گئو بھکت سرکار کی کتھنی اور کرنی کا فرق


ایوان پارلیمان کے اندر جن لوگوں کی تقاریر بہت مقبول ہوتی ہیں ان میں سے ایک ٹی ایم سی کی رکن مہوا موئترا ہیں۔ اس بار انہوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ اپنے بی جے پی مخالفین کو بڑے دلچسپ انداز میں خبردار بلکہ چیلنج کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’میں لوک سبھا میں صدارتی خطاب پر بولنے جارہی ہوں ۔ (اس موقع پر) بی جے پی سے کہنا چاہوں گی کہ وہ اپنے ہیکلر(رکاوٹ ڈالنے والی ) ٹیم کو تیار کرلیں اور گئوموتر(گائے کا پیشاب)کے کچھ شاٹ(گھونٹ) بھی پی کر آئیں‘‘۔ ترنمول کانگریس کی اس تیز طرار رہنما کے ٹویٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فی الحال گئوموتر کس طرح ہندوستانی سیاست کے اندر زیر بحث ہے۔ ایک زمانے میں چائے پر چرچا ہوا کرتی تھی مگر اب گائے پرسیاست اور قتل و غارتگری تک ہوجاتی ہے ۔ مرکز اور کئی ریاستوں میں فی الحال ایک گئو سیوک سرکار حکومت کررہی ہے اس وجہ سے خود ساختہ گئو رکشکوں کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ اس تناظر میں ایک ساتھ مدھیہ پر دیش میں سامنے آنے والے دو واقعات قابلِ توجہ ہیں ۔

مدھیہ پردیش کے رتلام شہر میں وریندر راٹھوڑ نامی ایک بدمعاش نے سیف الدین نام کے ایک بزرگ کو گائے پر پیشاب کرنے کے الزام میں زدو کوب کیا اور خود ہی اس کی ویڈیو بنواکر وائرل کردی۔ اس ویڈیو میں سیف الدین کی ٹوپی اترواکر اسے قدموں تلے کچلنے کو کہا جارہا ہے اوربر ابھلا کہتے ہوئے تھپڑ برسائے جارہے ہیں۔ اس طرح زور زبردستی سے اسے ایک ایسا جرم قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جس کا اس نے ارتکاب ہی نہیں کیا تھا۔ اس ویڈیو کے بعد راٹھوڑ کے خلاف پولس نے شکایت درج کی اور پوچھا کہ گائے کی ویڈیو دکھاو تو وہ موجود نہیں تھی ۔ اب وریندر راٹھوڑ جیل کی ہوا کھا رہا ہے اور سیف الدین کا کہنا ہے کہ جس طرح ان کی تذلیل ہوئی اسی طرح کا سلوک وریندر راٹھوڑ کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ یہ بالکل حق بجانب مطالبہ ہے ویسے انہوں یہ بھی کہا راٹھوڑ کو اپنی حرکت پر کھلے عام معافی مانگنی چاہیے۔

شمالی ہندوستان میں گئو بھگتی اس لیے فروغ پاتی ہے کیونکہ پرگیا ٹھاکر جیسی رکن پارلیمان دعویٰ کرتی ہے کہ گئوموتراینٹی بایوٹیک ہے۔ وہ ہرروز اسے پیتی ہیں اس لیے انہیں کورونا نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے وہ بھوپال کے قریب بیرسیا نامی گئو شالا کی گائے کا پیشاب پیتی ہوں جس میں گایوں کی موت ہوئی ہے کیونکہ اس کے بعد سادھوی پرگیا کو کورونا ہوگیا۔ پرگیا ٹھاکر کے کورونا سے متاثر ہونے کی خبر کسی کانگریسی نے نہیں پھیلائی بلکہ خود انہوں نے ٹویٹ کرکے بتائی۔انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہیں حالانکہ انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ ہنومان چالیسا کا پاٹھ زور و شور سے ہورہا ہے اور گئوموتر کی خوراک بڑھا دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے پچھلے دو دنوں میں اپنے رابطے میں آنے والوں کو بھی جانچ کرانے کی گزارش کی اور ان کی صحت کے لیے دعا کی۔ اس پر کانگریس کے ترجمان نریندر سلوجا نے چٹکی لیتے ہوئے ٹویٹ پر لکھا کہ گئوموتر کا استعمال کرنے والی اور ہرروز چار پانچ مرتبہ ہنومان چالیسا کے ورد سے کورونا کو بھگانے والی اور شراب کو دوا بتا کر اس کی مقدار بتانے والی رکن پارلیمان کو کورونا ہونے کی خبر تعجب خیز ہے۔ ان کی صحت کے لیے دعا کرنے کے بعد یہ بھی کہا کہ لگتا ہے انہوں (پرگیا ٹھاکر) نے اپنے ساختہ حل کا خودد ہی استعمال نہیں کیا۔

