دو میٹھے بول

میں حسب ِ معمول صبح اپنے دفتر پہنچا تو ایک نہایت خوشگوار منظر میرا منتظر تھا میں اِس خوبصورت منظر کے لیے تیار نہیں تھا لیکن ماں بیٹے کے چہرے پر خوشی کا مرانی ‘ساتھ میں مٹھائی کا ڈبہ میری روح نہال ہو گئی ۔خوشی سرشاری کی بات وہ مسکراہٹ چمک تھی جو کامیابی کے چراغ کی طرح دونوں کے چہروں پر روشن تھی دونوں ماں بیٹا بینچ پر بیٹھے تھے میری نظر جب دونوں پر پڑی تو میں تیزی سے اُن دونوں کی طرف بڑھا ۔میں دونوں کے منہ سے کامیابی کی خبر سننا چاہتا تھا جب میں دونوں کی طرف گرم جوشی سے بڑھ رہا تھا تو مجھے پانچ سال پہلے کا وقت یاد آگیا جب میں دونوں سے ملنے اِن کے گھر پر جاتا کر تا تھا مجھے آج بھی دو دن یاد ہیں جب میں نے اپنے جاننے والے کو ایک دن کال کی تو اُس کے موبائل پر اُس کے بیٹے کی آواز تھی جب میں نے ہیلو کے بعد کہا کہ یہ اختر صاحب کا نمبر ہے تو کچھ لمحوں کے لیے خاموشی کی چادر تن گئی پھر چند لمحوں کے بعد دبی دبی سسکیوں کے درمیان آواز گونجی انکل اختر صاحب تو اب اِس دنیا میں نہیں رہے ان کا تو ایک ماہ پہلے انتقال ہو گیا ہے میں اُن کا اکلوتا بیٹا بات کر رہا ہوں اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہے میں اِس افسوسناک خبر کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا پھر میں چند تعزیتی جملوں کے درد ناک عمل سے گزرا لیکن میں اِس شاک کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا اِسی دوران اپنا تعارف کراتا تو بیٹا بولا انکل میں اور ماما دونوں آپ سے مل چکے ہیں ۔بابا آپ سے بہت پیار اور ذکر کیا کرتے تھے میں کسی دن ماما کو لے کرآپ کے پاس آؤں گا تو میں بولا نہیں بیٹا تم لوگ نہیں آؤ گے میں خود آپ کے گھر آپ کے والد کی تعزیت کے لیے حاضر ہوں گا تو معصوم نوجوان بیٹا بو لا انکل آپ نے ہمارے گھر ضرور آنا ہے ماما بہن اور میں بہت خوش ہو نگے میں نے گھر آنے کا وعدہ کیا اور فون بند کر دیا مجھے دوست کی وفات کا شدید شاک لگا تھا میری نظروں کے سامنے با ر بار دوست کا زندگی سے بھر پور روشن چہرہ باتیں یاد آرہی تھیں اختر میرا اچھا ملنسار دوست تھا انسانیت سے بھرا ہوا دل و جان سے دوسروں کی مدد کر نے والا مثبت سوچوں کا مالک کینہ بغض نفرت سے پاک محبت اخوت بھائی چارے دوسروں کی ہر وقت مدد پر تیار جب میری اِس سے پہلی ملاقات ہو ئی تو تعارفی گفتگو میں ہی جب ہم دونوں کو پتہ چلا کہ ہماری پیدائش ایک ہی علاقے سے ہے اختر کا گاؤں میرے گاؤں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا علاقے کی محبت ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی اب اختر نے میرے پاس آنا شروع کر دیا سرکاری آفیسر تھا اپنی دفتری معاملات خاندانی معاملات پرمُجھ سے خوب مشاورت کر تا وقتی پریشانی میں میرے پاس آیا تھا جو چند دنوں میں ہی حل ہو گئی لیکن اِس دوران ہم دوستی کے بندھن میں بندھ چکے تھے اب اختر مختلف بہانوں سے میرے پاس چکر لگا تا رہتا اُس کے حلقہ احباب میں کسی کو کسی قسم کی بھی پریشانی ہوتی تو وہ میری شہرت اور فقیری درویشی کا خوب اشتہار چلا تا اُس کو میرے پاس لے کر آتا اُس کی مدد کر تا جب کسی کا مسئلہ حل ہو جاتا تو بہت خو ش ہوتا وہ جس کسی کو پریشان دیکھتا اُس کے سامنے میری خوب تعریفیں کرتا پھر میرے پاس لاتا میں اکثر اُس سے کہتا دیکھو یار تم ایسے لوگوں کو بھی زبردستی میرے پاس لے آتے ہو جو روحانیت تصوف پر یقین نہیں کرتے تو وہ کہتا میں کسی کو پریشانی میں نہیں دیکھ سکتا ہمارا کام ہے کو شش کرنا شفا تو رب کے ہاتھ میں ہے وہ ہماری ٹوٹی پھوٹی کو ششو ں میں برکت ڈال دیتا ہے اختر کی بات سن کر میں بھی خوش ہو جاتا ایک دن مجھے کہنے لگا جب سے میں مختلف پریشان ضرورت مند لوگوں کو آپ کے پاس