حجاب کا حصار

یہ آرٹیکل عورت کے پردہ کے بارے میں ھے۔کہ پردہ ہی عورت کی زینت ہے۔

حجاب کا حصار
از تحریر۔غزل شیخ۔کالم:آگاہی
پوچھا گیا ہـــــے کہ عورت کے لفظی معنی کیا ہیں ؟
تو جناب عورت کے لغوی معنی ہیں، “چھپانے کی چیز“ اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ، عورت “عورت“ (یعنی چھپانے کی چیز) ہے، جب وہ نکلتی ہے تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے۔ (ترمذی ج2 ص 392 حدیث 1176) (یعنی اسے دیکھنا شیطانی کام ہے۔)

دین اسلام فطری دین ہے اس میں حیا کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے’’ حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دین کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور اسلام میں خصوصیت ’’حیا‘‘ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ نور آیت نمبر 30مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مرد کو بھی اپنی حدود و قیود میں رہنے کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے اور لازم قرار دیا ہے کہ مرد بھی خواتین کی
عزت و احترام کا خیال رکھتے ہوئے اپنی نظریں جھکائے رکھیں تا کہ گناہوں سے بچ سکیں۔

قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر کئی مرتبہ پردے کا حکم آیا ہے۔ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 33 میں اور ایک اور جگہ آیت نمبر 59 میں’’ عورت کو سر سے پاؤں تک پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔ عورت کو مستورات بھی کہا جاتا ہے’’ مستور‘‘کے مطلب عورت کے ہیں،پردے کے متعلق حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ’’ عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہہے ‘‘کیونکہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تلاش کرتا ہے۔ حوالہ ترمذی شریف جلد نمبر 1 حدیث نمبر 1181۔
ہمارے معاشرے میں مغربی رسم و رواج کو اپنانا فیشن بن چکا ہے۔ ہم اپنی اقدار کو بھول کر یا چھوڑ کر مغربی اقدار کو اپنانے کو اپنا اسٹیٹس سمجھتے ہیں۔ اغیار کے رسم و رواج کو اپنا کر ہم دین اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں، جس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں، بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی بڑھتی ہوئی تعداد اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

موجودہ دور میں انتہائی چست لباس کا استعمال اور سر کو مکمل نہ ڈھانپنا سینہ پر چادر کا نہ ہونا گناہ کو براہ راست دعوت دینے اور شیطان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے برابر ہے۔ پردہ ہر دور میں عورت کے لئے مکمل تحفظ اور مکمل کامیابی کی ضمانت ہے۔ عورت کے لئے اپنے سر اور چہرہ کو چادر میں چھپانا لازم ہے۔ آج کے جدید دور میں پردہ کی بہت سی اقسام مثلاََ برقع، اسکارف، موزے،دستانے اور دیگر لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ان تمام صورتوں میں عورت کی سہولت کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے۔
زمانہ جاہلیت کی عورتیں بھی بے پردہ رہتی تھی لیکن وہ ایسا لباس پہنتی تھیں کہ اْن کی پشت ڈھکی اور سینہ کھلا رہتا تھا اور آج جدّت پسندی کی لعنت نے خواتین کو پشت چھپانے سے بھی قاصر کر دیا ہے اور وہ نیم برہنہ حالت میں بازاروں میں ایسے پھرتی ہیں کہ جیسے پردہ اْنکی ضرورت نہیں اورپھر عصمت زنی کا ذمہ دار مردوں کو قرار دیتی ہیںجبکہ معاشرہ میں عام ہونے والا گناہ کبیرہ (زِنا)ایک عام سی بات بن چکاہے اور اسکی وجہ بے پردگی ہے۔

