برین ہود کو نوبل انعام دیا جائے

رب العالمین کی اس کائنات میں ہزاروں عظیم و انیق لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو برادری رنگ و نسل قوم و ملک اور مشرق و مغرب سے بالاتر ہوکر اعجاز انسانیت کے پر چار ہوتے ہیں ظلم چاہے دنیا کے کسی کونے میں ہو ظالم بیشک سپرپاور کا سربراہ ہو یا کسی برطانیہ کا ٹونی بلیر وہ ظلم و جبر کے خلاف آواز حق بلند کرنے سے نہیں کتراتے وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔وہ شرف انسانیت اور احترام آدمیت کے تحفظ کی خاطر اپنی جانیں جانیں آفرین کے سپرد کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔وہ ناقابل لغزش استقامت کے علمبردار ہوتے ہیں وہ انسانیت کے ماتھے کی جھومر ہوتے ہیں۔قتیل شفائی کے ایک شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے۔کہ وہ شخص منافق ہے جو ظلم تو سہتا رہے مگر آواز بلند نہ کرے۔یہ مفہوم امت مسلمہ کے حکمرانوں پر لاگو ہوتا ہے۔ستاون بادشاہ کشمیر بوسنیا عراق و کابل میں مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کو تو دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں سے دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں مگر اپنے آقا امریکہ کو کھری کھری سنانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ خیر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ انسانیت کے تاریک سایوں و شب دیجور کو عزم صمیم استقامت صداقت ایمان و ایقان کی شمع سے روشنی پیدا کرنے والے انسانوں کی فہرست میں برطانوی شہری برین ہوو شامل ہے جو18 جون2011 کو اس دار فانی سے زندگی کی 62 بہاریں دیکھنے کے بعد کوچ کرگئے۔وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔ برین ہود نے ایک ایسی تابناک تاریخ رقم کی کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔ برین ہود مسلم ملکوں پر امریکی جارہیت کے خلاف برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے مسلسل 10 سال تک علم بغاوت بلند کرتا رہا۔ گوری حکومت اور پارلیمنٹ کے وزرا و اراکین نے برین ہود کو وہاں سے ہٹانے کے کئی جتن کئے۔ارباب اختیار نے ہر تدبیر استعمال کی مگر بوڑ ھا مرد قلندر موت کے منہ میں جانے تک استقامت کا دیو بن گیا۔برین ہود ابھی کم عمر تھے کہ والد نے خودکشی کرلی گھر کی کفالت کا سارا فریضہ برین ہود کے ناتواں کندھوں پر ان پڑا۔برین ہود نے2 جون2001 کو بیوی بچوں کو خیر باد کہا اور برٹش دارالعلوم کے سامنے ڈیرہ جمالیا ۔وہ عراق پر مسلط کی جانیوالی تجارتی پابندیوں قبضے اور خلیجی جنگوں میں ادویات اور خوراک کی عدم دستیابی سے مرنے والے بچوں کی طرف عالمی توجہ مرکوز کروانے کے لئے لرزاں و ترساں رہا تاکہ روئے ارض پر جنگوں کی بجائے امن و امان کا دور دورہ ہو۔۔ برین ہود کے دس سالہ احتجاج سے بغداد و کابل کے مظلوم بچوں اور۴ نوجوانوں کی زندگیوں میں کوئی سدھار آیا یا نہیں اس سے قطع نظر وہ ایک دہائی تک برطانوی پارلیمان کے لئے درد سر بنا رہا۔ جونہی پارلیمان کے ممبران اور وزرا ایوان میں جانے لگتے تو ہود کا مائیکروں فون کانوں کے پردے پھاڑنے لگتا،وہ ارباب اختیار سے پوچھتے کہ امریکہ و برطانیہ نے2004 میں ایک لاکھ عراقی مار ے۔