اسلامی نظام عدل و بضاء کی خصوصیات

اسالم میں عدل کا مفہوم]وضع الشی فی محلہ[ کسی چیز کو اسکا اصل مقام عطا کرنا۔اس رو سے نہ صرف انسانوں کو بلکہ کاینات کی ہر چیزکواسکے مقام ومنصب پررکھنااسکی حیثیت کوتسلیم کرنا جوہللا نےعطافرمای ہے

]امت وسط اورقیام عدل [۔۔۔۔ ۔ انبیا علیہم السالم کی بعثت کا اہم مقصدعدل وانصاف پر مبنی انسانی معاشرے کا قیام ہے اسطرح ہللا تعالی نے اس کاینات میں اعتدال وتوازن کے قیام کیلیے امت مسلمہ کوامت وسط قرار دیا امت وسط کی تعریف اسطرح کی گی ]متصفۃ بالخصال الحمیدۃ خیاراعدوال مزکین بالعلم والعمل[یعنی ایسی امت جو اخالق حمیدہ سے متصف ہوسراپا خیر کا پیکر ہوعدل وانصاف کو اچھی طرح قایم کرنے والی ہواور پوری طرح علم و عمل سے اراستہ ہو۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابو ؒی نےالسعودمحمد بن محمدالعماد رسولصلى الله عليه وسلم کےامت کے نظام تربیت کوپیش نظر رکھ کر یہ تعریف پیش کی ہے۔رسولصلى الله عليه وسلم کے نظام تربیت میں علم کو ہرچیزپر فوقیت حاصل تھی۔قران کریم کی اصطالح میں انسان کے تمام اختیاری افعال کا وحی الہی کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جانا عمل صالح کہالتا ہے لہذا عمل صالح پر عمل پیرا ہونے والے لوگ ہی زندگی کے تمام معامالت میں عدل بھی قایم کرسکتے ہیں اور منصفانہ توازن بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔
] اسالمی عدل و قضاکی بنیاد قانونی مساوات پر ہے[۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم نے رسولصلى الله عليه وسلمکو خطاب کرتے ہوے فرمایا قل امرربی بالقسط ] االعراف۔ ۲۹ ] کہہ دیجیے میرے رب نے مجھے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیزفرمایا۔ وامرت العدل بینکما ]شوری ۱۵ ] مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان عدل کروں۔
وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط ان ہللا یحب المقسطین]المایدہ ۔ ۴۲] اگر انکے درمیان فیصلہ کرنا چاہو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک ہللا انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ] جامعیت [ ۔۔۔۔۔۔۔ اسالمی عدل و قضا میں اپنے پراے ،مسلم و غیرمسلم میں کوی فرق نہی۔ اسی طرح اپس کے امتیازات رکاوٹ نہ بنیں ۔ رسولصلى الله عليه وسلم کے ساتھ ہر مومن کو بھی ہر صورت میں عدل و انصاف کو قایم رکھنے کا حکم دیا ہے۔۔۔۔ یایھاالذین امنوا کونوا بالقسط وال یجرمنکم شنان قوم علی ان ال تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی وا تقوا ہللا ان ہللآٌقوامین ہلل شھدآ خبیر بما تعملون۔]المایدہ ۸ ]اے ایمان والو۔ہللا کے خاطر خوب حق وانصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاوا ور کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں عدل کرنے سے نہ روکے عدل کرو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے ہللا کا تقوی اختیار کرویقین جانوہللا تمہارے اعمال سے زیادہ باخبر ہے