لاتا ہوں پھر جب ان لوگوں کے مسائل حل ہوتے ہیں تو اُن کے چہروں پر اطمینان خوشی دیکھ کرمجھے بہت روحانی سکون ملتا ہے اگر کبھی اﷲ نے مجھے بہت ساری دولت دی تو میں ساری دولت دکھی پریشان ضرورت مند لوگوں میں خرچ کر دوں گا تو میں بو لا یاراختر سخاوت صرف دولت سے ہی نہیں ہم کسی کو دو میٹھے بول کہہ کر بھی کر سکتے ہیں کسی کی پریشانی سن کر اُس کو حوصلہ دے کر بھی کر سکتے ہیں کسی کو اچھا مشورہ دینا کسی کی دکھ بھری باتیں سننا یہ بھی تو سخاوت ہے میں اکثر اُس کو کہتا یار تمہارے جیسے لوگ خوشبو کی مانند ہو تے ہیں جو اِس گلے سڑے بانجھ معاشرے کا تعفن دور کرتے ہیں تمہارے جیسے لوگوں سے ہی معاشرے کا حسن قائم ہے تو وہ مسکرا کر بات ٹال جاتا اختر ہر وقت دوسروں کی مدد کرنے پر تیار رہتا جب تک دوسروں کا مسئلہ حل نہ ہو جاتا آرام سے نہ بیٹھتا میں اکثر کہتا یار تم اپنا مسئلہ بیان نہیں کرتے تو وہ مسکرا کر کہہ دیتا جو نشہ خوشی دوسروں کی مدد میں ہے وہ اپنی خوشی میں کہاں اِس پس منظر کے ساتھ اختر کی موت میرے لیے بہت گہرا گھاؤ تھا میں اِسی صدمے میں غرق رہا بار بار مجھے اختر کا چہرہ باتیں یادآتیں میری روح بے قرار تھی لہذا میں نے اختر کی قبر پر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ فاتحہ خوانی کے بعدمیری مضطرب روح کو قرار سا آجائے پھر میں دکھی دل سے اختر کے نمبر پر کال کی تو اِس کے بیٹے نے فون اٹھا یا تو میں نے پوچھا والد صاحب کی قبر کدھر ہے میں ابھی آرہا ہوں تو بیٹے نے قبرستان کا ایڈریس بتا یا کہ انکل آپ ادھر آئیں میں بھی آتا ہوں پھر میں گرفتہ دل کے ساتھ اختر کی قبر پر گیا جہاں پر اُس کا بیٹا اور میں کتنی دیر تک خدمت خلق کے راہی کو آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر تے رہے پھر میں اختر صاحب کی بیگم سے ملنے اور افسوس کر نے اُس کے گھر گیا ہم تینوں دیر تک اختر کی باتیں یا د کرتے رہے واپس آتے ہوئے میں نے اختر کی بیگم سے کہا بہن پلیز مجھے اپنا سگا بھائی سمجھے گا کسی بھی ضرور ت پر مجھے ضرور حکم دیجیے گا چند دن بعد اختر کی بیگم کا مجھے فون آیا بھائی صاحب جب سے اختر صاحب کا انتقال ہوا ہے بیٹا شدید ڈپریشن کا شکار ہے غم سے نکل نہیں رہا خدا را میری مدد کریں اب میں نے فیصلہ کیا بیٹے کے ساتھ وقت گزارا جائے میں جب مو قع ملتا اُس سے ملنے چلا جاتا یا اُس کو اپنے پاس بٹھا لیتا مثبت گفتگو کر تا اُس کے ٹیلنٹ کے بارے میں بتاتا میری چند ملاقاتوں اور میٹھے بولوں سے بیٹا غم سے نکل آیا اور جذبہ شوق سے پڑھائی پر لگ گیا کہ اپنے باپ کے خواب کو پورا کر وں گا پڑھائی کا سفر جاری ریا میری جب ضرورت ہوتی میں بیٹے یا ماں سے بات کر لیتا پانچ سال گزر گئے تو آج جب دفتر آیا تو دونوں ماں بیٹے میرے سامنے بیٹھے تھے بیٹا مجھے گلے ملا تو ماں بولی بھائی آپ کی دعاؤں اور میٹھے بولوں سے میرا بیٹا پڑھ کر سرکاری ملازم ہو گیا میری مشکل میں آپ نے میرا خوب ساتھ دیا میں آج آپکا شکریہ ادا کر نے آئی ہوں میں سامنے کھڑے سرکاری آفیسر کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرح بعض اوقات ہمارے دو میٹھے بول کسی کی زندگی میں کامیابی کے رنگ بھر دیتے ہیں پھر بہت ساری دعاؤں کے ساتھ ماں بیٹا روانہ ہو گئے جانے سے پہلے میں نے بیٹے سے کہا جس طرح تمہارا باپ خوشیاں بانٹتا تھا تم بھی اُس سلسلے کو جاری رکھنا جب دونوں واپس جارہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں ہو تا کہ کوئی ہمارے دائیں بائیں ہمارے دومیٹھے بولوں کا مہتاج ہے جو اُس کی زندگی کے اندھیروں کو کامیابی کے اجالوں میں بدل دیتے ہیں ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 657656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.