2006 میں یہ تعداد 6 لاکھ پچپن ہزارہوگئی کیا تمھاری پیاس لاکھوں معصوموں کی ہلاکت کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی؟جواب دو اب کتنے عراقیوں کی جان لو گے؟ ہماری حکومت نے جن مقاصد کی خاطر عراق میں فوج بھجوائی وہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔2002 میں برین ہود لکھتے ہیں کہ میرا دل اپنے بچوں کے لئے مغموم ہے مگر میں اس وقت تک اپنے بچوں کو نہیں ملونگا جب تک امریکی اور برطانوی افواج واپس نہیں آتیں اور بغداد و کابل کے بچوں کی زندگیوں کو تحفظ نہیں مل جاتا۔برین دس سال خیمے میں پڑا رہا۔عدالت میں پیشی کے دوران اسے خیمے کو چھوڑنا پڑتا۔برین کے فین اسے روٹی پانی پہنچایا کرتے اگر کسی روز کھانا نہ آتا تو وہ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے۔ لیبر پارٹی کے آٹھ سالہ دور میں ریاستی مشینری کینسرزدہ و لاغر جذبات و ہمت کو ختم کرنے میں ناکام ہوئی مگر حالیہ مخلوط اتحادی نے مئی2010 میں اسے گرفتار کرلیا۔ستمبر2010 میں اسکے کینسر کی تصدیق ہوگئی۔برطانوی حکومت نے اسے ملک بدر کرنے کے لئے علاج کا بہانہ بنایا اور برین ہود کو جنوری2011 کو جرمنی بھجوادیا جہاں پانچ ماہ موت و زندگی کی کشمکش ہوتی رہی اور وہ جون اٹھارہ کو پیوند خاک بن گئے۔موت کے بعد اسکی کاوشوں کو داد تحسین سے نوازا جارہا ہے۔عربی ٹی وی الجزیرہ نے برین ہود کو unsung hero کا خطاب دیا یعنی ایک ایسا ہیرو جسکی سچائی و خدمات تو مسلم ہوتے ہیں مگر انہیں کوئی صلہ نہیں ملتا۔peace news کی ایڈیٹر میلان رائے کہتی ہیں برین ہود کو بچوں سے والہانہ عقیدت تھی۔وہ عراقی بچوں کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے تھے جیسے وہ اسی کے بچے ہوں۔مغربی تجزیہ نگار سینگسسٹر نے برین کو خراج عقیدت پیش کیا کہ اسکا فلسفہ قابل دید ہے کہ تن تنہا ادمی حکومتوں اور افواج کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ برین ہود نے دنیا بھر کے مظلوموں کو نصیحت کی کہ مظلوم کو ظالم کے خلاف اواز اٹھانی چاہیے اگر اکیلا انسان بغیر ہتھیار اٹھائے بغیر جمہوری انداز میں تن تنہا ڈٹ جائے تو وہ دنیا بھر کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کرسکتا ہے۔ہزاروں لوگ برین کے عارضی خیمے کی جگہ پھول کارڈز رکھ کر اسی خدمات کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ امریکی اور حلیف ممالک کی فوجوں نے عراق و افغانستان میں تیس لاکھ بے گناہوں کو قتل کردیا مگر ہمارے بادشاہوں اور حکمرانوں کو فلسطین کابل و بغداد میں قتل ہونے والے مسلمان بھائیوں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔کیا یہ درست نہیں کہ لاغر و کینسر زدہ برین ہو57 حکومتوں پر بازی لے گیا ہے؟ یوں ہیرو کا ایوارڈ برین ہود کو حاصل ہے۔برین ہود کو اللہ جوار رحمت میں جگہ دے کیونکہ جو کام اسلام کے رکھوالوں کے زمے تھا وہ اکیلا برین ہود نے انجام دیکر انسانیت کا سر فخر سے بلند کرڈالا۔oic اور عرب لیگ کو چاہیے کہ وہ نوبل ایوارڈ کے لئے کسی مسلمان کی بجائے برین ہود کو نامزد کرے ۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 129160 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.