عدل وقضا کے باب میں یہ بہت جامع آیت ہے اسالم میں عدل کا قیام فی نفسہ مطلوب ہے لہذا اسکے قیام میں نہ جغرافیای حدود کو حایل ہونا چاہیےنہ ہی ممالک واقوام کے فرق کوحتی کہ اگر دشمن سےمقابلہ ہو تو بھی عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہی چھوڑاجا سکتا سورہ النسا ایت نمبر ۱۳۵میں اہل ایمان کوحکم دیا کہ وہ عدل کے خاطر سچی گواہی دیں اسکی زد خواہ خود اپنے اوپر پڑتی ہو یا والدین و اقربا پر۔
قیام عدل و قضا کا دایرہ بہت وسیع و ہمہ گیر ہے باہمی لین دین کے معامالت ہوں یا نظم مملکت وانتظام، زبانی بات چیت ہو یا تحریر و دستاویز کی شکل،عدل کے تقاضوں کو ہر حال میں پورا کرنا ضروری ہے۔۔۔چند متعلقہ آیات مندرجہ ذیل ہیں
واوفواالکیل والمیزان بالقسط ال نکلف نفسا اال وسعھا واذا قلتم فاعدلواولوکان ذاقربی وبعھد ہللا اوفواذلکم وصکم بہ لعلکم تذکرون۔]االنعام ۱۵۲ ]
ناپ تول پورا کیا کروانصاف کے ساتھ ہم کسی کو بھی اسکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہی دیتےاور جب بات کہوتو بھی عدل و انصاف سے کہوخواہ وہ تمہارے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ہللا سے جو عہد کیا ہےاسے پورا کروان باتوں کاہللا نےتمہیں حکم دیا ہےتاکہ تم نصیحت حاصل کرو
]اسالمی نظام عدل و قضا بدلہ لینے کے اداب متعین کرتا ہے[۔۔۔۔۔۔۔ قران کریم میں ارشاد ہے وان عاقبتم فعاقبوابمثل ماعوقبتم بہ ولءن صبرتم لھو خیر للصبرین۔۔]سورۃالنحل[ اگر حسب موقع بدلہ لینا ہو اے مسلمانوں تو اسی قدر بدلہ لو جتنی زیادتی تم پر کی گیء ہے اور اگر تم صبر کرو توزیادہ بہتر ہے
]اسالمی نظام عدل وقضا تحریری دستاویزات کا حکم دیتا ہے [ ۔۔۔۔۔۔۔ ولیکتب بینکم کاتب بالعدل]البقرۃ ۲۸۲ ]اور لکھنے والے کو چاہیے کہ عدل وانصاف سے لکھے اسالمی نظام عدل وقضا با صالحیت افراد کو عہدے،منصب سپرد کرتا ہے۔۔۔۔۔ان ہللا یامرکم ان تودوا االمانت الی اھلھاواذاحکمتم بین الناس ان تحکموابالعدل ان ہللا کان سمیعا بصیرا]النساء۔۵۸ ]
ہللا تعالی نے اس ایت میں امانتیں ،مناصب ،عہدےاور وہ ذمہ داریاں بھی شامل کی ہیں جن پر مملکت اور معاشرے کانظم ونسق موقوف ہے چنانچہ امانت داری کا تقاضایہ ہے کہ سرکاری،نیم سرکاری اور غیر سرکاری اجتماعی اداروں میں عہدے اور منصب ایسے لوگوں کے سپرد کیے جاءیں جو ان عہدوں کیلیے بہترین قابلیت اور صالحیت رکھتے ہوں ۔ ]اسالمی نظام عدل وقضامیں شہادت کا معیار[۔۔۔۔۔۔۔ واشھدوا ذوی عدل منکم واقیمواالشھادۃ ہلل ذلکم یوعظ بہ من کان یومن باہلل والیوم االخر ومن یتق ہللا یجعل لہ مخرجا۔]الطالق۲ ]
اپنے لوگوں میں دوعادل لوگوں کو گواہ بناواورہللا کی خاطر ٹھیک ٹھیک گواہی دو ان باتوں کی نصیحت ان لوگوں کو کی جاتی ہے ؑوی صورت پیدا فرمادیتاجو ہللا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو ہللا کا تقوی اختیار کرتا ہے ہللا اسکے لیے نجات کی ک ہے
