گلوبل وارمنگ اور انسانی رویے

اس وقت دنیا کو درپیش بڑے مسائل میں گلوبل وارمنگ بھی شامل ہے۔یہ گلوبل وارمنگ کاہی شاخسانہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی حالیہ عرصے میں دنیا میں آنے والے انتہائی شدید موسمی واقعات کو ہوا دے رہی ہے جن میں جنگل کی آگ، گرمی کی لہریں، طوفانی بارشیں، خشک سالی، سیلاب اور طوفان وغیرہ شامل ہیں۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی بے ضابطگیوں کا سبب گلوبل وارمنگ کی تیز رفتاری ہے۔ اگر گلوبل وارمنگ کا رجحان تبدیل نہیں ہوتا ہے، تو شدید موسمی حالات کے متواتر، مضبوط اور ایک ساتھ رونما ہونے والے واقعات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

اعداد وشمار پر نگاہ دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2011 تا 2020 کی مدت کے دوران زمین کی سطح کا عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے تقریباً 1.09 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا، جس میں تقریباً 1.07 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ بین الحکومتی پینل آن کلائمیٹ چینج کے مطابق، 2020 میں عالمی اوسط درجہ حرارت صنعتی سطح سے پہلے کی سطح سے تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔عالمی موسمیاتی اداروں کے مطابق، 1950 سے 2018 تک، دنیا کے بیشتر حصوں میں گرم دنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، جس میں ہر دہائی میں دو سے آٹھ دن کا اضافہ سامنے آیا ہے۔ حالیہ برسوں میں گرم دنوں کی اوسط تعداد میں 1961 اور 1990 کے درمیان کے اعداد و شمار کے مقابلے میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ دریں اثنا، دنیا کے بیشتر خطوں میں شدید بارشوں میں اضافہ ہوا ہے، شدید بارش میں فی دہائی ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح دنیا کے بہت سے حصوں کو گزشتہ برس موسم گرما میں شدید موسمی واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔مثلاً کینیڈا کی ہی مثال کی جائے جہاں عموماً موسم خوشگوار رہتا ہے وہاں بھی جون کے آخر میں، مغربی کینیڈا میں کئی مرتبہ ریکارڈ بلند درجہ حرارت نوٹ کیا گیا بلکہ 30 جون کو لٹن گاؤں میں درجہ حرارت 49.6 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ جولائی کے وسط میں، مغربی یورپ طوفانی بارشوں کے بعد سیلاب کے باعث تباہی کی زد میں آیا۔ کیلیفورنیا میں جنگل کی آگ نے ایک وسیع رقبے کو جلا دیا ۔ 15 اکتوبر کو یونان بھر میں آنے والے شدید طوفان نے ایتھنز میں سیکڑوں مکانات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اسی طرح چین ،پاکستان یا دنیا کے دیگر کئی ممالک ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کافی متاثر ہوئے ہیں۔شدید موسمی واقعات کی تعداد اور شدت میں ہونے والی تبدیلیوں کا علاقائی ماحول اور اقتصادی و سماجی نظام پر بھی بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔اس ضمن میں موسمیاتی نگرانی، درست پیشں گوئی اور جدید ترین خدمات کا فروغ بھی لازم ہو چکا ہے تاکہ جانی اور مالی نقصانات کو کم کیا جا سکے۔

گلوبل وارمنگ کے ان بڑے اثرات سے نکل کر اب ایک عام سی مثال لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسانیت کے لیے اس خطرے سے نمٹنا کیوں لازم ہو چکا ہے۔ کیکٹس ایک خاردار پودا ہوتا ہے جو عام طور پر صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے اور ہم میں سے تقریباً ہر کسی نے دیکھا ہوا ہے۔ایک نئی تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کے شدید اثرات کے باعث کیکٹس کی 60 فیصد انواع آنے والی دہائیوں میں ختم ہو جائیں گی ،یہ نئی تحقیق طویل عرصے سے جاری اس قیاس کو چیلنج کرتی ہے کہ صحرائی پودے زیادہ گرمی کے ساتھ پروان چڑھیں گے۔سائنسی جریدے "نیچر پلانٹس" میں سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ 2070 تک، موسمیاتی تبدیلی، فطری مساکن کی تباہی اور دیگر تناؤ کی وجہ سے کیکٹس کے 90 فیصد تک ناپید ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے، جو موجودہ شرح سے تین گنا زیادہ ہے۔یہ تو ہم اُس پودے کی بات کر رہے ہیں جو کافی سخت جان ہے اور شدید موسمی حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے برعکس دیگر حساس پودے جو ماحول کے لحاظ سے بھی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں ،اُن کے تحفظ کے بارے میں سوچنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس ضمن میں شجرکاری میں اضافہ پودوں کی بڑھوتری اور موسمیات کے حوالے سے درپیش کئی مسائل کا عمدہ حل ہے۔چین میں رہتے ہوئے بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں دوراندیشی کا پہلو زندگی کے تمام شعبہ جات میں شامل ہے ۔اسی موسمیاتی تبدیلی کو ہی دیکھا جائے تو چین بھر میں جہاں وسیع پیمانے پر کم کاربن پر مبنی گرین ترقی اور گرین صنعتوں کی کوششیں جاری ہیں وہاں معاشرتی اعتبار سے شجرکاری کو بھی سماجی زندگی کا ایک اہم حصہ بنا دیا گیا ہے۔ابھی حال ہی میں چائنا فارسٹری گروپ نے بتایا کہ وہ 2022 میں ملک میں 40 ہزار ہیکٹر رقبے پر درخت لگانے کی کوشش کرے گا۔اس دوران بڑے پیمانے پر جنگلات کو فروغ دیا جائے گا اور مقامی حالات کے مطابق شجرکاری کی سرگرمیاں انجام دی جائیں گی۔یہ بات قابل زکر ہے کہ چین نے 2021 میں 3.6 ملین ہیکٹر رقبے پر جنگلات لگائے اور تقریباً چار لاکھ ہیکٹر اراضی کو جنگلات میں تبدیل کیا ہے ۔اس دوران چین کی جانب سے جنگلات کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اہدافی اقدامات کیے گئے اور حیرت انگیز طور پر گزشتہ سال تقریباً ساڑھے نو لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلے تباہ شدہ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔چین کے یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ فطرت اور انسانیت کے مابین ہم آہنگ ترقی کے لیے کوشاں ہے اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی بنیاد پر حقیقی ترقی کا خواہاں ہے۔



 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1139 Articles with 431669 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More