عورت مارچ

عورت مارچ کب شروع ہوا اور اس کی وجہ کیا تھی

عورت مارچ

عورت مارچ کب شروع ہوا اور اس کی وجہ کیا تھی 1908 نیو یارک امریکہ کچھ خواتین کے اندر ایک بے چینی تھی کہ انکو وہ حقوق نہیں مل رہے جو انکا حق ہے یعنی ووٹ کا حق بہتر تنخوا ہ اور وہ بھی کم وقت میں اور اسی مسائل کو لے کر سڑکوں پر نکل آئیں جنکی تعداد اس وقت پندرہ ہزار کے قریب تھی تاریخ کے حساب سے عورتوں کی جانب سے یہ پہلی آواز تھی آہستہ آہستہ یہ تحریک پورے امریکہ میں پھیل گئی پھر 25مارچ 1911 کو امریکہ کے ایک کارخانے میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے اس تحریک کو نیا رنگ دے دے دیا یہ حادثہ تھا کیا ؟ 25مارچ کی شام کو اس کارخانے میں لگنے والی اس آگ میں 150 کے قریب محنت کش عورتیں ہلاک ہو گئیں جو اکثر اٹلی کی تار کین وطن اور یہودی خواتین تھیں اس حادثے نے عورتوں کے کام کے حوالے سے اک نہیں بحث چھیڑ دی اور امریکہ میں اپنے لیبر قوانین کو بہتر بنانے کی مانگ بڑھنے لگی اس سال عورتوں نے روٹی اور گلاب کے نام سے تحریک چلائی سات دہائیوں کے بعد 1975 کو اقوام متحده نے اس تحریک کو عالمی دن کا درجہ دے دیا 1977 کو یونائیٹڈ نیشن جنرل اسمبلی نے عورتوں کے حقوق اور عالمی امن کا ریزولیشن بھی پاس کیا اور ہر ملک کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ یہ دن اپنے ملک کے دن اور وقت کے حساب کسی بھی دن منا سکتے ہیں 1996 میں یونائیٹڈ نیشن نے پہلی بار عورتوں کے عالمی دن کو ایک ٹاسک دیا کے اس کو مزید بہتر بنایا جاۓ اور مستقبل کی بھی پلاننگ کی جاۓ اور اس میں ایک اور عورتوں پر تشدد کا نیا موضوع شامل ہوگیا اکیسویں صدی میں یہ تحریک پوری دنیا میں پھیل گئی اور اس میں روزبروز نے مسائل کو شامل کیا گیا
جن میں سرفہرست عورتوں کی تحقیر مت کرو ۔عورتوں کو کام کی جگہ پر ہراساں مت کرو ۔میرا جسم میری مرضی ۔میری مرضی ہے کہ میں بچہ پیدا کروں یا نہ کروں ۔اور اب تو اس میں یہ بھی شامل کیا گیا ہے عورتوں کو شادی سے پہلے بھی سیکس کی اجازت ملنی چاہیے اور پچھلے دو تین سال میں تو اس تحریک کو ایسا رنگ دے کر پیش کیا گیا کہ جس پر آنے والی نسلیں بھی شرمندہ ہوں گے ایسے ایسے چارٹ لے کر عورتیں کھڑی نظر آئیں کہ جن کو یہاں پر لکھنا میرے بس میں نہیں مغربی ممالک میں یہ تحریک چلتی تھی تو اس سے اسلام کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا مگر جب سے پاکستان میں بھی اس کو شروع کیا گیا اور ایسے ایسے سلوگن بنا کر جو سراسر دین اسلام کے خلاف ہیں اور دین اسلام ان کاموں سے روکتا ہے جو اس میں شامل کئے گئے میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ مسائل کس جگہ نہیں ہوتے میرا تو یہ خیال ہے کہ زندگی کا دوسرا نام ہی مسائل ہے مگر ہم اپنے گھروں کے وہ مسائل کو لے کر سڑکوں پر آگئے جن کو ہم چاہتے تو اپنے گھر کی چار دیواری میں بھی حل کرسکتے تھے اور بعض ایسی باتیں سن کر تو ہنسی آتی ہے کہ عورت کیسے حقوق چاہتی ہے اسلام نے تو چودہ سو سال پہلے ہی وہ حقوق عورت کو دے دیئے تھے قرآن پاک اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے

یہ لفظ مسلمان کے لیے کیسے قابل برداشت ہو سکتے ہیں جس میں سب سے بڑا میرا جسم میری مرضی۔ اور ماں کا نانی کا دادی کا سب کا بدلہ لیں گےاور جو عورتیں اس مارچ میں شامل تھیں ان کا ان مسائل سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں اور جو لڑکیاں اس مارچ میں شامل تھیں ان کے لباس سے یہ صاف لگ رہا تھا کہ وہ کس مقصد کے لیے آئی ہیں اور ان کا مشن کیا ہے اور بعض تو ان میں مرد بھی شامل تھے جو ان عورتوں کی حمایت کرتے نظر آ رہے تھے کہ عورتوں کو کام کرنے سے نہیں روکنا چاہیے پڑھائی سے نہیں روکنا چاہیے ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کی شادی کریں اپنی پسند کا لباس پہنے ان کی مرضی ہے کہ وہ دوپٹہ لے یا نہ لیں بچہ پیدا کریں یا نہ کریں کھانا گرم کریں یا نہ کریں اگر ان کو اس بات سے روکا گیا تو ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے والدین یا بھائی کے خلاف نعرے لگائیں اس بات سے تو یہ ثابت ہوگیا وہ کہ وہ مردوں کے خلاف ہے اور ان کو اپنا دشمن مانتی ہیں اور میں سلام پیش کرتا ہوں اور اپنے مسلمان بہنوں کو جنہوں نے اس تحریک کے خلاف آواز اٹھائی اور میرا جسم میری مرضی جیسے گندے الفاظ کو رد کیا اور پوری دنیا کو بتایا کہ مسلمان کی خواتین کو ان کے گھروں میں تو سارے حقوق ملتے ہیں مگر مسلمانوں کی طرف سے اس تحریک کو روکنا بہت ضروری ہے اس مہم سے معاشرے پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے اور کچھ خواتین بہک بھی سکتی ہیں اور اگر ایک خواتین بھی بہک جائے تو پورے گھر کو تباہ کر سکتی ہے مجھے افسوس ہے ہمارے میڈیا پر جو چند پیسوں کی خاطر اس تحریک کو ہوا دے رہا ہے اور روزانہ ایسی ایسی چیزیں دکھا رہا ہے جن سے گھروں میں مسائل بڑھ رہے ہیں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے بے پردگی بیہودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اگر اس کو روکا نہ گیا تو آنے والے کچھ سالوں میں اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوں گے میں عورت مارچ کہ خلاف نہیں ہوں اگر عورت اپنے جائز حقوق کے لیے نکلے پچھلے دنوں انڈیا میں خواتین کے برقعے اور حجاب پر پابندی لگائی گئی اگر خواتین اس کے لئے نکلتی تو ہم بھی ان کے ساتھ نکلتے میری تمام بہنوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ یہ تحریک مغرب سی آئی ہے اور انہوں نے ہماری چند کمزوریوں کو پکڑ کر ان میں اپنی طرف سے ایسا رنگ بھرا ہے جو نہایت خطرناک ہے اور مستقبل میں اس کے اثرات ایسی ہماری زندگی اور ہمارے گھروں میں شامل ہوں گے جن سے بربادی ہی بربادی ہوگی
 

Munir Anjum
About the Author: Munir Anjum Read More Articles by Munir Anjum: 23 Articles with 17630 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.