جمہوریت کے 72 سال بعد سماجی مساوات کی صورتحال

73سال قبل 26 جنوری 1950 کے دن نافذ ہونے والے آئین کی اہم ضمانتوں میں سے ایک مساوات کا حق ہے۔ دستور کی دفعہ 14 تا 17میں اجتماعی طور پر قانونی مساوات اور غیر امتیازی سلوک کے عام اصول شامل کیے گئے ہیں ۔ دفعہ 14 قانونی مساوات اور مساوی برتاؤ کی ضامن ہے۔ دفعہ 15 میں مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ دفعہ 16 میں ریاست کو محض مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش، جائے سکونت یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر کسی شہری کے خلاف امتیازی سلوک کرنے سے باز رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ نیز پسماندہ طبقوں کے شہریوں کی عوامی خدمات میں مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے ریزرویشن کا اہتمام ہے۔

آئین کی دفعہ 17 میں چھوت چھات کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، چنانچہ اس مقصد کے لیے قانون تحفظ شہری حقوق 1955ء پارلیمنٹ کی توثیق سے نافذ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر قومی آئین کے معمار کا اعزاز ملا کیونکہ دستور ساز اسمبلی صدر تھے ان کا تعلق دلت سماج سے تھا۔ اتفاق سے موجودہ صدرمملکت رام ناتھ کووند کا تعلق بھی اسی سماج سے ہے ۔ انہوں نے امسال یوم جمہوریہ کے موقع پر یاد دہانی فرمائی کہ ،’’ایک جانب آئین کا کافی طویل متن ریاست کے کام کی تفصیلات سے متعلق ہے، البتہ اس کی تمہید اوررہنما اصول جمہوریت، انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کا خلاصہ کرتے ہیں ۔ وہ ایسی بنیاد وضع کرتے ہیں کہ جن پر ہماری جمہوریت قائم ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جو ہماری اجتماعی وراثت کی تشکیل کرتی ہیں‘‘۔ صدر جمہوریہ کے یہ الفاظ قرطاس پراور کلام میں تو خاصے موثر ہیں لیکن زمینی حقائق ضاصے مختلف ہیں ۔ سماجی سطح پر انسانی مساوات کی قلعی کھولنے والے دو واقعات یوم جمہوریہ کے صرف ایک دن قبل اخبارات کی زینت بنے اور انہوں نے بلکل متضاد تصویرپیش کردی ۔یہ واقعات 1950 یا1930 کے نہیں بلکہ 25 جنوری 2022 کے دن انڈین ایکسپریس میں شائع ہوئے ۔

پہلا قدرے خوش کن واقعہ راجستھان کے بوندی ضلع میں واقع چھاڈی گاوں کے اندر پیش آیا ۔ یہاں شری رام میگھوال نامی ایک 27؍ سالہ دولہے کو گھوڑی پر سوار ہوکر اپنی بارات میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ شری رام نے سفید شیروانی کے ساتھ ایک تلوار بھی اپنے کندھے سے لٹکا رکھی تھی لیکن وہ اپنی حفاظت پر قادر نہیں تھا ۔ انتظامیہ کو اس کے تحفظ کی خاطر پولس کا ایک لاٹھی بردار دستہ ساتھ کرنا پڑا تھا۔ ان کی نگرانی میں ڈی جے کی دھن پر ناچتے گاتے اور جئے بھیم کے نعرے لگاتے باراتی تقریب گاہ تک پہنچے ۔ وہاں بھی پولس والوں کا دستہ تعینات تھا تاکہ شرانگیزی پر نظر رکھ سکے ۔ یہ سارا تام جھام محض اس لیے تھا کیونکہ رام میگھوال گھوڑی پر چڑھ کر منڈپ میں آیا تھا۔ اپنی شادی کے موقع پر اس نے فخر کے ساتھ اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اس سڑک پر گھوڑی پر سوار ہوکر بارات میں جانے والاوہ پہلا د لت ہے۔

