آزاد کشمیر کے یتیم بچے کی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں گرفتاری۔۔۔۔۔ایک سوال

تصویر کے دو رخ ہیں دونوں ہی بڑے دلچسپ اور دونوں رلانے والے مگر دونوں میں ایک بڑا فرق ایک بڑا تضاد وہی جس کی مثال یہ دی جاتی ہے کہ غریب تو ماں کا کھسم۔۔ اور امیر تو فلاں کے ابو جی بندر بانٹ برصغیر کی ہوئی سکا خان بھائی سے جدا ہوا ستر سال بعد کرتاپور راہ داری کھو لی گئی بھائی ملے ہلچل مچائی گئی پھر ہفتہ عشرہ بھی نہ گزرا تھا مدینہ کی ریاست کے خلیفہ نے ہنگامی طور ایک گھنٹے میں ویزہ جاری کروا کر سکا خان کو پاکستان بلوا لیا بڑی نیکی کی بہت اچھا ہوا برسوں کے جدا مل بھیٹیں گے دکھ درد سناہیں گے مگر اس ہی عرصہ میرے مادر وطن جموں کشمیر میں ایک ملاپ کی مانگ ہو رہی ہے مگر مدینہ کی ریاست خاموش ہے۔۔۔ سوال خاموشی پر نہیں سوال قول وفعل میں تضاد پر ہے جب اسلام آ باد نے معاہدہ کر اچی اور ایکٹ 74کر کے اکتوبر 47کی انقلابی حکومت کے اختیار ات خود لے رکھے ہیں تو پھر کشمیریوں کی وکالت فرض ہو جاتی ہے اس فرض کو پورا کرنا چاہیے اور پچیس نومبر کو پونچھ سیز فائر لاہن سے بھارت کی حراست میں چلے جانے والے معصوم بچے عبدالصمد بنارس کی رہائی کے لیے آ واز اٹھانی چاہیے اگر مدینہ کی ریاست کی کوئی مجبوری ہے تو پھر کشمیریوں کی وکالت سے دست برداری کر کے چوبیس اکتوبر والی حکومت کی حثیت بحال کر دینی چاہیے تاکہ کشمیری اپنا مقدمہ خود دنیا کے سامنے پیش کر سکیں معاہدہ کر اچی اور ایکٹ 74کی حمایت کرنے والے سیاست کاروں کو نہیں ادراک کہ ان وجوہات کا خمیازہ آ ج کشمیری کتنا بھگت رہے ہیں معصوم عبدالصمد کی کہانی بھی درد ناک ہے اس کی ماں بچپن میں فوت ہو چلیں اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی اور نئی اہلیہ سمیت لاہور جا کر رہنے لگا جہاں سیکورٹی کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے عبدالصمد کو نانی نے پالا پیار سے سب اس کو عصمد کہنے لگے وہ بڑا ہونا شروع ہوا اب مڈل کلاس کا طالب علم تھا اس کا ننھیال سیز فاہر کے تتری نوٹ گاوں میں ہے جہاں ایک گراونڈ میں بچے کھلیتے ہیں وہ بھی ان کے ساتھ کھیلتا ہے نانی نے اس کو اس دن ایک کیری میں اپنی خالہ کے ہاں بھجوایا جو قریب ہی رہتی ہیں اس علاقہ میں دریا پونچھ بہتا ہے جس کے پار بھی کچھ گھر اہل آزادکشمیر کے ہیں تو ایک دو جگہوں بھارتی فوج کے مورچے ا س پار قائم ہیں ایک عجیب سی تقسیم ہے شاعر نے اسی وجہ کہا تھا۔۔۔۔کھینچی ہوی ہے دل پر میرے خونی لکیر۔۔۔