عورت کا اپنے لیے جینا جرم کیوں؟

مطلقہ خواتین سے نکاح کرنا ایک پاکیزہ فعل ہے نکاح کے ذریعے نسب بھی پاکیزہ اور محفوظ رہتے ہیں اسی لئے اسلام نے اسے نیکی کا درجہ عطا کیا ہے اسلام میں مطلقہ ہونا کوئی عیب نہیں اور نہ ہی مطلقہ سے نکاح کرنا کوئی معیوب بات ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیرالمومنین حضرت زینب سے نکاح فرمایا اور اللہ تعالی نے اس نکاح کرانے کو اپنی طرف منسوب فرمایا واضح رہے طلاق یافتہ یا خلع یافتہ خاتون کو معیوب سمجھنا ہندوانہ سماج کی ناپسندیدہ رسم ہے لہٰذا اسلام میں کسی مطلقہ عورت کا دوسری شادی کرنا کوئی معیوب بات نہیں ایسی خواتین کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہیے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقہ اور بیوہ سے نکاح کرکے اس نظریے کو جڑ سے ختم کردیا کہ عورت کے لیے متعلقہ ہونا کوئی عیب کی بات ہے
شریعت کے مطابق ایسی خواتین کو دوسری شادی ضرور کرنی چاہیے بیوہ طلاق یافتہ یا فلاح یافتہ خواتین سے شادی کرنا زیادہ افضل ہے کیونکہ یہ عورت کا تحفظ ہے اور ایسی خواتین کو معیوب سمجھنا ہمارے معاشرے کی نحوست ہے۔کسی بھی عورت کے لیے دوسری شادی کر کے اپنی زندگی کا نیا آغاز کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے۔ لیکن جب بھی کوئی عورت دوسری شادی کرتی ہے اور زندگی کو پھر سے جینے کی کوشش کرتی ہے تو ہمارے معاشرے کا دوہرا معیار نظر آتا ہے۔
بے شک آپ اپنی زندگی میں خوش ہوں، آپ کامیاب ہیں، آپ بہت سی ایسی چیزیں کر رہی ہیں جو دوسرے نہیں کر پاتے لیکن معاشرہ آپ کو بار بار یہ بات یاد کراتا ہے تو آپ خود بھی محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شاید مجھ میں کوئی رہ گئی ہے اور لوگ یہی چاہتے ہیں کہ آپ اس کمی کو محسوس کریں لوگ آپ پر ترس کھاتے ہیں کہ آپ کو طلاق ہو گئی زیادہ تر خواتین طلاق کے بعد سمجھتی ہیں کہ اب بس سب ختم ہو گیا لیکن ایسا نہیں ہےناکام شادی کا مطلب ناکام زندگی نہیں بلکہ زندگی کے پاس آپ کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، آپ کو صرف اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔عورت کو چاہیے کے وہ خود اپنی حوصلے افزائی کریں
ایسی ہی کچھ باہمت خواتین سے کچھ سوالات کیے جو اپنی زندگی کو پھرسےجینے کی جستجو میں مصروف عمل ہیں


طلاق کے بعد خود کو کیسے سنبھالا؟
کیسے معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑا؟
شادی شدہ زندگی میں وہ مقام کب آیا جب آپ نے فیصلہ کیا بس اب بہت ہوگیا اس سے زیادہ اور نہیں؟
کن رشتوں نے سہارا دیا کس نے چھوڑ دیا؟
پہلے اور موجودہ زندگی میں کونسی زیادہ بہترلگی؟
اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوا کبھی؟
وہ کون سےمسائل ہوتے ہیں جو کسی عورت کو یہ کرنے سے روکتے ہیں؟
بچوں پر کیا اثرارت مرتب ہوۓ مثبت یا منفی؟
ہمارا معاشرہ عورت کی دوسری شادی کو معیوب کیوں سمجھتا ہے جبکہ اسلام میں اسکی کوٸی ممانت نہیں؟
