صحت کارڈ اور بڑھاپے کے مسائل

صحت کیا ہے اس کے بارے میں وہی جانتا ہے جو صحت کو کھو بیٹھتا ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت موسی علیہ السلام نے پروردگار سے ملاقات کے دوران پوچھا۔ اے باری تعالی اگر میں آپ سے کچھ مانگوں تو کیا مانگوں ۔ اﷲ تعالی نے فرمایا۔ "اے موسی علیہ السلام صحت کی دعا مانگا کرو ۔ کیونکہ صحت دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے "۔ اس میں شک نہیں کہ صحت ہی زندگی کی علامت ہے لیکن جب صحت ہاتھ سے نکلتی تو بیماریا ں انسان پر اس طرح یلغارکرتی ہیں کہ ابھی پہلی ٹھیک نہیں ہوتی کہ دوسری بھی چلی آتی ہے۔جس وقت میں بھی جوان تھا تو بیماری اور بڑھاپے کے بارے میں کبھی سوچنے کی فرصت ہی نہ تھی ۔ صبح انگڑائی لے کر نیند سے بیدار ہونا، پھر ناشتہ کرکے دفتر جانا اور واپسی پر زندگی کے معمولات میں مصروف عمل ہو جانے کا ایک ایسا روٹین بن چکا تھا کہ بڑھاپے اور بیماریوں کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ میرے ایک عزیزکو بخار نے نڈھال کردیا۔ بات بخار سے شروع ہوئی اور گرودں کی موذی بیماری تک جا پہنچی ۔ والد نے بیٹے کی جان بچانے کے لیے اپنا گھرتک فروخت کردیا ۔ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی "۔اس وقت شہباز شریف نے موذی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے علاج معالجے کے لیے اربوں روپے مختص کررکھے تھے۔ حکومتی اخراجات پر شیخ زید ہسپتال سے گردہ تبدیلی کا آپریشن ہوا۔ تبدیل شدہ گردے کو ورکنگ پوزیشن میں رکھنے کے لیے 45 ہزار کی ادویات مریض کو ایک ہفتے میں کھانی پڑتیں۔آپریشن کے اخراجات اور ادویات حکومت پنجاب کی جانب سے ملتی رہیں ۔ جونہی نئے پاکستان کا چاند آسمان پر طلوع ہو اتو سب سے پہلے موذی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی ادویات اور علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات بند کردیئے گئے ۔ تین لاکھ روپے ماہانہ کی ادویات جب مریض کو نہ ملیں تو تبدیل شدہ گردے نے کام کرنابند کردیا ۔ہسپتال والوں نے علاج کے لیے 14 لاکھ روپے مانگ لیے جو وہ دے نہ سکے۔اس طرح وہ نوجوان دو سال بیماری سے جنگ کرتا ہوا موت کی وادی میں جا سویا ۔ اس کے تین بچے اور بیوہ دربدر ٹھوکریں کھانے کے لیے رہ گئیں۔ یہ تو ایک شخص کی کہانی ہے ۔دوسرے موذی بیماریوں میں مبتلا مریضوں پر کیاگزرتی ہے ۔وہی جانتے ہیں ۔میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ عمران خان نے پنجاب میں بھی صحت کارڈ دینے کا اعلان کرکے ایک اچھا کام کیا ہے لیکن وہ صحت کارڈ کہا ں سے ملے گا اور کس کس دروازے پر دستک دینی پڑے گی ۔ ہر طرف خاموشی طاری ہے ۔ میں نے اپنا شناختی کارڈ 8500ایس ایم ایس کیا تو جواب ملا کہ 080009009 پر رابطہ کریں جب وہاں رابطہ کیا گیا تو پتہ چلا آپ کے پاس جو شناختی کارڈ ہے وہی صحت کارڈ ہے ۔اس کے برعکس ٹی وی وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کو صحت کارڈ دیتے ہوئے دکھاتا ہے تو وہ دورنگوں کا صحت کارڈ ہوتا ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے صحت کارڈ عام کر ہی دیا ہے تو پھر اہلیت جاننے کی کیا ضرورت ہے ۔ نادرہ کے پاس تمام لوگوں کا ریکارڈ موجود ہے، اسے تحریری حکم دے دیا جائے کہ وہ صحت کارڈ تمام لوگوں کو ان کے گھروں پر روانہ کردیں ۔اﷲ اﷲ خیر سلا۔بیماریوں سے ستائے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ 60سال سے زائد عمر کے لوگوں کی زندگی طوفان بادباراں میں ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طرح لرزتی رہتی ہے کبھی چراغ بجھنے لگتا ہے تو کبھی زندگی کی علامتیں جاگ اٹھتی ہیں ۔عمرانی حکومت ساڑھے تین سال میں پانچ مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں میں اضافہ کرچکی ہے گویا 2018ء کے بعد اب تک تمام ادویات کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔جن کی خرید عمررسیدہ لوگوں کے لیے ناممکن ہوچکی ہے۔حالانکہ بیمار لوگ تو زندہ ہی ادویات کے سہارے ہوتے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ 60سال سے زائد عمر کے بزرگوں کے لیے ادویات فری ، سپشلسٹ ڈاکٹروں کی فیسیں ختم،سفری سہولتیں فری کردی جاتیں تو حقیقی معنوں میں انہیں فائدہ ہوسکتا ہے ۔ورنہ یہ صحت کارڈ ایک تماشے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔پنشن بھی صرف دس فیصد لوگوں کو ملتی ہے۔ 90فیصدعوام پنشن سے بھی محروم رہتے ہیں ، موجودہ حالات میں ان کے لیے زندگی، موت سے بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔کیونکہ ایک طرف ڈاکٹروں کو فیسیں ہزاروں میں تو دوسری طرف ادویات کی قیمتیں عام انسانوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔بیماریاں ہیں کہ جان ہی نہیں چھوڑتیں۔اگر عمران خان کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو انہیں 60سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لیے ادویات، پرائیویٹ معالجین کی فیس،پرائیویٹ ہسپتالوں کے اخراجات کے ساتھ سفری سہولتیں بھی مفت فراہم کرنا ہوگی ۔کیونکہ عمررسیدہ لوگوں کے لیے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں تک اکیلے پہنچنا اور چیک کروا کر واپس آنامشکل ہی نہیں ناممکن ہوچکا ہے ۔بیٹے اگر ہیں تو وہ اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں اور عمررسیدہ لوگ موت کے انتظار میں زندگی کی گھڑیاں گننے لگتے ہیں ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 672030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.