میرے کشمیر اس ایک جگہ سے چند سال پہلے بھارتی فوجی دن دیہاڑے اس طرف داخل ہوئے ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر کو یرغمال بنا کر لے گے اس کو شہید کر کے جب تصاویر انٹر نیٹ پر ڈالیں تب انکشاف سامنے آ یا کہ بھارتی فوجی کیا واردات کر گے ہیڈ ماسٹر نزیر شاہ کی لاش واپس بھی نہ دی یہیں سے عباس پور کی دو بچیوں کی بھارت نے دو دن بعد واپسی کی اور ایک بھینس بھی دو ماہ بعد واپس کی مگر سوا مہینہ گزرا عصمد پر خاموشی ہے سنا ہے اس کو پونچھ پولیس کے حوالہ کر دیا گیا پاک وہند میں پولیس ایک نماہشی کردار ہے اصل قوت فوج ہے ننھنے عصمد کی نانی اور نانا جب رو رو کر نڈھال ہیں کیوں وزارت خارجہ نے سوا مہینہ گزرنے کے بعد بھی اس گرفتاری پر احتجاج نوٹ نہیں کروایا بہت بلند بانگ دعوے کرنے والے آزادکشمیر کے وزیر اعظم نے حکومت پاکستان کے آ گے یہ عرضی کیوں نہیں رکھی کیوں نیازی اپنے آ بائی حلقہ میں اس گھرانے سے دلجوئی کرنے اس گھر نہیں گے کیوں صدر ریاست بیرسٹر سلطان نے روز ملاقاتی سفیروں اور عالمی نماہندگان کے آ گے اس گرفتاری پر اپنا کردار ادا کرنے کی مانگ نہیں کی یورپ جا کر سیاسی پناہ لینے والیاور فوٹو سیشن کرنے والے کشمیر یوں نے کیوں اس بچے کی رہائی کے لیے احتجاج نہیں کیا یعقوب خان چودھری یاسین راجہ فاروق حیدر شاہ غلام قادر سعید یوسف حسن ابراہیم عتیق خان ڈاکٹر خالد محمود عبدالرشید ترابی کیوں اپنی جماعتوں اور ووٹران کو لیکر باہر نہیں نکلتے قوم پرست گروپ دھرنے دینے تتری نوٹ کا انتخاب کرتے ہیں کیوں ایک بڑا تاریخی دھرنا اس معصوم کی رہائی کے لیے یہاں نہیں دے رہے کیا پیارے اور آ خری پیغمبر کا قول کسی کو بھی نہیں یاد رہا میں اور یتیم کا متکفل روز قیامت ایک ساتھ ہونگے اپنے گھر میں بیمار ی لگ جانے سرکار کے پیسوں سے جا کر یورپ علاج کروانے والے دو قومی نظریے کے ترجمان کیسے اور کب ادراک کریں گے کہ اولاد کتنی پیاری ہوتی ہے اور عصمد کی نانی اور نانا کو تو وہ یتیم اولاد سے زیادہ پیارا تھا شاید وہ بھی اس کو ایسے چاہتے ہوں جس طرح دنیا اور آ خرت کا سردار اپنے نواسوں حسن اور حسین کو چا رہا تھا غلطی اور بھول چوک انسان سے ہوتی ہے عصمد انسان تھا مگر بچہ بھی تو ہے اقوام متحدہ کا چارٹرڈ ہر کشمیری کو اجازت دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی دستاویز آ ر پار جائے ہاں یہ اجازت بھی ہے کہ ہر کشمیری بندوق بھی اٹھا سکتا ہے عبدالصمد نے بندوق نہیں اٹھائی وہ پار بھی نہیں جا رہا تھا وہ راستہ بھول گیا اور قریب موجود بھارتی فوجی نے عسکریت پسند جان کر دبوچ لیا۔۔۔. اب بھارتی ریاست بھی جان چکی کہ وہ عسکریت پسند نہیں ایک عام اور غریب خاندان کا سہارا ہے جہاں شکوہ کشمیری قیادت کی بے حسی اور عدم دلچسپی کا ہے جہاں شکوہ جبری طور پر وکیل بنی پڑوسی ریاست سے ہے وہاں سیکولر ازم کا لبادھا اوڈھے فاشسٹ بھارتی ریاست کے بچگانہ کردار پر لب کشائی کرتے شرم آ رہئی ہے کہ کتنی بڑی ریاست اور بچوں سے خاہف جدید ٹیکنالوجی کی حامل ریاست ایک نہتے بچے سے خاہف کیا یہ سیکولر ازم ہے یا انسان دشمن کردار ارون دھتی رائے سمیت کوئی ایک انسان دوست بھارتی اگر آ واز اٹھا لے تو ممکن ہے بھارت اس معصوم بچے کو رہا کردے بھارت کو ارونا چل سے چین داخل ہو نے والے بچے کے درد کی طرح اس درد کو محسوس کر نا ہوگا جس کو بھارت نے ایک ہفتہ میں چین سے واپس سفارتی رابطے کر کے منگوایالیکن گاندھی کی تعلیم اب بھارت جو بھول چکا ہے وہ کیسے عصمد کے درد کو سھمجہ سکے گاکرتار پور راہ داری کھول کر منقسم خاندان ملانے والے ٹیٹوال نیلم نوشہرہ راجوری سکردو لداخ تتری نوٹ اوڑی سماہنی کھوئیرٹہ نکیال سمیت منقسم جموں کشمیر کے قدرتی راستوں پر قائم راہ داریاں کھولیں کیا ان منقسم خاندانوں میں دل نہیں جو جدائی میں تڑپ رہے ہیں۔۔