کیا ایک خاتون کی کامیابی کے لیے اس کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے، غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ خواتین کو کس قسم کے معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کیا سنگل خواتین خود کو کامیاب سمجھتی ہیں یا نہیں؟

کم عمری میں زندگی کے اس تلخ تجزبے سے گزرنے والی ماہر نفسیات علینہ ارشد کہتی ہیں کبھی بھی خاتون یہ اسٹیپ نہیں لیتی اسے یہ اسٹیپ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ خاموش ہو جاتی ہے کبھی کسی کی وجہ سے اور کبھی کسی کی وجہ سے لیکن اگر وہ اسٹیپ لیتی ہے تو اس کے پیچھے بہت ساری موٹیویشن چاہیے ہوتی ہے کیونکہ مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے اگر وہ یہ فیصلہ کرے تو کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کرے گی اگر اتنی ہمت جوڑتی ہے تو مجھے چاہیے ہمارے معاشرے کو چاہیے کہ ہم اس خاتون کو سپورٹ کریں تاکہ وہ آنے والے وقت میں ایک بہتر مستقبل اور بہترین قوم کو تشکیل دے سکے
ہماری آج کی عورت ہے اس کو لگتا ہے وہ ہر کام کر سکتی ہے اور بلاشبہ عورت جو ہے وہ مضبوط ہوتی ہے لیکن ہماری یہ جو سوسائٹی ہے ہمارا جو معاشرہ ہے وہ میل ڈومینیٹ معاشرہ ہے مرد کا معاشرہ ہے تو اس معاشرے میں عورت کو اپنا مقام ڈھونڈنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اگر ایک عورت اپنے لئے کچھ کر رہی ہوتی ہے تو اس مردوں کے معاشرے میں ہمیں لگتا ہے کہ نہیں عورت تو کمزور ہے وہ اتنی بہادر کیسے ہو گئی ہے تو پھر اس سے یہ پورا معاشرہ مل کر اس کو خراب کرنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے دوسری چیز یہ کہ مردوں کی سوسائٹی ایک الگ چیز ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے تو عورت کی دوسری عورت کا جینا زیادہ حرام کرتی ہے پھر چاہے وہ بحثیت نند ہو ساس ہو یا لیڈی باس کسی کمپنی میں
آپ کی کولیگ ہو یا کچھ بھی ہو ہم کیا کرتے ہیں ہمیشہ کمپیریسن میں کے ایک دوسرے کو نیچا کرنے کے لیے ایک دوسرے کا جینا حرام کر رہے ہوتے ہیں
ہمارے معاشرے میں ہم نے طلاق اور خلع ایسا موضوع بنایا گیا ہے کہ جس پر طلاق یافتہ خلع یافتہ لڑکیاں بات بھی نہیں کرنا چاہتی ہو مجھے لگتا ہے زندگی اتنی مشکل نہیں ہےجو ہم نے بنادی ہے اگر آپ اسلام کے دور کی بات کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی بات کریں تو آپ نے کہا کہ اگر تم لوگوں کی نہیں نبھ رہی تو آپ لوگ آپس میں بات چیت کر کر الگ راستہ اختیار کر سکتے ہیں لیکن اگر کرنٹ معاشرے کی بات کریں اور اگر ہم اس سے سوچنا بھی شروع کر دیں تو ہماری سوسائٹی اتنا پریشر ہوتا ہے کہ آدھی سے زیادہ لڑکیاں اس دباو میں آکر اپنے شوہر کو نہیں چھوڑ پاتی کہ اسکے بعد ان کی زندگی کا وجود نہیں رہے گا لوگ ہمیں تنقیدی نگاہ سے دیکھیں گے اور پھر جانے زندگی اس کے بعد ختم ہو جائے گی جبکہ ایسا نہیں ہوتا