]علمی وفکری استحکام، اسالمی عدل وقضا کا خاصہ ہے[۔۔۔ ۔۔۔۔انسانی معاشرے کی مستحکم بنیادوں پرتنظیم کے لیے صرف احکام و قوانین کا نفاذ اور عدلیہ کا قیام ہی کافی نہی بلکہ لوگوں کےعلمی وفکری رویہ کو بہتر بنانااور انسانی رویہ میں مثبت تعمیری اور تخلیقی صالحیتوں کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے رسولصلى الله عليه وسلم نے یہ فریضہ اس طرح انجام دیا کہ لوگوں کی فکری اصالح کے اسالم کے بنیادی عقاید کی اسطرح تعلیم وتربیت فرمای کہ عقیدہ کا مفہوم لوگوں کے دل و دماغ میں راسخ ہوگیا انسان،کاینات اور کاینات کی ہر چیز کے بارے میں انکا نقطہ نگاہ بدل گیا۔قران کریم کا احکام بیان کرنے کا اسلوب یہ ہے کہ وہ عملی احکام بیان کرنے کے بعدعقیدہ ایمان کا ضرور ذکر کرتا ہے]واشھدوا ذوی عدل منکم[ پہال حکم دو عادل لوگوں کو گواہ بناو اور دوسرا حکم شھادت کا صحیح نظام خالص ہللا کی رضا کے لیے قایم کرو اسکے بعد کہا گیا کہ نصیحت اور حکم انہی کے لیے ہے جوہللا اور یوم اخرت پراہمان رکھتے ہیں۔سورہ ال عمران میں ایت ربا کو بیان کرتے ہوےاس سے اگلی ایت میں اخرت اور جہنم کا ذکر کیا۔سورہ ال عمران ایت نمبر ۳۲۔۳۳ میں ہللا اوراسکے رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس سے اگلی ایت میں جنت اور وہاں کی نعمتوں کا ذکر کیا ۔اسطرح احکام پر عمل کرنے کےلیے ایک زبردست محرک بھی پیدا ہوجاتا ہے اور صاحب ایمان کا ہرعمل تقرب الی ہللا کا زریعہ بن جاتا ہے۔
]اسالمی نظام عدل قضاء میں قانون اور عفو کا حسین امتزاج[۔۔۔۔۔معاشرے میں شریف النفس لوگ بھی ہوتے ہیں اور سرکش عادی مجرم بھی کہیں معاف کردینا سزا دینے سے بہےر ہوتا ہے اور کہیں معافی مجرم کو اور دلیر بنادیتی ہے اسی طرح ثبوت جرم کے بعد مجرم پر ترس کھانے کو بھی معیوب قرار دیا ہے ۔عدل اور عفو کے مواقع الگ ہیں عفو نجی معاملے میں اور قانون کا اطالق الگو ہوگا جب معاملہ عدالت میں چال جاے۔ پھر مدعی معاف کرنے کا اختیار نہی رکھتا۔دور نبوی کا مشہور واقعہ کہ ایک صحابی مسجد مینسوے ہوے تھے کہ انکی چادر چرالی گی صحابی جاگے تو معاملہ نبیصلى الله عليه وسلم کے پاس پیش ہواآپصلى الله عليه وسلمنی ملزم کے اعتراف کے بعد قطع ید کا حکم دیا ۔مدعی کہنے لگا میں نے اپنے بھای کو معاف کیا آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا میرے پاس آنے سی پہلے معافی کی گنجایش تھی اب معاملہ مدعی کے اختیار میں نہی۔]ابو داود[۔
]تفقہ فی الدین اور قانونی فراست [۔۔۔۔۔۔۔ عدل انصاف کے قیام میں قانونی فہم وفراست کو بڑی اہمیت حاصل ہےرسولصلى الله عليه وسلم نے ہمیشہ ایسے لوگوں کا انتخاب فرمایاجن میں قانون کے فہم اوراستنباط واستدالل کی خداداد صالحیت تھی آپ نے انکی صالحیتوں کواجاگرکرنے کے لیے مزید انکی تربیت فرمای ۔قران وسنت دونوں ہی ایسے لوگوں کی صالحیت کو ابھارتے ہیں۔
فلوال نفرمن کل فرقۃ منھم طا ا فی الدین ولینذروا قومھم اذارجعواالیھم لعلھم یحذرون،]سورہ التوبہ ۔۱۲۲ْٓٓٔ ]یفۃ لیتفقھو