بیرسیا گاوں میں سیکڑوں کایوں کی موت کے معاملے میں سرکار نے چپیّ سادھے رکھی ۔یہ وارادات اگر کانگریس کے دور میں وقوع پذیر ہوئی ہوتی تو بی جے پی والے آسمان سر پر اٹھالیتےمگر برسراقتدار زعفرانہ ٹولہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگیا۔ ضلع کلکٹر اویناش لوانیا موقع واردات پر پہنچ کرمظاہرین کاغم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں لگے ہیں۔ مرنے والی گایوں کی گنتی کرنی شروع کردی گئی ہے اور گئوشالہ کا انتظام و انصرام اب انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ گئو رکشک جو گائے کے نام پر دنگا فساد کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی رضا کارانہ طور پر ان لاوارث گایوں کی دیکھ بھال کے لیے آگے نہیں آیا ہے۔ اس سے ان کے گئو پریم کی پول کھل جاتی ہے۔ سرکاری افسران نے گایوں کی موت کا سبب معلوم کرنے کی خاطر جانچ کرانے کا اعلان کیا اور کچھ پنجر تفتیش کے لیے بھیجے حالانکہ یہ وہ موت بھوک اور سردی سے ہوئی اس میں کوئی شک شبہ نہیں ہے۔ انتظامیہ عوام کی توجہ ہٹانے اور ان کا غصہ کم کرنے کے لیے یہ لیپا پوتی کررہا ہے۔

گائے کے نام بی جے پی کی ریاستی اپنی ذمہ داری کس طرح ادا کرتی ہے اس کا اندازہ مدھیہ پردیش میں مویشیوں کی پرورش بورڈ کے نائب صدر اکھلیشور انند گری کے بیان سے ہوتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے انکشافات نے شیوراج سنگھ چوہان کی سرکار کو بالکل ننگا کردیا۔ انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اول تو 20 روپئے میں گائے کا پیٹ نہیں بھرتا اور دوسرے کورونا کے بہانے اس کی ادائیگی میں تاخیر کی جاتی ہے۔اکھلیشورانند نے اعدادو شمار کی بنیاد پرگائے بھگت سرکار کی قلعی کھول دی ۔ انہوں نے بتایا 2018 میں کانگریس کی کمل ناتھ سرکار نے گئوشالاوں کی دیکھ بھال کے لیے 150 کروڈ روپئے کا بجٹ رکھا لیکن اس کے بعد جب بی جے پی اقتدار میں آئی تو اس نے2021-22میں اسے گھٹا کر صرف 60 کروڈ کردیا۔ اس سے بڑا پاکھنڈ اور کیاہوسکتا ہے؟

اکھلیشورانند کے مطابق صوبے میں فی الحال 627نجی 951سرکاری گوشالائیں ہیں جن میں تقریباً2لاکھ 55 ہزار سے زیادہ گائے پلتی ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لیےتقریباً 184 کروڈ روپیہ درکار ہے لیکن کسی سرکار نے اتنا بجٹ کبھی نہیں دیا۔ بیرسیا گاوں کی واردات کے بارے میں ان کا خیال ہے چونکہ گائےڈھانچہ چند دنوں میں نہیں بنتا اس لیے یہ طویل مدت سے جاری لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ اب گئوشالا کے خلاف ملنے والی شکایتوں کے ساتھ جانوروں کے ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی بھی تفتیش کا حکم دی گیا ہے۔ حکومت نےعوام سے ایک گائے کی خاطر یومیہ 10 روپیہ چندہ جمع کرنے کے لیے آن لائن انتظام کیا مگر گئورکشکوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار کے ساتھ افسران اور سماج سبھی اس میں حصہ دار ہیں۔