معاشرتی رویۓ بہت تکیلف دیتے ہیں جیسے مثال کے طور پر اکثر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا افسوسناک تمہیں طلاق ہوگئی ہے تمہاری عمر ہی کم ہے تم نے تو ابھی دیکھا ہی کیا ہے تمہاری زندگی میں بہت بڑی ہے اتنا لمبا سفر ہے تمہاری شادی کیسے ہوگی کون تم سے شادی کرے گا یہ بہت سے سوالات تھے جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ جانے خلع لیکر مجھ سے کونسا گناہ ہوگیا کس جرم کی میں سزا کاٹ رہی ہوں جہاں تک شادی شدہ کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ جب آپ کسی کے ساتھ اپنے اوقات شیئر کرتے ہیں تو آپ کو اس شخص کی زندگی کا پتہ چلتا ہے اور میری زندگی میں کیوں کہ وہ مقام بہت کم عرصے کے لیے آیا ساتھ وقت صرف نہیں کیا لیکن پھر بھی کچھ باتوں سے مجھے پتہ لگنا شروع ہو گیا اور جب باتیں عزت نفس سے دور چلی گئی کہ اس شخص نے میری عزت گھر والوں کی عزت اور توقیر کو جو ہے وہ پیچھے رکھنا شروع کر دیا تو پھر مجھے لگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ راستوں کو الگ کر لینا چاہیے والدین نے سہارا دیا میری فیملی نے بہت سہارا دیا الحمدللہ چھوڑا کسی نے بھی نہیں کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ کیا ہوا ہے اور کس طرح ہوا ہے اور کس کی غلطی تھی چھوڑا کسی نے بھی نہیں سب نے سپورٹ ہی کیا پہلے اور موجودہ کی زندگی میں مجھے اب کی زندگی زیادہ بہتر لگتی ہے کیونکہ میں نے حالات سے گھبرا کر ڈپریشن میں جانے والی فیز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ایک وقت آیا تھا کچھ عرصے کے لئے یہ لیکن اللہ نے ہمت بھی حوصلہ دیا کہ اس سے نکلنے کی کوشش کی اور الحمدللہ آج میں نے خود پر کام کرنا شروع کیا ہے اپنی خود کی گرومنگ پر کام کرنا شروع کیا ہے اور پرسنلی بھی اور پروفشنلی بھی اور پھر اللہ کے کرم سے اس کو زیادہ کرتی جا رہی ہوں اور زندگی میں مجھے لگ رہا ہے کہ اللہ آپ سے کوئی ایک چیز لیتا ہے تو اس کے بدلے میں آپ کو کوئی بہتر چیز دیتا ہے تو وہ یہی بہتر چیز ہے جو اب اللہ پاک نے جو ہے وہ مجھے دی ہے اس کے بدلے میں مجھے اتنی کامیابیاں دی ہے کہ اس کا شکر ادا نہیں کرسکتی

نہیں مجھے اپنے فیصلے پر پچھتاوا کبھی بھی نہیں ہوا اور نہ ہی میں کبھی پجھتاونگی اس فیصلے پر اور نہ ہی ان شاء اللہ تعالی ایسا موڑ آئیگا کہ مجھے اس پر پچھتانا پڑے گا بہت سے مسائل ہیں جو خاتون کویہ فیصلہ لینے سے روکتے ہیں جس میں سب سے پہلے ہماری سوسائٹی کا پریشر ہے والدین کا پریشر بھی ہوتا ہے خاص طور پر جب بچے ہوں تو بچوں کا پریشر بہت ہوتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا ان کے مستقبل کا کیا ہوگا
والدین کو لیکر انسان سوچتا ہے کہ والدین نے اسے مشکل سے بیاہ ہے اور جب یہ سنیں گے تو کیا گزرے گی اور کس طرح سے گزرے گی اور وہ انھیں صدمہ برداشت کر پائیں گے یا نہیں کر پائیں گے میرے اس فیصلے کا میرے چھوٹے بہن بھائیوں کی زندگی پر کیا اثر ہوگا میرے خاندان والے مجھے کیسے سمجھیں گے میرے گھر والوں کو میرے والدین کو کیسے سمجھیں گے تو یہ بہت سے عوامل ہوتے ہیں جو مجھے لگتا ہے کہ ایک خاتون کو اتنا بڑا قدم اٹھانے سے روکنے پر مجبور کرتے ہیں