یہ ایت مبارکہ نہ صرف یہ کہ قانونی فھم وبصیرت پیدا کرنے کے لیے آمادہ کر رہی بلکہ دین کے مجموعی فہم اور اسکے دایرے میں رہ کرقانون کی بصیرت اور استدالل و استنباط کی صالحیت پیدا کرنے پربہت موثر اسلوب میں ابھارہی ہے۔اسی طرح حدیث مبارکہ ک الفاظ وعبارت سے ایک مومن کے قلب ودماغ میں قانون کے فہم وادراک کے لیےکسقدر جذبہ اور ولولہ پیدا ہوگا ۔ ،من یرد ہللا بہ خیرا یفقہ فی الدین،
]قضا کے لیے نظم تربیت [۔۔۔۔۔۔۔ رسولصلى الله عليه وسلم نے صحابہ اکراؓم کوخودقضا کی تربیت دی اور وہ اصولی ہدایات دیں جو انکے منصب قضا کی ذمہ داری میں مشعل راہ ثابت ہوءیں۔
حضرت معازبن جبؓل کو جب یمن میں عہدہ قضا پر مامورفرمایا توانکا باقاعدہ انٹرویو لیا یہ بھی تربیت کا ایک اندازتھا۔پوچھا اے معاز فیصلہ کیسے کروگے؟ عرض کیا ہللا کی کتاب میرے پاس ہے اسکے مطابق ۔پھر دریافت کیا اگر اسمیں نہ ملے؟کہارسولصلى الله عليه وسلمکی سنت سے۔مزیدپوچھا اگر اسمیں نہ ملے؟عرض کیا پھر اجتہاد کروں گااور اس میں کسی صحیح راے تک پہنچنے میں کوی کوتاہی نہی کرونگا۔]۱۱]رسولصلى الله عليه وسلم نے انکے جواب میں انکی صالحیت اوراجتہادی بصیرت کو سراہااور انہے یمن میں عہدہ قضاء پر مامور فرمادیا۔
ؓی کم عمر ہونے کی وجہ سے منصب قبول کرنے سے ہچکچاے حضرت عل کو بھی یمن کے عالقے کا قاضی مقرر کیا حضرت عل
ؓی
تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ان ہللا عزوجل سیھدی قلبک ویثبت لسانک فاذا جلس بین یدیک الخصمان فال تقضی حتی تسمع االخرکما سمعت من االول فانہ احری ان یتبین لک القضاء]۱۲ ]۔رسولصلى الله عليه وسلم کا ایک اندازیہ بھی تھا کہ آپصلى الله عليه وسلمقاضیوں کو تحریری ہدایات دیتے حضرت عالءحضرمی کو بحرین میں قضا ء کی ذمہ داری سونپی انہے تحریری ہدایات بھیجیں اس خط مین وہاں کے لوگوں کے لیے بھی ھدایات تحریر کروایں۔
]عالءحضرمؓی کو تم پر قاضی مقررکیاہے اگر ہللا کا تقوی ختیار کریں تمہارے ساتھ حسن کردار کا مظاہرہ کریں تمہارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہللا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرین تمہیں حکم ہے کہ انکی اطاعت کرنا اگر وہ عدل کے ساتھ فیصلہ کریں انصاف کے ساتھ اموال تقسیم کریں رحم کی درخواست کی جاے تو رحم کریں تو تم انک ا حکم سننا اور انکی بات ماننا]۔۱۳]
]فیصلہ کرنے پر اجر کی بشارت[۔۔۔۔۔منصب قضاءجہاں ایک بھاری ذمہ داری ہے وہاں اجروثواب کا بڑا زریعہ ہے آپ نے دیانت دار قاضی کوبڑے اجر کی بشارت دی ہے حضرت معقل بن یسؓار سے فرمایا۔ ہللا قاضی کےساتھ ہے جب تک وہ جان بوجھ کر غلطی نہ کرے ]۱۴ ]حضرت عمرو بن العاص سے فرمایااگر تم نے صحیح فیصلہ کیا تو دس گنا اجر ہے اگر صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کی پھر غلطی ہوجاے توایک نیکی کا ثواب ضرور ملے گا]۱۵ ]
قاضی غصے میں فیصلہ نہ کرے آپصلى الله عليه وسلم نے فرمایا من ابتلی بالقضاءبین المسلمین فلیعدل بینھم فی لحظۃ واشارتہ ومقعدہ ومجلسہ]۱۶]۔