’’حیا ِ‘‘عورت کا زیور ہے اس کا مکمل اہتمام عورت کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ پردہ عورت کو شیطان اور شیطان کے چیلوں سے بچانے اور تحفظ کا مکمل حصار فراہم کرتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت پردے میں رہ کر تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے کاروبار بھی کر رہی ہیں اور قوم کی خدمت احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔ مسلم خواتین پائلٹ ڈاکٹرز انجینئرز اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں محفوظ طریقے سے اپنا کردار نبھا رہی ہیں۔ یہی اسلامی معاشرے کا حسن ہے۔ عورت کا پردے سے باہر ہونا مر د و زن دونوں کو گناہ کی طرف مائل کرنا ہے۔ جس سے نہ صرف رشتوں کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ معاشرتی بدحالی کا بھی موجب بنتا ہے۔ عورت کے پر دہ کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے لئے عبادت بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع فرمایا گیا ہے۔
درس قرآن کو اگر ہم نے نہ بُھلایا ہوتا
تو زمانے نے یہ زمانہ نہ دکھایا ہوتا
’’حجاب عورت کی کمزوری یا مجبوری نہیں ضروری ہے بلکہ ایسا حصار ہے جوحفاظت کا احساس دلاتا ہے ۔جب آپ اپنی قدر اور حفاظت خود کریں گی تو دوسرے بھی آپ سے آپ جیسا سلوک کریں گےاللہ تعالی کی لعنت ہوتی ہے ؟
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں : نبی پاک ﷺ نے فرمایا : اللہ کی لعنت ہو دیکھنے والے پر (جو اس شے کو دیکھے جس کی طرف نظر کرنا حرام ہے) اور اس پر جس کی طرف دیکھاجائے(اور وہ اس حرام عمل سے راضی ہو )۔ (تنبیہ الغافلین ، باب الحیاء ، ص :۴۴۷ )
ابلیس کا تیر :
نبی پاک ﷺ نے فرمایا : عورت کے مَحاسن اس کی حسن و جمال کے مقام کی طرف نظر کرنا ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے جس نے نامحرم کی طرف دیکھنے سے اپنی آنکھ کو پھیر لیا اللہ تعالی اسے ایسی عبادت کی توفیق دے گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا ۔ (نوادر الاصول ، ۳ /۱۸۱ ) بحیثیتِ مسلمان ہمارے لیے آنکھوں کی حفاظت کرنا ، حرام اشیاء کی طرف نظر کرنے سے خود کو بچانا بہت ضروری ہے ، آنکھوں کی شرم و حیاء ہمارے لیے کس قدر زیادہ ضروری ہے ، اس کا اندازہ نبی پاک ﷺ کے اس فرمان سے لگائیں آنکھیں (بھی) زنا کرتی ہیں ۔
عورت کے سماجی وقار میں حجاب کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔
مکتب اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب اور حد بندی قائم کی گئی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کی دنیا مردوں کی دنیا سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ نہیں عورتیں اور مرد معاشرے میں اور کام کی جگہوں پر ایک ساتھ ہوتے ہیں ہر جگہ ان کو ایک دوسرے سے کام پڑتے ہیں۔ سماجی مسائل کو مل جل کر حل کرتے ہیں، جنگ جیسے مسئلے کو بھی باہمی تعاون و شراکت کے ساتھ کنٹرول کرتے ہیں اور ایسا انہوں نے کیا بھی ہے، کنبے کو مل جل کر چلاتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرتے ہیں لیکن گھر اور خاندان کے باہر اس حد بندی اور حجاب کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ اسلامی طرز زندگی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہی فحاشی پھیلے گی جس میں آج مغرب مبتلا ہے۔ اگر اس نکتے کا خیال نہ رکھا جائے تو عورت اقدار کی سمت اپنی پیش قدمی کو جو آج ایران میں نظر آ رہی ہے، جاری نہیں رکھ سکے گی۔

حجاب کا مطلب عورت کو سب سے الگ تھلگ کر دینا نہیں ہے۔ اگر حجاب کے سلسلے میں کسی کا یہ نظریہ اور تصور ہے تو یہ سراسر غلط نظریہ ہے۔ حجاب تو در حقیقت معاشرے میں مرد اور عورت کو ضرورت سے زیادہ اختلاط سے روکنا ہے۔ ضرورت سے زیادہ قربت معاشرے، مرد اور عورت دونوں بالخصوص عورت کے لئے تباہ کن نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ حجاب کو ملحوظ رکھنے سے عورت کو اپنے اعلی روحانی مقام پر پہنچنے میں مدد ملتی ہے اور وہ سر راہ موجود نازک موڑ پر لغزش سے محفوظ رہتی ہے۔

 

Ghazala Tubbassum
About the Author: Ghazala Tubbassum Read More Articles by Ghazala Tubbassum: 2 Articles with 1059 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.