صدر مملکت نے اپنے خطاب میں جس اجتماعی وراثت کا ذکر کیا اسی نے پچھلے پانچ ہزار سال سے دلتوں کو گھوڑی پر چڑھ کر بارات میں جانے سے محروم کردیا ۔ بوندی گرام پنچایت میں ٹھیکے پر کام کرنے والے رام میگھوال کو توقع ہے کہ اس کے بارات میں گھوڑی پر سوار ہونے سے’’دلت نیچے ہیں تو نیچے ہی رہنے دو‘ والی ذہنیت میں تبدیلی آئے گی ۔ دارالخلافہ دہلی سے متصل صوبہ راجستھان میں ’گھوڑی پہ ہوکے سوار‘ بارات میں جانے کا فیصلہ خود شری رام نے نہیں کیا کیونکہ اگر وہ ایسی جرأت کرتا تو پولس فورس اس کے ساتھ نہیں ہوتی اور انتظامیہ کی پشت پناہی کے بغیر دروپدی کے ساتھ اس شادی کھٹائی میں پڑ جاتی ۔ وہ تو بھلا ہو ضلع انتظامیہ اور بوندی پولس کا کہ اس نے ’مساوات مہم ‘ کے تحت دلتوں کو گھوڑی پر سوار ہوکر روکنے کی مخالفت کا سرکاری فیصلہ کیا۔ راجستھان کے اندر نسلی تفریق و امتیاز کا یہ عالم ہے کہ نام نہاد اونچی ذات کے لوگ دلتوں کو اس کی اجازت نہیں دیتے۔
پولس کے مطابق پچھلے دس سالوں میں دلتوں کو گھوڑے پر بارات نکالنے سے روکنے کے خلاف 76؍ شکایات درج ہوئی ہیں اور کتنی نہیں ہوسکیں ان کی تو کوئی گنتی ہی نہیں ہے۔ بوندی کے ایس پی جئے یادو نے بتایا کہ اس ایک ضلع میں 30 ایسے گاوں جہاں لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے دلتوں کو کبھی بھی یہ موقع نصیب نہیں ہوا۔ اس ظلم وزیادتی کو ختم کرنے کی خاطر گاوں کے سرپنچ، پولس ، گرام رکشک اور پولس متر پر مشتمل مساوات کمیٹی تشکیل دے کر مذکورہ مہم شروع کی گئی ۔ مساوات مہم کے تحت دلتوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا گیا اور دیگر طبقات پر یہ واضح کردیا گیا کہ اگر ان لوگوں نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو انتظامیہ کی جانب سے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ شری رام کی بارات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مختلف پولس تھانوں سے 60عدد پولس والوں کو بلا یا گیا اور خود ایس اپی اورضلع کے کلکٹر کو بارات میں شریک ہونا پڑا تب جاکر یہ معمولی سا کام ہوسکا۔
اس قدر سرکاری اہتمام کے بعد کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ مخالفت کی ہمت کرتا ۔ ایس پی نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا انہیں تمام طبقات کا مثبت ردعمل ملا۔ یہ دیگر ذات کے لوگوں کی مجبوری تھی یا ان کے دل بدل گئے یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ دروپدی کے والد بابولا ل میگھوال نے انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا پہلےخوف کے مارے دلت گھوڑے کی سواری نہیں کرتے تھے لیکن ان کے داماد نے اس روایت کو بدل دیا ہے۔ رام میگھوال نے کہا کہ اب دلت سماج کےاور بھی دولہے گھوڑے پر بارات نکالیں گے کیونکہ سماج بدل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کے لیے ایسا سخت حفاظت کا انتظام نہیں ہوگا تو یہ کیسے ممکن ہوسکےگا؟ نیز سبھی کے لیے ایسا انتظام کرنا سرکار دربار کے لیے کتنا مشکل ہوگا؟ راجستھان کا پڑوسی صوبہ مدھیہ پردیش ہے اور دونوں کی زبان و تہذیب میں بہت مماثلت ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ایک ریاست میں گاندھی کو ماننے والی کانگریس سرکار ہے اور دوسرے میں ان کے قاتل گوڈسے کی دلدادہ بی جے پی حکومت برسرِ اقتدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بوندی ضلع میں ممکن ہوا وہ ایم پی کے ساگرضلع میں نہیں ہوسکا۔

