الیکشن کمیشن کی طرف سے مجوزہ حلقہ بندیاں

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب بھر میں بلدیاتی الیکشن کیلیئے نئی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کر دی ہے جس کے تحت تحصیل کلرسیداں ایم سی کو ختم کرتے ہوئے اسے 4نیبر ہیڈ کونسلز میں تقسیم کر دیا گیا ہے کلرسیداں کی کل آبادی 217061ہے جس کو 4نیبر ہیڈ کونسلز اور 10ویلیج کونسلز میں تقسیم کر دیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ بعض جہگوں پر تو نہایت ہی بے تکی تقسیم کی گئی ہے ایسے علاقوں کے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے جن کی کسی بھی صورت میں کوئی مطابقت ہی نہیں بنتی ہے جس وجہ سے کلرسیداں کے عوام میں مایوسی پھیل گئی ہے حلقہ بندیاں علاقائی خدوخال کو مدنظر رکھ کر ہونی چائیں تھی لیکن بہت سی ویلییج کونسلز میں اس تاثر کو بلکل پش پشت ڈال دیا گیا ہے جو کہ صحیح نہیں کیا گیا ہے جس کی چند واضح مثالیں دینا بہت ضروری ہیں یو سی چوآ خالصہ کے ایک موضع ٹکال کو بھلاکھر کا حصہ بنا دیا گیا ہے یو سی درکالی معموری میں سروہا کو شامل کر دیا گیا ہے درکالی کلرسیداں کے ایک طرف جبکہ سروہا بلکل مخالف سمت میں واقع ہے اسی طرح ٹکال اور بھلاکھر کی بھی آپس میں کوئی نسبت نہیں بنتی ہے ایسی حلقہ بندیاں عوامی مفاد میں نہیں بلکہ عوامی تکلیف کا باعث بنتی ہیں اسی طرح یو سی غزن آباد میں بھی تبدیلی عمل میں لائی گئی ہے جس کے مطابق سابقہ یو سی گف کے حصے چنام شریف،موضع آراضی بھا ئیٗ صاحب سنگھ ،گنگوٹھی کو ویلیج کونسل غزن آباد میں شامل کر دیا گیا ہے اور سب ملا کر اس کی کل آبادی 20061 کر دی گئی ہے ہر دفعہ نئی حلقہ بندیاں عوام کیلیئے بہت سے مسائل پیدا کرتی ہیں عوام بڑی مشکل سے پچھلی حلقہ بندیوں کو سمجھ پاتے ہیں کہ ساتھ ہی نئی حلقہ بندیاں سامنے آ جاتی ہیں جس وجہ سے عوام ایک دوسرے کے ساتھ ٹھیک طرح سے ایڈجسٹمنٹ نہیں کر سکتے ہیں بلدیاتی امیدواروں نے بڑی مشکل سے پہلی حلقہ بندیوں کے مطابق اپنی انتخابی مہم چلا رکھی تھیں اب نئی حلقہ بندیوں نے ان کو ایک دم سے جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اب ان کو نئے سرے سے حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہو گا حلقہ بندیاں ہمیشہ مقامی سرکاری انتظامیہ سے باہمی مشاورت سے ہونا ضروری ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے اس دفعہ شاید ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا ہے انہوں نے اپنے کسی فارمولے کے تحت کر دی ہیں جن پر بہت سے اعتراضات اٹھ رہے ہیں عوام کو ہر الیکشن میں کسی نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے مسائل میں کمی نہیں بلکہ مزید اضافہ ہوتاچلا جاتا ہے اب بلدیاتی الیکشن کی آمد آمد ہے اور بلدیاتی امیدواروں کو اپنی ویلیج کونسلز میں شامل شدہ نئے موضع جات میں مزید محنت کرنا پڑے گی ہر جہگہ سے امیدوار سامنے آ رہے ہیں ہر گاؤں سے چار چار امیدوارالیکشن لڑنے کا دعوی کر رہے ہیں کسی بھی امیدوار کیلیئے اس کے اپنے موضع کے علاوہ کسی دوسرے موضع میں کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے یو سی غزن آباد میں گزشتہ بلدیاتی الیکشن کے موقع پر چنام، گنگوٹھی،جو کے اسی یو سی کا حصہ تھے کو الگ کر دیا گیا تھا اور کچھ نئے موضع جات جن میں گکھڑادمال، سدیوٹ، موہڑہ فیض اﷲ، ترکھی نگیال شامل کر دیئے گئے تھے ابھی بڑی مشکل سے یو سی کے عوام ایک دوسرے کو جاننے میں کامیاب ہی ہوئے تھے کہ پہلے سے علیحدہ کر دہ موضع جات جن میں چنام، گنگوٹھی ،آراضی بھائی صاحب سنگھ شامل ہیں کو دوبارہ غزن آباد میں شامل کر دیا گیا ہے اگر اسی طرح کرنا ضروری تھا تو پچھلے الیکشن میں ان کو الگ کیوں گیا تھا ایسے بہت سے سوالات عوام کے زہنوں میں گردش کر رہے ہیں کہ کیا ان کو ہر الیکشن کے موقع پر ایسے ہی چکر کاٹنے پر کس وجہ سے مجبور کیا جا رہا ہے بہر حال ابھی تو جو نئی حلقہ بندیاں جاری کی گئی ہیں ان پر اعتراجات بھی سنے جائیں گئے جس کیلیئے الیکشن کمیشن نے ٹربیونلز قائم کر دیئے ہیں جن میں عوام کی اپیلیں سنی جائیں گی عوام نئی پیدا شدہ صورتحال پر اپنے اعتراجات بخوبی دائر کر سکیں گئے الیکشن کمیشن کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیوں پر عوام کو پوری طرح سے مطمئن کرے اور جہاں پر بھی کوئی اعتراجات اٹھتے ہیں ان کو دور کیا جائے تا کہ عوام پر سکون طریقے سے بلدیاتی الیکشن کا حصہ بن سکیں
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 147004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.