ہمارے معاشرے میں دوسری شادی اسلے معیوب سمجھی جاتی ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر تو لڑکی نے خلع لی ہے تو بس پھر وہ بہت ہی کوئی پہنچی ہوئی چیز تھی وہ تو اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھتی تھی کہ اس نے لڑکے کو دبا کے رکھنا چاہا وہفتہ نہیں دبا تو بس پھر اس نے سوچا کہ میں خلع لے لیتی ہوں اور اگر لڑکی کو طلاق ہو جائے تو پھر بھی لڑکی غلط ہوتی ہے یا تو اس کے کردار میں نقصہ نکل آتے ہیں یا اور بہت ساری خامیاں ہیں اور بس ہمیں لگتا ہے کہ ہر حال میں غلطی عورت کی ہوتی ہے کیونکہ عورت جو ہے وہی گھر بنا سکتی ہے اور عورت چاہے تو وہی گھر توڑ سکتی ہے تم بس اس لیے معیوب سمجھا جاتا ہے اور پھر اگر وہ عورت دوسری شادی کرلے تو کہا جاتا ہے اسے تو کرنی دوسری شادی تھی اس کو کوئی اور پسند تھا اس کی وجہ سے اس نے پہلے والے کو چھوڑ دیا پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے اس طرح کی مختلف باتیں مختلف چیزیں جو ہمارے معاشرے میں سننے کو ملتی ہیں
خاتون کی کامیابی کیلئے شادی شدہ ہونا مجھے نہیں لگتا ضروری ہے کہا جاتا ہے مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ عورت کی کامیابی کے پیچھے بھی ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے وہ مرد اس کا بھائی بھی ہو سکتا ہے وہ مرد اس کا شوہر بھی ہو سکتا ہے اور وہ مرد اس کا باپ بھی ہو سکتا ہے آپسی معاملات باہمی تعلقات سے اچھے ہوں گے آپ ایک دوسرے کو سمجھنے والے ہوں گے اور آپ ایک عورت کے ٹیلنٹ کو سمجھیں گے اور آپ کو پتہ ہوگا کہ اس عورت میں یہ ٹیلنٹ ہے اور آپ اس کو تھوڑا سا پالش کریں تو دنیا کی ہر بڑی سے بڑی طاقت سے جوہے بڑی سے بڑی چیز سے لڑجائے گی تو پھر آپ اس کو سپورٹ بھی کرتے ہیں اور پھر آپ اس طرح جاتے بھی ہیں اور پھر آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سی ایسی عورتیں جن کا آپ نے سنا ہو گا کہ وہ جو ہے کیا انہوں نے نام بنایا اپنا

اکیلی عورت جو ہے وہ کامیاب سمجھتی ہے اور وہ کوشش کرتی ہے جو جہد کرتی ہے دیکھیں ہمارے ہاں ٹرینڈ بن گیا ہوا ہے کہ اب جو خواتین سنگل ہیں اور وہ جو اتنے ایکسپیرینس برے حادثات بری چیزیں دیکھتے ہیں تو پھر وہ سجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم شادی نہ ہی کریں تو بہتر ہے
بطور ماہر نفسيات میں دیکھو تو ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ہے طاقت کے اظہار کا کہ ہمیں لگتا ہے کہ مرد اپنی طاقت کا اظہار جو ہے بہتر کر سکتا ہے عورت کے پاس جو کہ طاقت نہیں ہوتی وہ اتنی مضبوط نہیں ہوتی یا تو تو پھر آپ دیکھئے اگر عورت کے پاس پاورہے تو اس کے سامنے کوئی مرد نہیں ٹک سکتا جہاں پر پاور ہے وہاں پر طاقت ہے اور وہیں پر سارا زور چلتا ہے



