میری داستانِ گنگرین


میری داستانِ گنگرین
از:۔منوراحمد خورشید انگلستان
نا خوشگوار لمحات حیات
آج چار اپریل سال 2022 ہے۔ اس وقت ،میں سینٹ جورجز اسپتال میں موجود ہوں اور انتظار گاہ میں بیٹھا ہوا ہوں۔سوچا بجائے پریشان ہونے کے اسپتال میں اپنی آمد اوراس کی وجوہات کے بارے میں لکھتا جاؤں۔ہم سب جانتے ہیں۔اسپتال میں خوشی سے کون آتا ہے۔ظاہر ہے بیماری اور اسپتال کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لئے ظاہر ہے کوئی بیماری ہی اسپتال میں آنے کا سبب ہے۔اس لئے سوچا کہ اپنےمرض اور اس کی تفصیل اور تجربہ میں، اپنے بہی خواہوں کو بھی کیوں نہ شریک کرلوں۔ اس لئے صبح اسپتال آتے ہوئے،میں اپنا لیپ ٹاپ بھی ساتھ ہی لےآیا تھا تاکہ وقت گزارنا مشکل نہ ہو۔وقت بھی گزر جائے گا اور ایک تخلیق بھی منصہ شہود پرآجائے گی۔اس لئے یہ مضمون میں اسپتال کی انتظار گاہ میں بیٹھے لکھ رہا ہوں۔
اسپتال میں آمد کی شان نزول دراصل میرے بائیں ہاتھ کی انڈکس فنگر جو گینگرین کی وجہ سے بے جان ہوچکی ہے ڈاکٹرز نے اسے کاٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ نومبر 2022کی بات ہے۔میری بائیں ہاتھ کی انڈکس فنگر کے پہلے پورے میں ہلکی ہلکی درد شروع ہوگئی۔پہلے چند روز تو میں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔جب یہ درد جاری رہا۔تو میں نے اپنے ڈیالیسز کے دوران ڈیوٹی پر موجود نرس کو اس کے بارے میں بتایا۔نرس نے ڈیالیسز ڈاکٹر کو اس کے بارے میں بتایا۔جس پر میری انگلی کی تصاویر لی گئیں۔ڈاکٹر نے بتایا یہ تکلیف آپ کے ڈیالیسز کی وجہ سے ہے۔آپ کی خون کی سپلائی مناسب طریق پر نہیں ہورہی ہے۔
اس کے بعد مجھے ایک سرجن صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا۔اس نے بھی یہی بتایا کہ یہ ڈیالیسز کی وجہ سے ہے۔ایک ماہ کے بعد دوبارہ اسی سرجن کے پاس حاضر ہوا ۔اس نے ایک نیا انکشاف کیا،کہ یہ مسئلہ ڈیالیسز کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ آپ کے ڈیالسز بالکل نارمل ہورہے ہیں۔اس لئے ممکن ہے کہ یہ مسئلہ شوگر یا کسی اور چوٹ کی وجہ سے ہو۔
انگلی کی ھیئت میں تغیرات
شروع میں انگلی کا رنگ نارمل ہی تھا بعد میں اس کا رنگ سرخ ہونا شروع ہوگیا۔پھر آہستہ آستہ نیلا اور پھر کالا ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ حصہ بے جان ہوگیا۔ جبکہ اس کے اندونی حصہ میں درد رہتی تھی۔یہ درد کبھی کم اور کبھی شدت اختیار کرجاتی تھی۔
درد کی ادویات کے بداثرات
ڈاکٹر نے بتایا۔ابھی آپ گھر چلے جائیں۔اگر درد زیادہ ہو تو آپ ایمرجینسی میں چلے جائیں۔دو دفعہ درد کی شدت کے پیش نظر ایمرجینسی میں گیا۔ڈاکٹرز نے درد کے لئے کچھ دیگر ادویات دیں۔جنہوں نے آرام کی بجائے ڈیپریشن پیدا کردیا۔جس کے بعد میں نے پیراسٹامول پر ہی اکتفا کرنا شروع کیا۔ڈاکٹرز نے بتایا کہ درد سے آرام کے لئے سب سے کم نقصان دہ دوائی پیراسٹامول ہی ہے۔میں نے بلا مبالغہ ان پانچ ماہ میں تین سو سے زائد گولیاں پیرا سٹامول کی کھائی ہیں۔
