نتائجوں کا برہمن - چوتھی قسط

بابو نرائن داس شام کو میرے ساتھ ہوٹل آیا تو میں نے اُس سے کہا کہ دیکھو ہمارے ہوٹل کی مالک چینی لیڈی بہت ہی محنتی اور ایماندار ہے کہ اپنے خاوند کی غیر موجودگی میں اکیلی ہوٹل سنبھالتی ہے، میری بات پر بابو ہنسنے لگا اورمعنی خیز انداز میں کہا، ارے صاب آپ بھی بڑے بھولے ہیں ،اس کی تو شادی ہی نہیں ہوئی تو خاوند کہاں سے آئے گا،یہ باہر سے آنے والوں کو یہی بتاتی ہے تا کہ اس کے بارے میں کوئی غلط سلط نہ سوچے، در اصل اس نے شادی کی ہی نہیں اور نہ کرنے کا خیال ہے پیسہ بہت ہے اس کے پاس ساتھ والی سونے کی دوکان بھی اسی کی ہے ،اس کی برادری کے بہت لوگوں نے کوسس (کوشش )کی مگر یہ راجی (راضی) نہیں ہوئی، میں نے حیران ہو کر کہا، اور جو یہ بتاتی ہے کہ اس کا ایک بیٹا بھی ہے جو رنگون میں پڑھ رہا ہے وہ کہاں سے آ گیا ؟بابو نے بڑے رازدارانہ لہجے میں بتایا کہ وہ اس کے بھائی کا بیٹا ہے جس کو اس نے گود لے کر پڑھانے لکھانے کا ذمہ لے رکھا ہے، ویسے ایک بات تو ہے صاب کہ اکیلی عورت کا دنیا والے جینا حرام کر دیتے ہیں، اس واسطے شادی ضرور کرنا چاہیئے،میں نے بابو کے الفاظ دہراتے ہوئے کچھ زور دے کر کہا ، شادی ضرور کرنا چاہیئے چاہے عورت ہو یا مرد ! میری بات کا اشارہ سمجھتے ہوئے بابو نے ذرا جھینپتے ہوئے کہا، صاب ہم تو شادی کے لیے تیار ہوں مگر کوئی برہمن لڑکی ہی نہیں ملتی، میں نے اُس پر طنز کا تیر چھوڑتے ہوئے جواب دیا ، برہمن کیا انسان نہیں کوئی دوسری مخلوق ہیں جو انسانوں سے دور رہنا چاہتی ہے ؟ تو بابو کچھ شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا ، یہ بات نہیں ہے صاحب برہمن ایک اونچی جاتی ہے جو بھگوان رام سے چلی آ رہی ہے ہم لوگ اس میں کسی دوسری جات کو سامل کر کے اپنی پووترتاکو نشٹ نہیں کرنا چاہتے،مجھے اُس کی بات میں ایک تکبرانہ گھمنڈ سا محسوس ہواجس نے میرے دل کو اس کی ذات پات کی اس گتھی کو سلجھانے کے لیے سوچنے پر مجبور کر دیا، میں سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں بھی تو سید ذات کے محترم لوگ غیر سید میں شادی کرنے سے گریزاں رہتے ہیں ، تو کیا سب مذاہب میں ذات پات کی تفریق ہے؟ مجھے خاموش دیکھ کر بابو نے بات پلٹتے ہوئے کہا، ساب میرا بابا آپ سے ملنے کو بہت بے چین ہے آج آپ میرے گھر چلیے نا ؟ میں نے کہا ، نہیں بھئی ابھی رات ہو گئی ہے، ایسا کرتے ہیں کہ کل صبح گودام جانے سے پہلے تمہارے بابا سے ملیں گے ،یہ سن کر بابو مجھ سے اجازت لے کر جاتے جاتے بولا ساب آپ کے لیے میں صبح دودھ گرم کر کے بوتل میں ڈال کر لاﺅں ؟میں نے کہا صبح کے وقت تو ہم لوگ دہی یا لسی سے ناشتہ کرتے ہیں ، اس پر بابو نے کہا، ٹھیک ہے یہاں ایک دوکان والا دہی بناتا ہے میں اس سے دہی لے آﺅں گا،یہ کہہ کر بابو تو چلا گیا مگر مجھے سوچوں کی اتھاہ گہرایوں میں چھوڑ کر! انسان دوسروں کو حقیرکیوں سمجھتا ہے جبکہ سب کی پیدائش اور موت ایک ہی طرح سے ہوتی ہے اور دائرہ اسلام میں آنے والوں کے لیے تو نبی کریمﷺ نے واضع طور پر اعلان فرما دیا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت نہیںسوائے اعمالِ صالح کے جس سے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں درجات بلند ہوتے ہیں ، اور خاص کر کے تکبر جو صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی ذات کی صفات میں سے ہے ، مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کو کہا گیا ہے مگر پھر بھی ہم لوگ اس کے لیے حیلے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں، شاید یہ کافی عرصہ ہندﺅں کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی ذات پات میں اور کبھی پیسے کوڑی میں دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں جو چیزیں دنیا ہی میں رہ جانے والی ہیں ، اگر کوئی اونچی ذات کا ہو کر شراب پیتا ہے یا کسی اور برائی میں مشغول ہے تو اس کی اونچی ذات کیا اس کو عذابِ خداوندی سے بچا لے گی ؟ ہر گز نہیں لہذا اپنے آپ کو اونچی ذات ظاہر کرنا بھی تکبر ہی کی ایک نشانی ہے جس سے دور رہنے میں ہی بھلائی ہے۔