ایک بین الاقوامی ادارے میں اعلی عہدے پر فاٸز بشری کہتی ہیں جب بھی کوئی عورت اس طرح کا قدم اٹھاتی ہے تو اس کو بہت زیادہ معاشرتی طور پر اس کو پریشرائز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس طرح کے قدم بھی نہیں اٹھاتی ہے یہ بہت کم مضبوط عورتيں ہوتی ہیں کہ جو اس طرح قدم اٹھاتی ہیں
مجھے سنبھلنا آسان تھا کیونکہ میں ایک مضبوط عورت تھی جوب کر رہی تھی اور مجھے فائنینشل اس طرح کے مسائل نہیں تھے کہ مجھے دوسروں سے مانگنا پڑتا یا مجھے گھر کے اندر بالکل قید ہو کر بیٹھنا پڑتا اور اپنے ارد گرد لوگوں کے سوالوں کے جوابات دینے پڑتے ہیں میں ایک انڈپینڈینٹ لائف گزار رہی تھی اس لے میرے لیے اتنی زیادہ مشکلات نہیں ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کورٹ کچہری کے بہت زیادہ چکر نہیں لگانے پڑے معاشرتی رویوں کا سامنا اس طرح سے کیا کہ کسی شادی پر یا کسی بھی دیگر تقریبات میں نہیں جاتی تھی ان وائٹ ہوتی تھی لیکن نہیں جاتی تھی میں اپنی آفس کی مصروفیات کا بہانہ کرکے کیونکہ مجھے پتا تھا کہ ہمارے لوگوں کی کیا سوچ ہے اور بہت عرصہ تک تو بتایا ہی نہیں فیملی میں اس لے جب کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ عدت گزار رہی ہوں تو اس لیے کسی نے کوئی بہت زیادہ سوال ہی نہیں کیا اس کے بعد جوب شروع کر دی تو پھر بہت عرصے کے بعد لوگوں کو پتہ چلا اور تب تک میں معاشرتی طور پر بھی معاشی طور پر اپنے آپ کو مستحکم کرچکی تھی اس وجہ سے مجھے بہت زیادہ پرابلم کا سامنا نہیں کرنا پڑا شادی کے تقریبا پانچ سال کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ بس اب اس چیز کو آگے نہیں کرنا چاہیے
چھوٹے شہر سے بڑے شہر میں چلی گٸ وہاں جاکے میں نے جوب شروع کر دی اور اس کے خلع کا پرسیس شروع کیا سہارا کسی بھی رشتے نے نہیں دیا جب دیکھا کہ یہ خود مضبوط ہے تو سب بھی ٹھیک ہو گئے اور ساتھ چھوڑا بھی کسی نے نہیں مجھے اپنا سہارا خود ہی بننا پڑا اب کی زندگی بہت بہتر ہے اور بہت اچھی ہے ماشاء اللہ کبھی بھی بچھتاوا نہیں ہوا اپنے فیصلے پر
مجھے معلوم تھا کہ میری زندگی ایک شادی نہیں بلکہ معاشی خودمختاری بچا سکتی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ شادی یا کسی مرد کا آپ کے ساتھ ہونا آپ کی کامیابی کی ضمانت نہیں۔
میں بہت ساری سنگل خواتین کو جانتی ہوں جو اپنی فیلڈ میں کامیاب ہیں شادی ہونا نہ ہونا ہے یہ کامیابی کی ضمانت نہیں ہے


دین اور دنیا دونوں علم سے سرفراز لیکچرر ام ابرہیم کہتی ہیں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو مثبت بات کرتے ہیں یا مثبت رویے کا اظہار کریں زیادہ تر لوگ منفی باتیں کرتے ہیں طلاق یافتہ خواتین کے اندر ہی خامیاں نکالی جاتی ہیں
میں نے خود خلع لینے کے بجائے فیصلہ اللہ پر چھوڑ رکھا تھا پر وہ خود ہی میری زندگی کا فیصلہ کر دیں اس کا مجھے علم نہیں تھا کیا ہوگا میں نے استخارہ کرکے اپنے دل کو مضبوط کر لیا تھا اور دعاؤں اور نماز سے بہت مدد ملی قرآن بار بار پڑھنے سے