شعبہ صحت کی کارکردگی
انگلستان میں طبی سہولتیں تو بہت ہیں۔مفت بھی ہیں۔لیکن ان کے حصول کے لئے بعض اوقات بہت بڑی قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔کیونکہ بسااوقات فوری علاج میسر نہیں ہوتا۔بعض اوقات ڈاکٹر سے ملنے کے لئے کئی کئی ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔جس کےدوران بیماری سنگین ہوجاتی ہے۔میرے ایک دوست نے بتایا کہ ان کے بھائی کی پاؤں کی ایک انگلی خراب ہوگئی تھی۔اداروں کی سستی کی وجہ سے اسے پورےپاؤں سے محروم کردیا گیا۔
میری بیماری کا آغاز نومبر میں ہوا۔دو ماہ تو اس کی تشخیص میں لگ گئے۔بعد ازاں تین دفعہ تاریخ دی گئی اور ہر بار بغیر مجھے بتائے ، اسے کینسل کردیا گیا۔جو خاصی پریشانی کا سبب بنا۔
سرجری اور اس کی تیاری
مجھے گذشتہ ہفتہ خط ملا ہے کہ چار اپریل کو میری انگلی کی سرجری ہوگی۔اس کے لئے کچھ ہدایات دی گئی تھیں۔جس میں وقت،تاریخ اور جگہ کا ذکر تھا۔بعض ادویات چند روز قبل نہ لینے کی ہدایت تھی۔
آج چار اپریل ہے۔آج میری سرجری طے پائی ہے۔اللہ کرے سب خیر خیریت سے ہوجائے۔
اسپتال میں آمد
اسپتال میں آمد کا وقت صبح ساڑھے سات بجے تھا۔عزیزم تصور خورشید کے ساتھ احتیاطا ًقبل ازوقت ہی پہنچ گیا۔اسپتال میں مقررہ جگہ پہنچے۔متعلقہ شعبہ ابھی تک نہیں کھلا تھا۔اس لئے باہر ہی رکنا پڑا۔سردی بھی تھی اور ابررحمت کی رم جھم جاری وساری تھی۔اس لئے مرتا کیا نہ کرتا ۔باہر ہی انتظار کرنا پڑا۔اللہ اللہ کرکے سات بج کر دس منٹ پر متعلقہ شعبہ کا دروازہ کھلا۔جلدی سے اندر آیا اور ریسیپشن کے سامنے پہنچ گیا۔تاکہ سب سے پہلے میری باری آجائے۔ایک نرس نے بتایا کہ مسٹر آرام سے بیٹھ جائیں۔آپ کو ساڑھے سات بجے کے بعد بلایا جائے گا۔خیر بددلی کے ساتھ کرسی پر جا بیٹھا۔اس دوران کافی اور لوگ بھی ہال میں پہنچ چکے تھے۔اب مجھے خطرہ یہی تھا کہ جب اندر جانے کے لئے بلایا جائے گا ممکن ہے لائن میں مجھے جگہ دور ملے تو پھر میری باری میں تاخیر نہ ہوجائے۔
پورے وقت پر ایک نرس ایک ٹرالی کے ساتھ ریسیپشن روم سے باہر آئی۔اس کی ٹرالی پر بخار چیک کرنے کے آلات کے علاوہ پانی بھرے گلاس بھی تھے۔اس نے اعلان کیا۔میں یہاں پر اپنی فہرست کے مطابق نام لوں گی۔پلیز اپنا نام سننے پر میرے پاس آئیں۔حسب ارشاد سب لوگ باری باری اس کے پاس پہنچے۔سب کو پانی پیش کیا گیا اور بخار چیک گیا گیا اور پھر اندر جانے کی اجازت دےدی گئی۔
بد تمیز نرس