]اسالمی نظام عدل وقضاء میں عدلیہ کی باالدستی[۔۔۔۔۔۔اسالم نے عدلیہ کی باال دستی کاجوتصور پیش کیا ہےدنیا کی تاریخ اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔حضرت عمؓر نے ایک دفعہ کسی سے گھوڑا خریدا سوار ہوے تو گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرپڑا اور زخمی ٖو ہوگیا آپ نے واپس کرنا چاہا تو مالک راضی نہ ہوا معاملہ قاضی شریح فیصلہ گھوڑے کے مالک کے حق
کی عدالت میں پنہچا ت
میں کردیا اور کہا امیر المومنین جو چیز آپ خرید چکے ہیں وہ آپ کی ہے اگر گھوڑا واپس کرنا ہے تو اصل حالت میں واپس کریں جس میں خریدا تھا اپنے خالف فیصلہ سن کر خفا نہی ہوے بلکہ انہے کوفہ کا منصب قضا سونپ دیتے ہیں ]۱۷ ]قاضی شریح نے حضرت علی ؓ کا مقدمہ اس لیے خارج کردیا کہ اسالم نے غالم کی گواہی مالک کے حق میں اور بیٹے کی گوہی کو باپ کے حق میں قبول نہی کیا حاالنکہ قاضی شریح جانتے تھے کہ مدعی خلیفہ وقت راست باز انسان ہیں اور دونوں گواہ بھی عادل ہیں یہودی اس عدل سے اتنا متاثر ہوا کہ مسلمان ہوگیا ۔عدلیہ کی باالدستی کے دعوے تو عموما حکومت بھی کرتی ہے مگر جب اس عدل کی زد خود پر پڑتی ہے تو کہیں قوانین میں تبدیلی آجاتی ہے اورکہیں ججوں کو معطل کردیا جاتا ہے یا عدلیہ کے حقوق میں کی طرح سے رکاوٹ ڈالی جاتی ہیں ۔
] اسالمی نظام عدل و قضاء میں عدلیہ کا استحکام [۔۔۔۔۔۔ صحابہ اکراؓم خصوصا خلفاے راشدین نے عدلیہ کے استحکام اور عدل سے متعلق اصول وہدایات کو خوب رواج دیا اس سلسلہ میں حضرت عمرؓ کی ہدایات قاضی شریؓح کے نام اور تفصیلی ہدایات ابو موسی اشعرؓی کے نام ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے فقہاء نےاس خط کو عدلیہ کےلیے دستورالعمل قرار دیا ہے انہیں ]۳۴ ]دفعات کہا جاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عدالتی نظم ونسق کی تاریخ میں اب تک اس سے بہتر اصول پیش نہی کیے جاسکے اگر ان اصولوں کی بنیاد پر آج کسی خطے میں عدلیہ کو منظم کیا جاے تو عدل و انصاف پر مبنی ایک مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے مسلمان کی تو شان یہ ہے کہ علوم و فنون کے نےءنےءابواب رقم کرتا ہے دوسری چیز غوروفکر عقل وذہانت کا استعمال واستنباط کی صالحیت اور نتایج و عواقب پر نظررکھنا قران و سنت کی اصطالح میں یہ چیز حکمت کہالتی ہے حکمت کی تعریف ]اصابۃالحق بالعلم والعمل[۔
صحابہ اکرامؓ کا معمول تھا آپ صلى الله عليه وسلم سے جدا ہونے کی صورت میں کسی فیصلے میں نص سےکوی ثبوت نہ ملتا تو اجتہاد کرتے جب آپ سے ملتے تو اپنے معاملے پیش کرتے کبھی اپ انکے اجتہاد کو قبول کرلیتے کبھی رد کردیتے البتہ آپصلى الله عليه وسلمنے صحابہ اکرام کو تجربات میں ہدایات دے رکھی تھیں کہ میرے مشورے کی ضرورت نہی تاکہ ساینسی ترقی کے میدان مین مسلمان دوسری اقوام