اپنوں اور غیروں کی بہت سی باتیں تبصرے نامناسب جملے سننے کو ملے لیکن میں کیونکہ ذہنی طور پر ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی اور مجھے اتنا بھروسہ تھا اپنی ذات پر کردار پر اعتماد تھا
اسلام چونکہ باپ پر بچے کی ذمہ داری کی کفالت ڈالتا ہے اگر ماں طلاق یا خلع کے بعد بچے کو اپنے پاس رکھے تو اکثر باپ اپنے بچوں کے اخراجات کی کفالت کی رقم دینے میں کنجوسی کرتے ہیں یہ بالکل ہی نہیں بلکہ تاکہ بچہ اپنی ماں کے پاس تکلیف میں رہے اور ماں مجبور ہوکر باپ کے حوالے کردے اکثر لوگ طلاق ہونے کے بعد عورت کو ہی زیادہ ذمہ دار سمجھتے ہیں ان کے خیال میں ہر حال میں کمپرومائز کرنا سمجھوتہ کرنا ہی بہتر ہوتا ہے بچے کے باپ کا کسی دوسری عورت کے ساتھ تعلق کیوں نہ ہو لوگ کہتے ہیں نظر انداز کردو برداشت کر لو بچوں کا باپ کے بچوں کی ماں پر جیسا بھی ذہنی اور جسمانی طور پر ٹارچرکرے اس کو برداشت کرنے کو کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے بچوں کے لیے برداشت کر لوں اس کے بعد سب ٹھیک خصوصاً جب طلاق دینے والا شوہر دوسری شادی کرلی تو لوگ کہتے ہیں اس نے دوسری شادی کر لی وہ تو سکون اور آرام سے زندگی گزاررہا ہے
اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی کتنی غلطی تھی اور کس نے کتنا کچھ برداشت کیا ایسی صورت حال میں قرآن سورہ بقرہ کی آیات اور آیۃ الکرسی کی بعض آیات کا ترجمہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کا ولی اور مددگار و کارساز ہے جو ایمان لائے وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر یا انکار کیا ان کے ولی مددگار ثابت ہوتے ہیں جو ان کو نور سے روشنی سے نکال کر تاریکی اور ظلمت میں لے جاتی ہیں اور وہی لوگ جہنم میں رہنے والے ہیں اور اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے سورہ توبہ کی آیات ہیں میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی پر میں نے بھروسہ کیا عظیم کا رب ہے کے ذہنی اور جسمانی طور پر کے بعد کئی دفعہ فیصلہ کیا اب مزید صبر نہیں کروں گی لیکن بچے کی خاطر صبر و برداشت کر اپنی طرف سے رشتے کو نبھانے کی پوری کوشش کرتی رہی لیکن جب شوہر کا دوسری عورت کو بیوی کی غیر موجودگی میں گھر میں لانے کا پتہ چلا اور دوستوں کے ساتھ غیر ضروری حرکات کرنے کا علم ہوا تو اللہ سے مدد مانگی وہی مستقبل کا فیصلہ کردیں بچے کی بیماری کی وجہ سے فائنل فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی اسی لیے فیصلہ میں نے اللہ پر چھوڑ دیا جب میرے شوہر نے بچے کو مجھ سے چھین کر لے گیا اور تین دن تک الگ رہا بچے کو ماں سے الگ رکھا اور کہا میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں تو میں نے کہا کہ میں تو پھر شکرانے کے نفل ادا کروں گی استخارہ تو میں تین دن سے کر رہی تھی کوئی اچھا فیصلہ ہو جائے تو میری اور میرے بیٹے کی زندگی میں بہتر ہے اللہ سے رشتہ مضبوط تھا اللہ کی یاد میں سب سے بڑا سہارا دیا اور میکے والے ماں باپ بھائی بہن بہت سہارا ہر لحاظ سے سپورٹ کی جذباتی اور مالی لحاظ سے بھی ساتھ دیا بچے کی کسٹڈی کے لے قانونی کارروائی کے لیے قانونی حقوق دلوانے کے لیے ہر طرح کا ساتھ دیا کچھ لوگوں نے باتیں بنائيں لیکن زیادہ تر نے ساتھ دیا الحمدللہ موجودہ زندگی بہت زیادہ بہتر ہے اللہ تعالی کا وعدہ ہے صبر کرو صبر کر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اجر عطا فرماتا ہے صبر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اجر کا وعدہ کرتا ہے کہ دل کو مطمئن کر لیا تھا اور اب بھی دل مطمئن ہے الحمد اللہ بچوں کی کفالت کس کریں کے مسائل زیادہ تر خواتین کو طلاق یا خلع سے کام لینے سے لوگ کہتے ہیں بچے چھوٹے ہوتے ہیں ان کو ماں باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے طلاق یا خلع کی صورت میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ ذہنی اور جسمانی اور جذباتی لحاظ سے بہت متاثر ہوتے ہیں دوسرا بڑا مسئلہ عورتوں کا مالی لحاظ سے کمزور ہونا بھی ہے زیادہ تر خواتین کا ذریعہ معاش کا مسئلہ ہوتا ہے بچوں کے ساتھ نوکری کرنا اور پیسے کمانا اور چھوٹے بچوں کو کسی کی نگرانی یا ڈے کیئر میں دینا بھی ایک مسئلہ ہے زیادہ تر خواتین خود کفیل نہیں ہوتی یا کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی اسی لئے طلاق یا خلع کا فیصلہ نہیں کرتی اور ظلم کی چکی میں پستی رہتی ہیں کچھ خواتین کو میکے سے سپورٹ نہیں مل رہی ہوتی تو وہ بھی آخری حد تک شوہر اور سسرال والوں کا ظلم و ستم برداشت کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ سسرال والے شوہر خود ہی گھر سے نکال دے کچھ خواتین طلاق یا خلع کی صورت میں لوگوں کی باتیں طعنوں اور طنز سہنے کی طاقت نہیں رکھتی اور وہ ان سب باتوں سے بچنے کے لیے شوہر کا ذہنی و جسمانی ٹارچر برداشت کرتی ہیں ہمارے معاشرے میں زیادہ تر ہندوانہ کلچر کا اثر ہے جس میں دوسری شادی کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے دیکھا جائے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک زوجہ کنواری تھی جبکہ باقی ازواج مطہرات کی بیوہ یا طلاق یافتہ تھی بلکہ بعض تو دو دفعہ طلاق یافتہ تھی اور دو دفعہ بیوہ بھی تھیں معاشرے میں طلاق یا خلع کا رجحان بڑھنے کے بعد اب اسی سوچ میں تھوڑی سی تبدیلی ضرور آئیہ ہے پہلے جو لوگ کھلے عام طعنے دیتے تھے دبے لفظوں میں طنز کرتے نظر آتے ہیں دوسری شادی کرلی ہمارے معاشرے میں تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ خاتون کی کامیابی اس کا شادی شدہ ہو جانا ہے

 

Sajida farheen farhee
About the Author: Sajida farheen farhee Read More Articles by Sajida farheen farhee: 11 Articles with 5482 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.