اسپتال کا عملہ عام طور پر بہت خوش دلی سے پیش آتا ہے۔جس طرح ایک ہی ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔اسی طرح لوگ بھی مزاجا ًمختلف ہوتے ہیں۔جہاں پھول وہاں کانٹا۔صبح جب میں اسپتال پہنچا تو سب کارکنان بڑی ہی خوشدلی سے پیش آئے ۔آخر میں ایک نرس جس کا تعلق انڈیا سے تھا۔میرے پاس آئی اور کہنے لگی ۔میرے ساتھ تھیٹر روم میں چلو۔اس کا انداز تخاطب خاصا درشت اور حاکمانہ تھا۔بعض اوقات ہمارے اپنے بر صغیری لوگ اپنی احساس کمتری کے پیش نظر اپنے ہی بھائی بندوں کی وضع قطع کی وجہ سے انہیں دوسرے درجہ کا شہری سمجھتے ہیں۔جو ان کی بات چیت اور عمل سے مترشح ہوتا ہے۔اس محترمہ کے رویہ پر مجھے بھی غصہ آگیا۔میں نے بھی اس کی بیماری کے مطابق کونین کی ایک گولی کھلا دی۔جس پر اس نے معذرت کی۔
نرس اورڈاکٹر سے ملاقات
ابتدا میں ایک نرس سے ملاقات ہوئی۔اس نے سرجری کےپروسیجر کے بارے میں بتایا۔بلڈ پریشرا ور شوگر چیک کی۔میرے سامان کے لئے ایک لاکر دیا۔مجھے پہننے کے لئے ایک گاؤن دیا گیا اور مجھے انتظار گاہ میں بیٹھنے کے لئے کہا گیا۔خاکسار کافی پریشانی میں بیٹھا رہا۔ کہتے ہیں۔الانتظار اشد من الموت۔
سرجری سے قبل سرجن صاحب سے ملاقات ہوئی۔جس میں اس نے انگلی کا جائزہ لیا۔کچھ تفصیلات بتائیں۔سرجری کے نتیجہ میں پیدا ہوے والی چند پیچیدگیوں کے بارے میں بتایا۔جن میں خوف کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔بعدازا ں کچھ کاغذات پر دستخط کئے گئے۔
سرجری آغاز سے اختتام تک
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو۔
سرجری کے لئے اپریشن تھیٹر میں نو بجے پینتالیس منٹ پر لے جایا گیا۔ابتدائی تیاری کی گئی۔پورے ہاتھ کو صابن سے دھویا گیا۔اینٹی سیپٹک سے دوبارہ دھویا گیا۔پھر بدن کو سُن کرنے والے چند ٹیکے انگلی کے صحت مند اور قریبی حصہ پر لگائے گئے۔میرے اور اوپر ایک چادر ڈال دی گئی۔جس کی وجہ سے میں اپنا ہاتھ نہیں دیکھ سکتا تھا۔بہر تقریبا ًدس منٹ کے بعد مجھے ایک الیکٹرک مشین کے چلنے کی آواز آئی۔اس کے بعد تقریبا دس منٹ بعد ڈاکٹر نے کہا۔کیا آپ اپنا ہاتھ دیکھنا پسند کریں گے۔میرے اثبات پرڈاکٹر نے مجھے میرا موجودہ ہاتھ دکھادیا۔جو خداتعالی کے عطا کردہ ہاتھ سے بہت مختلف ہوگیا تھا۔سوائے الحمد للہ کے انسان کر بھی سکتا ہےْ۔یہ سرجری کا عمل صرف پندرہ سے بیس منٹ کا تھا۔ اس سارے عمل کے دوران کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی پیدا نہیں ہوئی۔میں بعض سٹاف ممبران کے ساتھ گپ شپ بھی لگاتا رہا۔
سرجری مکمل ہونے پر واپس انتظار گاہ میں لایا گیا۔جہاں چائے اور بسکٹس سے تواضع کی گئی۔جس کے بعد گھر جانے کے اسپتال کا اجازت نامہ تھما دیا گیا۔جس کے بعد میں عزیز ناصراحمد کے ہمراہ گھر آگیا۔۔الحمد للہ
بہن کی جدائی میں اداس بہنیں
میری انگلی کو متعلقہ ٹیم نے میرے جسم سے کاٹ کر پھینک دیا۔یہ عمل ایسے وقت میں کیا گیا۔جب میرے ہاتھ کی دوسری انگلیوں کو بے ہوش کردیا گیا۔جب انہیں ہوش آئے گا تو پھر انہیں اپنی بہن کی گمشدگی کا علم ہوگا۔ ان کے دکھ اور غم کا اندازہ اور کون کرسکتا ہے۔ خدا تعالی کی اس عطا کردہ نعمت کا بدل کہاں ممکن ہے۔
.

تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
• میری انگلی جو کہ میرے بدن کا عام سا حصہ تھا۔اس کی قدرو قیمت کا جواحساس اس کے چلے جانے سے ہوا۔وہ تو زندگی بھر کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔اس انگلی کے میرے جسم وجان پر اس قدر احسانات تھے۔
• کہتے ہیں۔اگر ایک بنڈل میں موجود ایک لاکھ میں سے ایک کم کردیا جائے تو پھر ہم اس کو لاکھ نہیں کہہ سکتے۔ اس انگلی کے جانے سے میرا جسم نامکمل ہو گیا ہے۔احسن الخالقین کی تخلیق میں داغ آگیا۔
• میری یہ انگلی سارے جسم کی صفائی اپنی باقی بہنوں کے ساتھ مل کر کیاکرتی تھی۔
• میرے جسم کے کسی حصہ کو تکلیف یا دکھ پہنچتا تو یہ اس حصہ کی دیکھ بھال کے لئے فوری حاضر ہوجاتی۔
• جب بھی اللہ تعالی کے حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھتے تو باقی بہنوں کے ساتھ یہ بھی طلب اور عجز وانکسار کا استعارہ بن جاتی تھی۔
• جسم کے کسی بھی عضو پر کوئی بیرونی حملہ ہوتا تو یہ انگلی باقی بہنوں کے ساتھ مل کر اس حملہ کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن جاتی تھی۔ہر آنے والے حملہ کو اپنے سینہ پر برداشت تی تھی۔
• الغرض جو بھی ہمارےخدا نے پیدا کیا ہے۔ وہ یکتا اور بےمثل ہے۔اس قدر پیچیدہ نظام ہے۔انسانی عقل تو اس کے حقیقی ادراک میں بالکل بے بس ہے۔
• الغرض جانے والی انگلی میرے جسم کا ایک قیمتی حصہ تھا ہمیشہ اپنی کمی کا احساس دلاتا رہے گا۔
• یہ حقیقت ہے۔ہم اللہ تعالی کی کس کس نعمت کا شکر ادا کرسکتے ہیں۔نا ممکن۔
ایک انگلی کی قیمت
ایک ہٹے کٹےفقیر نے ایک آدمی سے خدا کے نام پر کچھ طلب کیا۔اس آدمی نے فقیر کو کہا ۔تم کیوں مانگتے ہو۔فقیر نے کہا میں بہت غریب ہوں۔میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔اس آدمی نے کہاْ۔تم غریب نہیں ہو ۔مجھے علم ہے کہ تم بہت امیر ہو۔فقیر نے کہا۔بخدا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہےْ۔اس آدمی نے کہا۔فلاں جگہ پر ایک شخص انسانی اعضاء خریدتا ہے۔اگر تم اپنا ایک ہاتھ اسے دے دو تو وہ تمہیں اس کے عوض پانچ لاکھ دے دے گا۔ففیر نے کہا۔کیسی بات کرتے ہو مجھے کوئی بیس لاکھ بھی دے تو میں پھر بھی اپنا ہاتھ نہیں دوں گا۔اس نے کہا چلو ہاتھ نہیں تو ایک ٹانگ ہی دے دو تو تمہیں ایک بڑی رقم مل جائے گی۔فقیر نے کہا۔مجھے خواہ کوئی جتنی بھی رقم دے میں پھر بھی نہ اپنی ٹانگ نہیں دونگا۔اس آدمی نے کہا ۔اس طرح توتمہارے اعضاء کی قیمت ہی لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں پر بھی بھاری ہے۔پھر مجھے بتاؤ تم کس طرح غریب ہو۔اللہ کا شکرادا کیا کرواور اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کے جائز استعمال سے رزق حلال کمایا کرو۔
اختتامیہ
اللہ تعالی نے انسان کولا محدود نعمتوں سے مالا مال کیا ہوا۔لیکن ہم بسا اوقات ان کے بر محل استعمال نہ کرنے سے ان کی افادیت اور مقصدیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ہماری ہر بیماری قرآنی تعلیم میں بیان کردہ نظام میزان کی کمی و بیشی سے جنم لیتی ہے۔گنگرین جیسی امراض ،زیادہ تر شوگر کے کنٹرول میں نہ ہونے کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کی روحانی اور جسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھے۔آمین
دل کی اس آواز کو یہیں پر ہی ختم کرتا ہوں۔شاید یہ چند سطور کسی بہن بھائی کے لئےسبق اور چشم کشا ہوں۔
ضرب المثل ہے۔کہتے ہیں دوسروں کی غلطیوں سے عبرت حاصل کرو ،ورنہ کل لوگ تمہاری غلطی سے عبرت حاصل کریں گے۔

 

Munawar khurshid
About the Author: Munawar khurshid Read More Articles by Munawar khurshid: 47 Articles with 52955 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.