"ماہ صیام اور ہماری ذمےداریاں"

ماہ صیام کا اصل مقصد ضبط نفس ہے۔ اس مہینے میں مادی اور روحانی سطح پر فرد اپنا جائزہ لے۔ نیکی کی دوڑ میں سبقت اور بدی سے اجتناب کرنے کو زندگی کا مقصد بنائے۔ رب العالمین کی حلال کردہ نعمتوں کا شکر اس کی عبادت اور اس کے وضع کردہ احکامات کے تابع ہوکر لائے۔
اس ماہ کا پیغام یہ بھی ہے کہ انسان ہر وقت اپنے رب کا غلام ہے اور کوئی لمحہ اگر اس کا اپنے رب کی نافرمانی میں گزرے تو فوراً توبہ کرلے۔ اس سے قبل کہ اس کو اپنے اعمال کا جواب رب العالمین کی بارگاہ میں دینا پڑے۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بنی آدم کا ہر عمل اسی کے لئے ہے سوائے روزہ کے۔ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ اور روزہ ڈھال ہے اور جس روز تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر اسے (روزہ دار کو) کوئی گالی دے یا لڑے تو یہ وہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ عزوجل کو مشک سے زیادہ پیاری ہے۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، جن سے اسے فرحت ہوتی ہے : ایک (فرحتِ افطار) جب وہ روزہ افطار کرتا ہے، اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کے باعث خوش ہو گا۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس ماہ رمضان آیا۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اس (مہینہ) میں اﷲ تعالیٰ کی ایک ایسی رات (بھی) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس کے ثواب سے محروم ہوگیا سو وہ محروم ہو گیا۔

’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے پروردگار! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہش پوری کرنے سے باز رکھا۔ قرآن پاک کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے باز رکھا تو آپ میری اس کے لیے شفاعت قبول فرمالیجئے چنانچہ دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘(مسند احمد)۔

قران حکیم میں رب العالمین کچھ یوں فرماتا ہے :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ ○

ترجمہ :شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے (القدر، 97 : 3)

شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡهُدٰى وَالۡفُرۡقَانِۚ فَمَنۡ شَهِدَ مِنۡكُمُ الشَّهۡرَ فَلۡيَـصُمۡهُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ يُرِيۡدُ اللّٰهُ بِکُمُ الۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ وَلِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ وَلَعَلَّکُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ ○

ترجمہ: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتااس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سر فراز کیا ہے ، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘(البقرہ185)۔

قارئین مندرجہ بالا آیات و احادیث یہ ثابت کرتی ہیں کے روزہ انسان کیلئے رب کریم عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔اس کے اجر کا وعدہ رب العالمین نے کیا ہے۔ اس کی برکت کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو آگاہ کیا ہے۔

جہاں دیگر عبادات انسان کو "ضبط نفس" کا مزاج بنانے میں کردار ادا کرتی ہیں وہیں روزہ مکمل طور پر انسان کو "نفس سے آزادی دے کر اللہ کا غلام بنانے میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ جائزہ لیا جائے تو تمام جائز خواہشات تک کو روزہ ایک مخصوص وقت تک کیلئے پورا کرنے سے روک دیتا ہے۔ کھانا پینا اور دیگر حلال چیزیں ایک مخصوص وقت کیلئے منع کردینا اس بات پر ضلالت کرتا ہے کہ رب کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی در اصل "دین حق" ہے۔ اس عبادت کا حصول یہ ہے کہ انسان اپے رب کا فرمانبردار کچھ اس طرح بنے کے جب جس چیز کا حکم اس کو دیا جائے تو بلا چوں چراں وہ حکم بجا لائے۔ اس عبادت کی روح اس شکل میں انسان کو حاصل ہوتی ہے کہ وہ نفسانی تمام تر خواہشات سے آزاد ہوجاتا ہے۔ گر یہ معلوم کرنا مقصود ہو کہ "روزہ" زندگی میں کچھ تبدیلی لایا یا نہیں ؟ اس بات کا جواب رمضان کے بعد اپنی زندگی پر نظر دوڑا کر دیکھیئے گا اگر آپ واقعتا اپنے نفس کے غلام ہیں تو تبدیلی نہیں آسکی ہے اس کے برعکس اگر آپ میں اپنے نفس کیخلاف ایک جنگ کا ماحول ہے تو سمجھیں کے اسکی روح آپ کو مل گئ ہے۔