سرکاری کارکردگی کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے ہر گئو شالا کے لیے پانچ ایکڑ زمین کے حساب سے جملہ12,500؍ایکڑ زمین مہیا کرادی ۔ ان کی تعمیر کے لیے سرکاری اسکیم منریگا سے 900 کروڈ کا اہتمام کیا مگر بدانتظامی کا کوئی حل نہیں ڈھونڈ سکی ۔ وسیع و عریض زمین دینے کا مقصد وہیں پر گائے کے لیے چارہ اگانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوپایا یعنی باہر سے چارہ گری کرنی پڑی ۔ اکھلیشورانند کو یہ شکایت بھی ہے کہ سرکاری امداد کبھی پوری نہیں ملتی ۔ اس الزام کی حمایت میں انہوں نے شیو پوری ضلع کی مثال دی جہاں 31 گئوشالاوں میں 3203 گائیں ہیں۔ان کے لیے 20 روپیہ یومیہ کے حساب سے76 لاکھ 80 ہزار کی رقم بنتی ہے مگر اس میں سے صرف 23 لاکھ کی ادائیگی ہوسکی ہے۔ اس الزام کی تصدیق کئی سرکار افسران بھی کرتے ہیں کہ ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے جس سے گائیں بیمار ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں اگر گائیں بھوک سے منہ میں چلی جائیں تو اس کے لیے سرکار بھی ذمہ دار ہے اور اس پر بھی گئوہتیا کا مقدمہ چلنا چاہیے۔

اس ملک کو ابھی حال میں کچھ سادھو سنتوں نے ہندوراشٹر قرار دے دیا اور وہ اس کا آئین لکھنے میں مصروف ہیں لیکن اس ہندو راشٹر کے ایک صوبے میں جہاں ڈبل انجن زعفرانی سرکار ہے تین سال کے اندر 200 گئو شالاوں کو بند کردیا گیا ان میں سے تین سرکاری بھی ہیں۔ ایک طرف تو یہ حالت ہے دوسری جانب سرکار کا مویشیوں کی پرورش کا شعبہ جملہ 627 میں سے 25 کے ہائی ٹیک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہاں گوبر کو کھاد بنانے کے لیے مشین تو لگائی گئی مگر بجلی کا بندو بست نہیں کیا گیا۔ اس لیے کئی مشینیں واپس چلی گئیں۔ اس کے علاوہ وزارت جنگلات کو 50 گئوشالائیں بنانے کا ہدف دے کر30-30 لاکھ روپیوں کا بجٹ دیا گیا مگر ان میں 25 اس رقم کا استعمال ہی نہیں کرسکے اور وہ واپس ہوگئی کیونکہ انہیں زمین ہی مہیا نہیں کرائی گئی۔ اس طرح ڈھائی سال میں اب تک صرف 10 گئوشالائیں بن سکیں اور 15 زیر تعمیر ہیں۔

اس سے نام نہاد ہندو راشٹر کے اندر گائے کے تئیں محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان نےاس سال جنوری میں گئو شالاوں کو خود مختار بنانے کے لیے جو بلند بانگ دعویٰ کیا تھا ان کی ہوا نکل چکی ہے۔ گوبر اور گئوموتر کے حوالے سے ان کے سارے تجربات ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ وہ ایک غیر فطری پروجکٹ پر کام کررہے ہیں۔ مدھیہ پردیش سے متصل تلنگانہ میں چونکہ گئو کشی کا قانون نہیں ہے وہاں نہ تو کسان کو شکایت ہے اور نہ عوام کو ۔نہ سرکار پر دباو ہے اور نہ اس قسم کی بدعنوانی کا وجود ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ انتخابی پوسٹرس میں گائے کے ساتھ تصویر کھنچوا کر ووٹ مانگنے والوں کو اب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور عام لوگوں کو ان کے فریب میں آنے بجائے ان سے سوال کرنا چاہیے کہ گئو ماتا کی خدمت کے نام پر لوٹ مار کا ڈھونگ آخر کب تک چلے گا؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1237401 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.