شاہین باغ کے بعد حجاب: بی جے پی کی دوہری رسوائی

بی جے پی کی حالیہ حماقت نے کانگریس سمیت ترنمول کانگریس، بائیں بازو کی جماعتوں، راشٹریہ جنتا دل، این سی پی اور بہوجن سماج پارٹی کو اس کے خلاف متحد کردیا ہے۔ ان جماعتوں کی دلیل ہےکہ آئین شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کے بنیادی حق کی ضمانت دیتا ہے۔ایوانِ بالا میں کرناٹک کےرہنے والے قائد حزب اختلاف ملک ارجن کھرگے نے کہا کہ طالبات کئی دہائیوں سے ہیڈ اسکارف پہن کر اسکول آتی رہی ہیں ۔ اس پر کسی کواعتراض نہیں تھا۔ اب اس کی مخالفت کیوں ؟ یہ بیروزگاری اور بے قابو مہنگائی سے توجہ ہٹانے کیلئے کیا جا رہاہے ۔ سی پی آئی (ایم)کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے کہاکہ عوام کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے- آر جے ڈی کےرکن پارلیمان پروفیسر منوج کمار جھا نے کہاکہ حجاب کوئی رکاوٹ نہیں ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والوں کی ذہنیت میں فتورہے- میں ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ میں نےبہت ساری با حجاب لڑکیوں کو پڑجایا ہے۔آئین کی دفع25 (مذہب کی آزادی کا حق)کے بارے جو کہتی ہے اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔انہوں نے نہایت بیزاری سے سوال کیا کہ کیا اب ہم نے(بی جے پی نے) ہر اس خیال کو ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو اس ملک کو عزیز ہے ۔

حجاب کے حق کی وکالت کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ سشمتا دیو نے کہا کہ جہاں تک ملک کے پرسنل لا، رسم و رواج اور روایات کا تعلق ہے، کوئی بھی لوگوں کو یہ نہیں بتا سکتا کہ کیا کرنا ہے اور کیا پہننا ہے؟ یہ ان کی ثقافت اور رسم و رواج کا حصہ ہے- آپ کو اس کا احترام کرنا چاہئے-بی ایس پی کے لوک سبھا ایم پی کنور دانش علی نے کہا کہ لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روکنے کا یہ اقدام مودی حکومت کی بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤاسکیم کو کمزور کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے حجاب کی مخالفت کرنے والے وزیر اعظم کے بیان’بیٹی بچاو بیٹی پٹاو ‘ کے حامی ہیں۔ این سی پی کے رکن پارلیمان مجید میمن نے اس اقدام کودو مختلف کمیونٹیز کے طلبا کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کی انتہائی افسوسناک کوشش قرار دیا۔ راہل گاندھی نے اس ٹویٹ سے بی جے پی کے منہ پر طمانچہ مارا کہ ، ’’ہم طالبات کے حجاب کو ان کی تعلیم کے راستے میں لاکر ہندوستان کی بیٹیوں کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔ ماں سرسوتی سب کو علم دیتی ہے۔ وہ امتیازی سلوک نہیں کرتی‘‘۔

اس فتنہ کی ابتداء جنوری میں کرناٹک کے اڈپی ضلع میں دو کالجوں کے اندر ہوئی جب وہاں حجاب پہننے والی لڑکیوں کو داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا۔ اس کے بعد مسلم طالبات کے حجاب پہننے کے خلاف احتجاج کرنے کا معاملہ سامنے آیا ۔ آگے چل کر اڈپی کی ایک طالبہ اسماء نے جب ہائی کور ٹ سے رجوع ہو کر کالج میں طالبات کو حجاب کے ساتھ حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو یہ قومی سطح پربحث کا موضوع بن گیا ۔ اس دوران مزید دو طالبات ضحیٰ مولانا اور عائشہ الیفہ نے عدالت سے رجوع کرکے حجاب کی اجازت طلب کی ۔ وہ کندا پور کے بھنڈارکر کالج میں زیر تعلیم ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حجاب پہن کر انہوں نے داخلہ لیا اور اس وقت کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ امسال فروری میں جب اچانک پرنسپل نے پابندی لگائی تو ان کے والدین نے ملاقات کرکے استفسار کیا ۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ مقامی بی جے پی رکن اسمبلی ہلادی شری نواسن شیٹی کے اشارے پر یہ اقدام کیا گیا ہے کیونکہ وہ کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کا صدر ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ بی جے پی حجاب کے سہارے اپنی ڈوبتی سیاسی ناو کو کنارے لگانا چاہتی ہے۔