رمضان میں جہاں دن میں روزہ رکھا جاتا ہے تو دوسری طرف رات میں تراویح کی صورت میں قرآن کو سنا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس عبادت کا اجتماعی پہلو یہ ہے کہ دن میں افراد جب روزہ سے ہوں تو نیکی و تقوی کی فضا معاشرے میں قائم ہو اور جب رات میں تراویح کا اہتمام معاشرتی سطح پر ہو تو پورے دن میں کی جانے والی نیکیاں ایک تسلسل کے ساتھ بغیر کسی تعطل کے پورے دن ہی جاری رہیں۔ روزہ ایک ایسی بھوک کی کیفیت کو جنم دیتا ہے جس سے غریب روز گزرتا ہے ایک امیر کی کیفیت بھی ویسے ہی ہوتی ہے جب وہ روزہ سے ہوتا ہے۔اس سے "دین"امیر کو غریب کے احساس کرنے کا پیغام دیتا ہے اور یہ ترغیب بھی دیتا ہے کہ ہر حال میں رب کا شکر ادا کرنے میں انسان کی فلاح ہے۔

اس مہینے میں تمام دنیاوی معاملات کو ایک طرف رکھ کر اپنا زیادہ تر وقت عبادات،ذکر واذکار، تلاوت قرآن پاک اور قرآن کے پیغام کو سمجھنے میں صرف کرنا چاہئیے( ماسوائے زندگی کے ضروری معاملات کہ)۔ اس مہینے میں نفل نماز کا اجر سنت نماز کے برابر اور سنت نماز کا اجر فرض کے برابر جبکہ فرض نماز کا اجر 70 گنا بڑھادیا جاتا ہے۔ ایک ایسی رات اسی مہینے میں موجود ہے جسکا ذکر اوپر قرآن کی ایک آیت میں کیا گیا ہے۔

مگر بدقسمتی سے رجحانات اب مختلف ہیں۔ انواع قسم کے لوازمات کی تیاری نے خواتین کی مصروفیات کو اس حد تک بڑھادیا ہے کہ روزہ افطار کرنے سے قبل دعا کی مقبولیت کے قیمتی لمحات کو باورچی خانے کی نظر کردیا ہے۔ قناعت، صبر اور شکر جیسی کیفیات کو جنم دینے کا مہینہ رمضان ہے اسکے برعکس ایک ڈاکٹر کے مطابق (گیسٹرو کے مریضوں کی تعداد اسپتال میں اس مہینے میں بڑھ جاتی ہے) رمضان کے آخری ایام کہ جن میں دوزخ سے خلاصی کہ پروانے جاری ہوتے ہیں ان دنوں میں بازار عوام سے بھرے پڑے ہوتے ہیں اور ان قیمتی گھڑیوں کو دنیا کی حقیر مال و متاع حاصل کرنے میں لگایا جاتا ہے۔ اس رمضان " کورونا وائرس" کے باعث گھر میں رہنے کا وقت زیادہ ملا ہے تو اسکو اللہ اور اسکے رسول کے پیغام کو سمجھنے میں صرف کریں۔

دین اسلام میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ یہ اس بات کا انسان کو پیغام دیتا ہے کہ تہوار اور خوشی کی مواقع تمکو رب سے مزید قریب کرنے کیلیئے ہیں نہ کہ دنیا کی رنگینیوں میں کھو جانے کیلیئے۔ یہ رمضان اس طرح گزاریں کہ یہ آپکا آخری رمضان ہے اور تصور یہ کریں کہ ایک گھڑی بھی ضائع کرنا نیکیوں میں روز محشر کمی کا سبب بن جائیگا کیونکہ جو موقع ہاتھ سے نکل جائے اسکی واپسی ممکن نہیں اگر کوئ موقع رب کی رضا کے بغیر چلا گیا تو اسکا ازالہ کیسا ممکن ہوگا ؟

اللہ ہمیں اور آپکو اس رمضان کو اسکے حق کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
متلاشی حق

 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.