قیامت و شفاعت اور علمِ شفاعت و حقِ شفاعت

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالزُخرف ، اٰیت 81 تا 89اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
ان کان
للرحمٰن ولد
وانا اول العٰبدین
81 سبحٰن رب السمٰوٰت
والارض رب العرش عما یصفون
82 فذرھم یخوضوا ویلعبوا حتٰی یلٰقوا
یومھم الذی یوعدون 83 وھوالذی فی السماء
الٰه وفی الارض الٰه وھوالحکیم العلیم 84 وتبٰرک الذی
لهٗ ملک السمٰوٰت والارض وما بینہما وعنهٗ علم الساعة والیه
ترجعون 85 ولایملک الذین یدعون من دونه الشفاعة الا من شھد
بالحق وھمیعلمون 86 ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ فانٰی یؤفکون
87 وقیلهٖ یٰرب ان ھٰٓؤلٓاء قوم لایؤمنون 88 فاصفح عنھم وقل سلٰم فسوف
تعلمون 89
اے ہمارے رسُول ! مُنکرینِ قُرآن سے کہدیں کہ اگر تُم یہ گمان کیۓ ہوۓ ہو کہ خُداۓ رحمٰن اَولاد کا والد ہے اور میں بھی اُس کی اُس اَولاد کے اُن پہلے پُجاریوں میں شامل ہو سکتاہوں تو یہ تُمہاری بہت بڑی بُھول ہے کیونکہ میں تو اُس اللہ کی بندگی کی دعوت دیتا ہوں جو اللہ ارض و سما کا اور عرشِ اَعلٰی کا مالک ہے اور جس کی اَعلٰی ذات انسان کی اِن پست خیالی نسبتوں سے ایک بہت ہی اَعلٰی ذات ہے اور آپ اِن لوگوں کو یہ بات بتادینے کے بعد اِن کے اسی خیال میں مُنہمک رہنے دیں یہاں تک کہ یہ لوگ اپنے قول و عمل کے اَنجام کے اُس دن کو بچشمِ خود دیکھ لیں جس دن ظاہر ہونے والے اُن یقینی نتائج سے اِس وقت اِن کو ڈرایا جا رہا ہے ، جب اِن پر نتائجِ عمل کا وہ دن آجاۓ گا تو اِن کو معلوم ہو جاۓ گا کہ اللہ ہی وہ عالم و حاکم اور قادر و مُقتدر ہے جس کی زمین و آسمان اور اِن کے درمیان موجُود ہر ایک چیز کو مُسلسل بڑھا رہا ہے اور یہ بات بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ فیصلے کی اُس گھڑی نے کب آنا ہے جس گھڑی کے آنے پر ہر چیز نے زیر و زبر ہو جانا ہے اور نیستی سے ہستی میں آنے والے ہر ایک وجُود نے اُس کے حُکم سے حسابِ عمل کی جواب دہی کے لیۓ اُسی کی طرف جانا ہے اور اُس روز اُس خالق کی مخلوق میں کوئی بھی ایسا فرد نہیں ہوگا جس سے اُس روز یہ لوگ اپنی نجات کی التجا کرسکیں گے اور وہ فرد اِن کی اُس التجا کا جواب دے سکے گا یا اِن کی نجات کے لیۓ اللہ کے سامنے کوئی لَب کشائی کر سکے گا سواۓ اِس کے کہ اللہ خود ہی اپنے کسی صاحبِ علم بندے کو اپنے کسی صاحبِ عمل بندے کے حق میں لَب کشائی کی اجازت دے دے ، اگر اِس دُنیا میں اِِس وقت آپ اِن لوگوں سے اِن کے خالق کے بارے میں سوال کریں گے تو یہ یقینا اللہ ہی کے خالق و مالک ہونے کا اقرار کریں گے ، اگر اِن لوگوں کے ساتھ اِس عقلی مکالمے کا کوئی ایسا موقع آجاۓ تو آپ اِن سے یہ بھی ضرور پُوچھیں کہ اگر تُم واقعی اللہ ہی کو اپنا خالق و مالک تسلیم کرتے ہو تو پھر یہ بھی تو سوچو کہ تُم اپنے اُس مہربان خالق و مالک کو چھوڑ کر کہاں کہاں بہٹکتے پھر رہے ہو اور کیوں بہٹکتے پھر رہے ہو لیکن اَمرِ واقعہ تو بہر حال یہی ہے کہ یہ لوگ اپنے دل سے حق کو حق مان کر بھی اپنی زبان سے حق کا اقرار نہیں کرتے اِس لیۓ بہتر یہی ہے کہ آپ اِن لوگوں کی سلامتی کا تو خیال تو ضرور کریں لیکن اِن کے حال کو فراموش کر کے ایک مناسب حَد تک اِن سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور اپنے اُس صبر کے نتائج کا انتظار کریں جو صبر جَب سے اَب تک آپ کرتے چلے آ رہے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا اِفتتاحِ کلام بھی اللہ تعالٰی کا وہی کلمہِ توحید بنا ہے اور اِس سُورت کا اِختتام کلام بھی اللہ تعالٰی کا وہی کلمہِ توحید بناہے جس کلمہِ توحید کا اقرار کرنے والے انسانوں کے ساتھ اللہ تعالٰی نے اپنی اِس کتابِ عظیم میں اپنی ایک جنتِ نعیم کا وعدہ کیا ہوا ہے اور جس کلمہِ توحید کا انکار کرنے والے انسانوں کو اللہ تعالٰی نے اپنی اِس کتابِ عظیم میں اپنے جہنم کے ایک عذابِ جحیم کی وعید بھی سنائی ہوئی ہے ، اِس وعدے اور اِس وعید کی مِن جُملہ وجوہات میں ایک عقلی و مَنطقی وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے جس وقت جس انسان کی تخلیق کی ہے اُسی وقت اُس انسان کی ہستی میں اپنی توحید کی یہ دلیل بھی کُچھ اِس طرح سے اُس کی تخلیق میں شاملِ تخلیق کردی ہے کہ کوئی انسان اپنی تَخلیق سے دفین تک اِس دلیل کو کبھی بُھول بھی نہیں سکتا اور کوئی انسان اِس دلیل کا کبھی انکار بھی نہیں کر سکتا اور توحید کی وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی دُوسرے انسان کے ساتھ خود کو مُتعارف کراتا ہے وہ صیغہِ واحد مُتکلّم { مَیں } کے ساتھ مُتعارف کراتا ہے اور جس وقت جو انسان اپنے اِس اِدعاۓ ذات { میں } کے ساتھ اپنا تعارفِ ذات کراتا ہے تو اُس وقت اُس کی اِس { میں } میں کوئی { یہ } یا کوئی { وہ } اُس کی مُفرد ذات میں شاملِ ذات نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک { میں ہی میں } اِس کی مُفرد ذات میں شاملِ ذات ہوتا ہے اور جس وقت جو انسان اپنا یہ تعارف کراتا ہے تو اُس کی ذات سے مُتعارف ہونے والا ہر ایک انسان بھی اسی طرح سے اُس کے مُفرد ہونے کا یقین کرلیتا ہے جس طرح بذاتِ خود اُس کو اپنے مُفرد ہونے کا یقین ہوتا ہے ، انسانی تخلیق میں توحید کی یہی وہ فکری و فطری دلیل ہے جو دُنیا میں بھی کسی لَمحے انسان کے نفسِ ذات و شعورِ ذات سے کبھی الگ نہیں ہوتی اور عُقبٰی میں بھی انسان کے نفسِ ذات و شعورِ ذات سے کبھی الگ نہیں ہو گی ، توحید کی اسی واحد دلیل کی بنا پر حسابِ ایمان و یقین کے اُس دن انسان سے یہ سوال کیا جاۓ گا کہ تُو بذاتِ خود تو صاحبِ اولاد ہونے کے باوجُود بھی جب اپنا تعارف کراتا تھا تو اُس صیغہِ واحد مُتکلّم کے ساتھ اپنا تعارف کراتا تھا جس میں تیری توحیدِ ذات کی ایک لازمی علامت موجُود ہوتی تھی لیکن جب تُو اللہ وحدهٗ لاشریک کا تعارف کراتا تھا تو اُس کے اُس تعارف میں تُو کبھی اپنے مَن کے لات و منات کو شامل کر لیتا تھا اور کبھی اُس کی ذات کے ساتھ اُس کے خیالی بیٹوں اور اُس کی خیالی بیٹیوں کو بھی شامل کرلیتا تھا ، آخر اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ تیری کیا دُشمنی تھی کہ تُو دُنیا میں اپنی توحیدِ ذات کا تو ہمیشہ اقرار کرتا تھا اور ہمیشہ ہی اقرار بھی کراتا رہا ہے لیکن اللہ تعالٰی کی توحید کا تُو نے خود بھی ہمیشہ انکار کیا ہے اور دُوسروں سے بھی ہمیشہ انکار ہی کرایا ہے حالانکہ توحید کا یہ عقلی و مَنطقی مفہوم تیری تخلیق میں جُزوِ تخلیق کے طور پر ہمیشہ سے موجُود تھا اور اسی لیۓ موجُود تھا کہ تُو یہ بات اپنے ایمان و یقین کے ساتھ جان لے کہ میرا خالق و مالک وہ واحد خالق و مالک ہے جس نے میری ذات میں جو ایک تَوحد رکھا ہوا ہے وہ تَوحد بھی اُس نے مُجھے اپنی توحید کی اُس فطری اور فکری تعلیم دینے کے لیۓ رکھا ہوا ہے جس تعلیم کی تفہیم کا نتیجہ میرے لیۓ اُس کی جزاۓ جنت اور عدمِ تفہیم کا نتیجہ میرے لیۓ اُس کی سزاۓ جہنم ہے ، اٰیاتِ بالا میں آنے والی اُس قیامت کے ذکر سے پہلے اور بعد مُنکرینِ توحید کے اِس گمان کی خاص طور پر نفی کی گئی ہے کہ جو مُشرک لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ اِس دُنیا میں وہ جن ہستیوں کی پرستش کرتے ہیں قیامت کی اُس مُشکل گھڑی میں وہ ہستیاں اُن کی شفاعت کے لیۓ اُن کے سامنے آئیں گی اور اُن کو اُس روز کی متوقع مُشکلات سے نجات دلائیں گی ، مُنکرینِ توحید و عاملینِ شرک کے اِس باطل گمان کی تردید کے لیۓ اٰیاتِ بالا میں یہ اُصول بیان کیا گیا ہے کہ اُس روز کوئی انسان بذاتِ خود کسی انسان کی سفارش و شفاعت کا تصور بھی نہیں کر سکے گا سواۓ اِس کے کہ اللہ تعالٰی خود ہی کسی انسان کو کسی انسان کے حق میں لَب کشائی کی اجازت دے دے اور اللہ تعالٰی اُسی انسان کو اِس اَمر کی اجازت دے گا جو اللہ تعالٰی کےاُس قانُونِ شفاعت کا وسیع علم رکھتا ہو گا اور اپنے اُس وسیع علم کی بنا پر کسی کے انسان کے بارے میں اللہ تعالٰی کے اُس حُکم کے بعد ہی ایک محدُود لَب کشائی کا حق دار ہو گا !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 459746 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More