مدھیہ پردیش میں بوندا گاوں کےگنیاری محلے میں پہلی بار ایک دلت نوجوان نے ازخود انتظامیہ کی مدد کے بغیر گھوڑے پر سوار ہوکر بارات نکالنے کا فیصلہ کیا تو اسے لودھی ٹھاکر برداشت نہیں کرسکے اور تاو میں آکر حملہ کردیا۔ اس سانحہ کے بعد بوندا تھانے میں ساگر پولس نے تعزیراتِ ہند کی 6؍دفعات (بشمول دنگا فساد )کے تحت 8 لوگوں پر نام بنام اور 15 بے نام افراد کے خلاف شکایت درج کرلی ۔ ان میں سے 6؍ ملزمین کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی۔ اس شادی کے دولہا دلیپ اہیروار کو پہلے سے حملے کا اندیشہ تھا اس لیے انہوں نے پولس اور بھیم آرمی سے تحفظ طلب کیا تھا لیکن وہ کوشش کارگر نہیں ہوئی ۔دلیپ اہیروار کسی طرح گھڑے پر بیٹھ کر اپنی دولہن کے گھر تو پہنچ گیا مگر بارات کے پانچ گھنٹے بعد ٹھاکروں نےاس کی سسرال کے گھر پر حملہ کردیا اور اہل خانہ کو بری طرح زدوکوب کیا۔

اس حملے کی تفصیل بتاتے ہوئے 25؍سالہ پرمود اہیروار نے کہا کہ ساڑھے آٹھ بجے رات بجلی کے جاتے ہی سو سے زیادہ لوگ لاٹھیوں کے ساتھ گھر میں گھس گئے اور خواتین سمیت سب کو مارنے پیٹنے لگے ۔ انہوں نے 60 سال کی بوڑھی خاتون کو بھی نہیں بخشا۔ ان لوگوں نے وہاں موجود منڈپ اور گاڑی کو توڑ پھوڑ دیا۔ دولہے کے والد دیویندر اہیروار نے بتایا کہ حملے کے دوسرے دن بھی ٹھاکروں نے آکر دھمکی دی کہ اہیروار برادری کا فرد آئندہ گھوڑے کی سواری نہیں کرے گا۔ اس کے باوجود حملہ آوروں کو بچانے کی خاطرپولس ان پر دلت مظالم کی سخت دفع لگانے کے بجائے دو خاندانوں کے درمیان بجلی کے تار کو لے کر ہونے والا تصادم بتا رہی ہے۔ دیویندر اہیروار کی شکایت کے پیش نظر اس بات تفتیش کی جانی چاہیے کہ بجلی اپنے آپ گئی تھی یا قصداً حملہ کرنے کی خاطر اسے کاٹا گیا تھا ۔ اس لیے کہ اجالے میں حملہ ہوتا تو لوگ ویڈیو بنالیتے اور ان کے خلاف ثبوت مہیا ہوجاتے ۔ اس لیے اتفاق سے بجلی کا چلا جانا اور اس کا فائدہ اٹھاکر حملہ کردینا یہ بات آسانی سے گلے نہیں اترتی۔

پولس کا بیان ہے کہ ٹھاکروں نے بجلی کے تار پر اعتراض کیا اور اسی لیے دلیپ اہیر وار کے گھر پر حملہ کیا تھا۔ اس شکایت میں کہیں بھی گھوڑی پر سواری اور اس کے تعلق سے دی جانے والی دھمکی کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس معلوم ہوتا ہے کہ شیوراج چو ہان کے رویہ اور یوگی ادیتیہ ناتھ کے طریقۂ کار میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ یوگی نے ہاتھرس میں جس طرح دلت خاتون کے خلاف ٹھاکروں کو بچانے کی کوشش کی وہی کام چوہان ساگر میں کررہے ہیں۔ یہ مرکزی وزیر پرہلاد پٹیل کا علاقہ انہوں نے دونوں خاندانوں سے مل کر انہیں انصاف کا یقین دلایا ۔ سوال یہ ہے حملہ آور ٹھاکروں کو انصاف دلانے کا مطلب انہیں چھڑانے کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ آئین نافذ ہوجانے کے 73؍ سال بھی ملک میں جاری نسلی مظالم کے جاری و ساری رہنے کے پیچھے یہی سیاسی پشت پناہی کارفرما ہے۔




 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1236217 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.