سے پیچھے نہ رہ جایں۔ انما انا بشر فاذاامرتکم بشیءمن دینکم فخذوا بہ واذ اامرتکم بشیء من رایء فانما انا بشر فانتم اعلم بامور دنیاکم۔۔۔۔۔امت مسلمہ کویہ اجازت نہ ملنے کی صورت میں مسلمان فوجی اقتصادی اور ساینسی میدان میں دیگر اقوام سےپیچھے رہ جاتے اب مسلمان بہتر نسل کشی،تحقیق و تجربہ،اور جدید اسلحہ کے میدان میں بڑھ چرھ کر حصہ لے سکتا ہے بلکہ اس دوڑ میں محنت اور دماغ لگانا نبیصلى الله عليه وسلم کے حکم کی اطاعت کرنا ہے۔۔
آفاق وانفس میں غور و فکر کے نتیجے میں توحید و معاد کے بے شماردالیل مل جاتے ہیں اس غوروفکر اور عقل فہم سےکچھ ایسی چیزیں بھی دریافت ہوجاتی ہیں جو ایک طرف ہللا کی قدرت و عظمت پر دال ہیں دوسری طرف انسان کی معیشت،تہذیب و تمدن کی ترقی واستحکام کا زریعہ بھی بنتی ہے مسلم معاشرے میں حکمران بھی ایسے ہونے چاہیے جو حکمت و ذہانت کےساتھ جن میں استدالل و استنباط کی صالحیت ہو تا کہ کبھی کو ی صورت پیش آے جو ملک و ملت کی کاروبار مملکت چال سکیں
سالمتی کی ہو تو بال جھجھک حکمرانون کی طرف لو ٹادیں تا کہ وہ تہہ تک پہنچ کر فیصلہ کر سکیں۔ واذا جاء ھم امرمن االمن اوالخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی االولی االمر منھم لعلمہ الزین یستنبطونہ منھم۔]النساء۸۳ ]
]استحکام قانون[۔۔۔۔۔۔اس نظام کی خصوصیت ہے کہ وہ کسی شخص یا سوسایٹی کا بنایا ہواقانون نہی ہے جس میں ترمیم یا تخصیص کا سلسلہ جاری رہے قانون سازی کا اختیار صرف ہللا کو ہے جوقوانین قران وسنت میں موجود ہیں اور ہمیشہ کے لیے مقرر ہیں۔۔۔اسالمی قانون بعض معامالت میں ثابت اور غیر تغیر پزیر قانون ہے اسکا اپنا مزاج ہےمعاشرے کی کوی تبدیلی اس پر اثرانداز نہی ہوسکتی۔مثال حدودو قصاص کی سزاییں وغیرہ۔۔اسی طرح اسالمی قانون کے اندرجامد و متحرک ہونے کی دونوں صفات بیک وقت موجود ہیں مدینہ میں اسالمی ریاست قایم ہونے کے بعدان رسومات کو باقی رکھا گیاجو اسالم کے مزاج اور بنیادی اصولوں کے خالف نہ تھیں۔۔۔ ما فرطنا فی الکتاب من شیء]االنعام۔۳۸ ]رسولصلى الله عليه وسلم کی زندگی علم سیاست،معاشیات،سماجیات،دفاع اور عدالتی نظام سے متعلق مکمل ہدایات کا عملی نمونہ یے۔عہد نبوت میں حقوق ہللا مثال فوجداری قانون اور حقوق العباد مثال نکاح،طالق،قانون وراثت وغیرہ کو عملی صورت ملی۔ ]۲۰]۔۔۔ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیک م نعمتی ورضیت لکم االسالم دینا۔۔۔ المایدہ ۳ ۔ حوالہ جات۔۔۔۔۔۔
۱۔االعراف ۲۹۔
۲۔ شوری ۱۵۔
۳۔ المایدہ۔۴۲۔
۴۔ المایدہ۔۸
۵ ۔ االنعام۔۱۵۲
۶۔البقرہ ۔ ۲۸۲۔
۷۔النساء۔۵۸۔
۸الطالق۔۲۔
۹۔ابوداود۔
۱۰۔التوبہ۔۱۲۲۔
۱۱۔البالزری فتوح البلدان ]تحقیق ایم رضوان[دار الکتب العلمیہ بیروت۱۹۷۸ ص۔ ۸۰۲
۱۲۔الوکیع االخبار القضاء۔
۱۳۔مجاھد االسالم قاسمی ۔اسالمی عدالت ادارہ معارف االسالمی الہور ۱۹۹۱ص ۱۴ ۔۱۵ ۔
۱۴۔احمد بن حنبل۔
۱۵۔احمد بن حنبل۔ص۱۵۔
۱۶۔اقضیۃ الرسول ۔محمد بن فرج المالکی ابن الطالع۔
۱۷۔ العدالۃ ااالجتماعیہ از سید قطب شھید۔اسالم اور معاصر سیاسی و معاشرتی افکار۔
۱۸۔ النساء ۔۸۳۔
۱۹۔االنعام۔۳۸۔

 

Niad Sohail
About the Author: Niad Sohail Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.