اڈپی کے سرکاری کالج کی طالبات کے نزدیک کلاس میں حجاب پہننے سے روکناان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ان کی دلیل یہ بھی ہے کہ جب دوسرے لوگ اپنی مذہبی رسومات پر عمل کر سکتے ہیں تو ہم پریہ پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟ ان خواتین کے مطابق ملک کا آئین ان کواجازت دیتا ہے کہ وہ جولباس چاہیں پہن سکتی ہیں۔ یہ معاملہ جب عدالت میں پہنچ گیا تو اس کی ایک فریق ریاستی حکومت کو فیصلہ آنے تک صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے تھا مگر اس نے جلد بازی میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر پہلے ہی حجاب پر پابندی کا حکم جاری کر کے آگ میں تیل ڈال دیا۔ وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے کمال غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ حجاب پہن کر آنے والی طالبات کو کالجوں میں گھسنے نہ دیا جا ئے۔5جنوری 2022کو جاری حکم نامہ میں حکومت نے اس معاملہ میں سپریم کورٹ اور ملک کی دیگر عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دےکر کہا کہ کرناٹکا ایجوکیشن قانون 1983کی دفعہ133کی ذیلی دفعہ(2)کے تحت تمام سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں حکومت کی طرف سے جو یونیفارم مقرر کیا جائے گا اور نجی اسکولوں میں وہاں کا انتظامیہ جس طرح کے یونیفارم کی پابندی لگا ئے اس پر عمل کرنا لازمی ہو گا۔ عدالت میں ان سارے سرکاری دلائل کی دھجیاں اڑ گئیں ۔

اس سرکیولر کے مطابق حکومت نے اداروں کی طرف سے طے شدہ یونیفارم کی پابندی اس لیے لازم کی تاکہ جس کالج میں یونیفارم مقر ر نہ ہےوہاں بھی طلباء شائستہ لباس پہن کر حاضر ہوں۔سوال یہ ہے کہ حجاب سے شائستہ لباس اور کیا ہوسکتا ہے؟کیا کسی صوبے کا وزیر تعلیم اتنا بڑا جاہل ہوسکتا ہے کہ جو حجاب کے حق میں احتجاج پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کے بجائے انتہائی سخت تیور اختیار کرتے ہوئے کہہ دے کہ حکومت کی طرف سے یونیفارم کے بارے میں جو سرکیولر جاری کیا گیاہے،اس پر تمام تعلیمی اداروں کو عمل کرنا لازمی ہے ۔ ان کے مطابق حکومت کی طرف سے بہت پہلے ہی یہ حکم صادر کردیا گیاہے کہ اسکولوں اورکالجوں میں یونیفارم کے بغیر داخلہ نہیں دیا جائے گا-اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی- کل تک سخت کارروائی کی دھمکی دینے والے آج ہاتھ جوڑ کر امن و امان کی دہائی سے رہے ہیں ۔

