروگرام شروع کررکھا ہے۔امریکی سائنس دانوں نے پاکستان اور انڈیا میں ملیریا کا سبب بننے والی مادہ مچھر”اینوفلس اسٹیفنسائی“کو جنیاتی انجینئرنگ سے گذار کر کامیاب تجربہ کیا ہے،مادہ مچھر کو جدید ترین کرسپر سی اے ایس نائن ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیل کیا گیا تواس میں ملیریا پھیلانے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔اس کامیاب تجربہ کے بعد دنیا کو ملیریا فری بنانے کی امید قوی ہوگئی ہے۔حکومت کو چاہیئے کہ ہمسایہ ملک چین کی طرح پاکستان کو بھی ملیریا فری ملک بنانے کے لئے پائیدار حکمت عملی اور اقدامات کئے جائیں۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr Jamshed Nazar
About the Author: Dr Jamshed Nazar Read More Articles by Dr Jamshed Nazar: 48 Articles with 22907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.