کاش اور کچھ نہیں ہوتا تو یہی ہو جائے برطانیہ میں بھیٹی سابق خاتون اول اپنے دونوں بچوں کو روک دے کہ وہ کھبی مدینہ کی ریاست کے خلیفہ سے نہیں مل سکتے کاش راولپنڈی میں بھیٹنے والوں کی اولاد بھی آ سٹریلیا کے جیسے جزیرے خرید کر وہاں چلی جائے اور ان طاقتوروں کو وہاں جانے کی اجازت نہ ملے کاش کشمیر کے ہر سیاست کار کے گھر سے ایک پیارا سیز فاہر لاہن پر چہل قدمی کو جائے یا پوائنٹ سکورنگ کے لیے کسی اظہار یک جہتی کے ناٹک میں سیز فائر لاہن جائے اور بھارتی فوجی انہیں پکڑ لے جاہیں تب جا کر ہر ایک سے میں دکھ درد پر موقف جانوں تب ان کو انداز ہ ہو کہ کھسم اور خاوند ایک ہی رشتے کے دو نام ہیں تب ان کو اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے مگر۔۔۔۔۔ایسا ہوگا نہیں۔۔۔۔ان کو چھوٹ ہے قیامت تک۔۔۔۔اور ہم کو سزا کہ ایسے اناء پرست ضدی خود غرض مفاد پرست ہم نے قیادت بنا کر مسلط کر رکھے ہیں عبدالصمد بے گناہ ہے معصوم ہے اور بے کس مجبور اور لاچار ہے ۔۔۔۔اس کو اس آ زماہش میں مالک دو جہاں سرخرو کرے گا وہی اس کی حفاظت بھی کرے گا۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔یہ ضرور ہوا اس کی گرفتار ی پر خاموشی نے مجھے ہی نہیں سارے کشمیر کو رابعہ مظفر کے اٹھاے اس بینر کی یاد تازہ کروا دی جو بانوے کے امان صاحب کے مارچ پر وکیل کی فاہرنگ سے سات آ زاد ی پسندوں کی شہادت پر رابعہ مظفر نے اٹھا رکھا تھا۔۔۔۔۔کہ۔۔۔سیز فاہر لاہن. تیرا شکریہ تو نے اپنوں کو ننگا کر دیا. ایسے ہی عبدالصمد نے بھی اپنوں کے ساتھ گھر والوں کو بھی ننگا کر دیا۔ آ زاد لبرل پارٹی کے بانی مرحوم قوم پرست دا توٹ والے چا چا بشیر خان کے ایک شعر کی بھی اہمیت اور بڑھ چلی۔۔۔۔. آ زادی کے سب دعوے لارے اور لپے ہیں۔۔ازادی کے اصل دشمن یہ باوے اور شہزادے ہیں آ ہیے ان باوے او شہزادوں کی مصلحت کا شکار ہم سارے اپنی خاموشی اور بے بسی پر شرمندہ ہو کر خود کو لعنتی قرار دے کر صدق دل سے دعا پر اکتفا کریں کہ عبدالصمد کی فوری رہائی کا قدرت انتظام کرے ہم میں وہ صلاحیت نہیں کہ ہم مسلط قیادت کو ادراک کروا سکیں کہ وہ گیارہ فروری کی طرح ہر محلہ قصبہ شہر دھرنے ریلیاں کرے کہ عوامی دباو سے عبدالصمد کو رہا کروائے۔۔۔۔ویسے بھی اس ساہنسی دور میں یتیم کے لیے کون پاگل ہے جو میدان میں نکلے
 

Asif Ashraf
About the Author: Asif Ashraf Read More Articles by Asif Ashraf: 34 Articles with 21272 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.