یومیہ پانچ کروڑ سے زائد نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ

ابھی حال ہی میں چین میں وبا کی روک تھام و کنٹرول کے حکام نے بتایا کہ ملک میں فعال
نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ اداروں نے یومیہ 51.65 ملین یعنیٰ ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد نمونوں کی ٹیسٹنگ کی صلاحیت حاصل کر لی ہے ، جو بلاشبہ دنیا میں ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ باقی دنیا کے برعکس چین میں بدستور انسداد وبا کے مضبوط اقدامات اپنائے جا رہے ہیں تاکہ وائرس میں رونما ہونے والے تغیرات سے بہتر طور پر نمٹا جا سکے۔اس سے قبل بھی چین میں وسیع پیمانے پر نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ کی صلاحیت ملک میں کووڈ۔19 انفیکشن کی نشاندہی کا ایک مؤثر ذریعہ رہا ہے اور اب اس صلاحیت کی مزید مضبوطی عوام کے اس وبا پر قابو پانے کے لیے اعتماد کو مزید تقویت بخشے گی۔

یہ بات قابل زکر ہے کہ اس وقت چین میں 13,100 مستند نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ ادارے کام کر رہے ہیں، اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد اس حوالے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔عام طور پر، نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ کے نتائج چھ گھنٹے کے اندر سامنے آ سکتے ہیں جبکہ چینی محکمہ صحت کے حکام تیز تر ٹیسٹنگ نتائج کی حکمت عملیوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ ادارے شنگھائی میں بھی حالیہ وبا سے نمٹنے کے لیے اپنی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور شہر میں اپریل کے اوائل سے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کے کئی دور کیے جا چکے ہیں۔

چین وبا کے مسلسل خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی زندگیوں اور صحت کے تحفظ کی خاطر وائرس تغیرات سے نمٹنے کے لیے اپنی ڈائنامک زیرو کووڈ۔19 پالیسی پر بدستور قائم ہے۔ چین نے دنیا کے ایسے ممالک کی تقلید نہیں کی ہے جنہوں نے اس وائرس کے ساتھ "جینے" کا انتخاب کیا ہے ۔یہ امر تشویش ناک ہے کہ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹمز سائنس اینڈ انجینئرنگ کے مطابق، دنیا بھر میں کووڈ۔19 کے کیسز کی تعداد 500 ملین سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اموات بھی 6.18 ملین سے زائد ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ وبا کا پھیلاو بدستور جاری ہے۔

یہاں اس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ اصل خطرہ یہ ہے کہ اگر وائرس پر نہیں قابو پایا جاتا تو نئے تغیرات سامنے آئیں گے۔ انسداد وبا کی پابندیوں کے مکمل طور پر اٹھائے جانے سے طبی نظام پر بھی بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ متاثرہ افراد کی بڑی تعداد صحت کے نظام پر دباؤ بڑھاتی ہے۔دوسری جانب اسپتالوں کو معمول کے امراض کے علاج کے حوالے سے بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔اس کے علاوہ سروس انڈسٹریز جیسے اسکول کالجز، ریلوے، ہوا بازی وغیرہ عملے کی کمی کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چین نے اس تناظر میں گزشتہ دو سالوں میں مختلف شہروں میں متعدد کلسٹر انفیکشنز پر کامیابی سے قابو پانے کے بعد، انسداد وبا کے لیے موئثر، مضبوط اور اہدافی اقدامات اپنائے ہیں۔ انتہائی متعدی اور پوشیدہ وائرس پر قابو پانے کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود، چین اپنے ٹھوس عمل اور عزم سے وبا کو شکست دینا چاہتا ہے۔ چینی قیادت نے ہمیشہ یہ عزم دوہرایا ہے کہ اپنے شہریوں کی جانوں کے تحفظ سے کبھی دستبردار نہیں ہوا جائے گا۔ چین "وائرس کے ساتھ جینے" کا خواہاں نہیں ہے بلکہ وبا کی روک تھام کے ساتھ ساتھ جامع ویکسینیشن پر انحصار کر رہا ہے۔اس ضمن میں چین کی ڈائنامک زیرو کووڈ۔19 پالیسی ہی بہترین آپشن ہے جو ملکی سطح پر وبا کو کنٹرول کرنے میں انتہائی کارگر ثابت ہوئی ہے ۔ چین کا نقطہ نظر بہت واضح ہے کہ ہر ایک فرد کی جان قیمتی ہے اور ہر انسانی جان کا تحفظ لازم ہے ،کسی بھی کمزور شخص کو وائرس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔

یہ پالیسی چینی حکومت کے عوام پر مبنی ترقی کے فلسفے کی عمدہ عکاس ہے۔تمام 1.4 بلین چینی شہری، بشمول 60 سال یا اس سے زائد عمر کے 267 ملین بزرگ شہری اور 250 ملین سے زائد بچے، جانتے ہیں کہ ان کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ چینی عوام کو یقین ہے کہ وہ وائرس کے خلاف یہ جنگ ضرور جیتیں گے اور ماضی کی طرح اس کڑی آزمائش میں بھی سرخرو ہوں گے۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1128 Articles with 424171 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More