وزیر تعلیم نے حجاب کے بجائے تعلیم پر توجہ دینے کاجو مشورہ دیا ہے اس پر بی جے پی کو عمل کرنا چاہیے جو بات کا بتنگڑ بنارہی ہے۔یہ حکمنامہ اگر ایجوکیشن ایکٹ1983 کے مطابق ہے اور اس کے بعد چالیس سال سے طالبات حجاب پہن کر آتی تھیں اس لیے اب کیا مشکل آگئی ؟ گنیش کے مطابق مسلم بچیوں کوکوئی مشتعل کررہا یہ بات درست ہےکہ زعفرانی غنڈے انہیں اشتعال دلارہے ہیں اور خود ہندو طالبات بھی ان کے ساتھ نہیں ہیں ۔ وہ کہتے ہیں اڈپی کے سرکاری پی یو کالج کے 92مسلم طالبات میں سے صرف6طالبات حجاب پہن کر آتی ہیں تو اس سے ان کیا تکلیف ہے لیکن اب اس کالج سیکڑوں طلباء بی جے پی کی مہربانی سے حجاب کے حق میں مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس لیے راہل گاندھی کے بیان پر تلملانے کے بجائے انہیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ اٹلی اور فرانس سمیت کئی اسلامی ممالک میں حجاب پر پابندی ہوسکتی ہے لیکن وہاں سے زیادہ مسلمان اکیلے کرناٹک میں بستے ہیں اور ہندوستان کی کیا بات ہے۔

حکومت کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے صورتحال کو اس قدر پیچیدہ کردیا کہ یہ تنازع اڈپی اور کندا پور سے نکل کر ریاست کے 10 اضلاع میں پھیل گیا۔ اس کے ردعمل میں زعفرانی بدمعاش شال پہن کر میدان میں اترے تو انہیں بھی روک کر انتظامیہ نے اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن زعفرانیوں کے خلاف دلت طلباء نے نیلا رومال ڈال کر مسلم طالبات کو حجاب پہن کر کلاسوں میں آنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔یہ دلت طلبا ء جئے شری رام کے جواب میں نیلا گمچھا پہن کر جے بھیم کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے ۔ چہار جانب سے دباو آیا توپہلے کچھ کالجوں نے تعطیل کا اعلان کیا اوراب تو سرکار نے پورے صوبے اسکول اور کالج تین دن کے لیے بند کردیئے گئے ۔ گنیش کے اندر اگر اتنی اکڑتھی تو اسے بتانا چاہیے کہ تعلیمی ادارے کیوں بند کرنے پڑے؟ بی جے پی والے مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک ہمیشہ بے اثر رہتا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ لوگ سال بھر کسانوں کے ہاتھوں رسوا ہونے کے بعد تھوک کر چاٹتے ہیں۔

شاہین باغ کی تحریک کے بعد پھر ایک بار یہ حکومت رسوائی کا سامنا کررہی ہے ۔ یہ معاملہ جب کالج کیمپس سے نکل کر سڑکوں پر آیا تو بنگلورو، چامراج پیٹ ،ہاسن ، بلگاوی، میسور اور ریاستی کے دیگر مقامات پر حجاب کی حمایت میں مسلم خواتین کی طرف سے مظاہرے ہونے لگ۔ ان کو دلت اور دیگر ترقی پسند تنظیموں کی طرف سے حمایت ملنے لگی ۔ اس طرح سنگھی دو نوں جانب سے گھر گئے اور جھنجھلاہٹ میں شموگا کے اندر انہوں نے ایک کالج کے اوپر سے ترنگا پرچم اتار کر بھگوا جھنڈا لہرا دیا نیز جئے شری رام کے نعرے لگانے لگے ۔ یہ وہی دھرم سنسد والی غلطی ہے جس کے سبب سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کو دامن جھٹکنا پڑا۔ ان لوگوں کے سر پر جہاں ایک طرف حکومت کا ہاتھ ہے وہیں عدالت کی تلوار بھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں وہ تلوار پھول نہ بن جائے۔ عوامی سطح پر احتجاج کے بعد اب سبھی کی نظریں عدالت کے فیصلہ پر ٹکی ہوئی ہیں ۔ عوام کو عدالت سے توقع ہے کہ وہ طالبات کو حجاب کے ساتھ کلاسس میں حاضر ہونے کی راحت دے گی اور ریاستی حکومت کی طرف سے جاری حجاب پر پابندی کے حکم کو مسترد کردیا جائے گا۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1236538 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.