دوسرے دن صبح بابو آیا تو میں اُس کے ساتھ وعدے کے مطابق اس کے گھر گیا جسے دور ہی سے دیکھ کر ویرانی کا احساس ہونے لگا، ایک لکڑی کے کیبن میں اُس کا بوڑھا باپ جس کی بینائی بھی بہت کمزور تھی اپنے لاغر جسم کے ساتھ گھسٹتا اور ٹٹولتا ہوا میرے پاس آ کر سلام ساب کہہ کر بیٹھ گیا اور مسرور لہجے میں کہنے لگا ، مجھے نرائن داس نے جب بتایا تو مجھے بہت کھوسی ہوئی یہاں تو میرے ساتھ کوئی بات کرنے والا بھی نہیں آپ سے اپنی بہار کی بھاشا میں بات کرنے کو بہت دل چاہا اس لیے بابو کو بہت دفعہ بولا آپ کو یہاں لانے کو ،یہ روج بولتا تھا ،آج لے کر آﺅں گا مگر شام کو آکر بولتا آج کام تھا ساب کو وہ کل جرور آئیں گے ، بابو کا باپ نہ جانے کب سے ترسا ہوا تھا بات کرنے کے لیے جو بغیر رکے بولتا ہی جا رہا تھا، بابو جی اپنے دیس جانے کوبہت من کرتا ہے مگر کوئی بیٹا ساتھ جانے کو تیار ہی ناھیں ہووت ہے، میں نے ذرا ہنس کر کہا، کون ہے انڈیا میں جس کے پاس جانے کو من چاہتا ہے تو وہ بولا، بابو جی پچاس سال پہلے بیوی اور ایک بیٹی کو چھوڑ کر بڑے بھائی کے کہنے پر یہاں آیا تھا، پہلے تو بیوی کے کھت آتے رہے پھر بند ہو گئے تو لوگوں نے کہا اسنے تم کو چھوڑ کر کسی اور سے گھر بسا لیا ہے تب ہم نے بھی یہاں سادی بنا لی جس سے تین بیٹے پیدا ہوئے بہت دن بعد انڈیا والی بیوی کا کھت آیا کہ تمہاری بٹیا جوان ہو گئی ہے اس کا گھر بسانا ہے مگر ہمری دوسری بیوی ہم کا نہ جانے دی بابو جی ہم کا کرتے ، اس کے مرنے کے بعد ہمری نجر اتنی کمجور ہو گئی کہ دکھنا بھی بند ہو گوا ، لڑکن کو بولا ہم کا لے چلو مگر کوئی نہ مانے ہے بابو جی ہم بہت پریسان ہیں ، یہ کہتے ہوئے بوڑھے برہمن کی آنکھیں بھیگ سی گئیں۔

کیبن میں ہر طرف میلے کچیلے کپڑے اور جھوٹے برتن بکھرے پڑے تھے ایک طرف دھول میں اٹی ان کے بھگوان کی تصویر جس پر سوکھے پھولوں کا ہار لٹک رہا تھا کیبن کے دائیں طرف باڑہ میں تین گائے بندھی ہوئی تھیں جن کے گوبر کی باس سے سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا یہ سب دیکھ کر میں نے بابو سے کہا، کیا بھئی تم لوگ صفائی بھی نہیں کرتے گھر کی اس ماحول میں تو اچھا بھلا آدمی بیمار پڑ جاتا ہے تمہارے باپو کا تو بڑا حوصلہ ہے جو یہاں رہ کر بھی زندہ ہیں،میری بات کا جواب اُس کے باپ نے دیتے ہوئے کہا، ساب کیا کریں یہ کام تو عورتوں کا ہوتا ہے جو ہمرے بیٹوں کے نصیب میں نہیں ایک بڑکے والے کی سادی کی تھی وہ بھی ایک سال بعد چھوڑ کر چلی گئی ،کا کریں بابو جی ہمری تو قسمت ہی کھراب ہے،وہ اپنے مخصوص بہاری لہجے میں بات کرتے ہوئے بولا، میں نے ذرا تیکھے لہجے میں کہا، تو ان کی شادی کیوں نہیں کرتے مجھے تو بابو نے بتایا ہے کہ یہ برہمن جاتی کے بغیر شادی نہیں کرے گاچاہے اسے ساری عمر ایسے ہی گذارنی پڑے ؟ تو اس کے باپ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا، اب کہاں سے ملے گی اپنی جاتی کی لڑکی بابو، یہاں تو ہمرے سوا کوئی ہندو بھی نہ ہے، کا کریں بابو جی بہت مسکل میں ہیں ،آپ ہی بتائیے ہم کا توکچھ سمجھ میں ناہیں آوے ہے،میں نے بھی اس بدبودار ماحول سے جلدی پیچھا چھڑانے کے لیے کہہ دیا ٹھیک ہے تم تلاش کرو میں بھی دیکھوں گا اگر کوئی برہمن خاندان نظر آیا تو تمہارے بارے میں بتاﺅں گا،میرے اتنا کہنے پر تو جیسے پوری بلا میرے سر پر آ گئی باپ نے تو میرے ہی کندھے پر بندوق رکھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا،بس بابو جی اب آپ ہی کا جِمہ پر ہے جہاں آپ کریں گے ہم کا کوئی اعتراج ناہیں ہو گا، میں نے جلدی سے اُٹھتے ہوئے کہا نا بابا نا میرے اوپر کوئی ذمہ و اری نہیں میں چلتا ہوں اور اس کے باپ کے تھوڑی دیر اور بیٹھنے کے اسرار پر بھی میں اُٹھ کر کیبن سے باہر آیا تو مجھے یوں لگاجیسے میں کسی قید خانے سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لے رہا ہوں۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77135 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.