برطانیہ جانے کے خواہشمند نوجوانوں سے

عطاالحق قاسمی

جو نوجوان لاکھوں روپے خرچ کرکے اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر ایجنٹوں یا کسی نام نہاد کالج یا یونیورسٹی میں لئے گئے داخلہ کے ذریعہ مستقل قیام کی نیت سے انگلینڈ جانے کے لئے پر تول رہے ہیں، وہ اپنا ارادہ ترک کر دیں، اول تو اس لئے کہ جس نوجوان کے پاس دس بیس لاکھ روپے اس ”جوئے“ میں لگانے کے لئے موجود ہیں اسے چاہئے کہ وہ اس رقم سے پاکستان ہی میں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرے، جتنی محنت اور جتنی ذلت اسے انگلینڈ میں اسٹیبلش ہونے کے لئے اٹھانا پڑے گی، اس سے کہیں کم محنت اور کم ذلت سے پاکستان میں کام چلایا جاسکتا ہے، دوسرے اس لئے کہ اب انہیں وہاں ہر کہیں ”ہاؤس فل“ کا بورڈ لگا ہوا ملے گا، کالجوں اور یونیورسٹیوں والا فراڈ اب بہت زیادہ عام ہو گیا ہے، اس قسم کی یونیورسٹیاں دو دو مرلے کے فلیٹوں میں ”قائم“ ہیں جن کا سری لنکن یا جمیکن”وائس چانسلر“ وہاں بیٹھا گاہکوں کا انتظار کر رہا ہوتا ہے جن سے اس نے ہزاروں پاؤنڈ اینٹھناہوتے ہیں اور اس کے بدلے میں ان گاہکوں کو کچھ حاصل بھی نہیں ہونا ہوتا… میں نے اپنے حالیہ دورہٴ انگلستان میں ہزاروں خواہشیں، آرزوئیں اور امنگیں اپنے سینوں میں دبائے ان نوجوانوں کی حالت زار دیکھی ہے جو لاکھوں روپے خرچ کرکے انگلینڈ پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اس کے بعد:
پھرتے ہیں میر# خوار کوئی پوچھتا نہیں
کی تصویر بنے نظر آتے ہیں ان کی جمع پونجی ختم ہو چکی ہے اور ان کے پاس کھانا کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں، وہ اس صورتحال میں ہر وہ کام کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں جسے وہ پاکستان میں گھٹیا تصور کرتے ہیں مگر انہیں وہ کام بھی نہیں ملتا اگر ملتا بھی ہے تو کام دینے والا ان کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے انہیں اس قدر کم معاوضہ دیتا ہے جسے شرمناک ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور تو اور میں نے یہاں ڈاکٹروں اور انجینئروں کو بھی ”رُلتے“ دیکھا ہے اور جہاں تک نارمل تعلیم کے حامل نوجوانوں کا تعلق ہے، ان کی حالتِ زار کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں، ان نوجوانوں کے پاس واپسی کے ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں ہیں اور وہ شرمندگی اس کے علاوہ ہے جو ان کی وطن واپسی میں حائل ہے، میں نے پاکستان میں ریڑھیاں اور چھابڑیاں لگانے وا لوں کو کروڑپتی بنتے دیکھا ہے، اس وقت آپ کو جتنے ارب پتی نظر آرہے ہیں، فوج کے جتنے جرنیل ہیں، صف اول کے جو ڈاکٹر اور انجینئر ہیں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے جو پروفیسر، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں، گریڈ بائیس کے جو بیورو کریٹ ہیں اور جو بڑے بڑے صنعتکار ہیں ان میں سے پچانوے فیصد کا تعلق غریب یا متوسط گھرانوں سے ہے، ان کی ایک بڑی تعداد اپنی محنت اور لگن سے اس مقام تک پہنچی ہے۔ ”لینڈ آف اوپرچونیٹی“ (Land of Oppertunity)انگلستان نہیں پاکستان ہے، چنانچہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ایسا شارٹ کٹ استعمال کرنے کی بجائے جس کا حاصل کچھ نہیں پاکستان کو اپنی محنتوں اور کاوشوں کا محور بنائیں، انشاء اللہ ا نہیں مایوسی نہیں ہوگی… اور اگر خدانخواستہ قسمت نے یاوری نہ بھی کی تو بھی وہ دیار غیر کی بجائے اپنوں کے درمیان ہوں گے جہاں اگر اور کچھ نہیں تو انہیں کوئی حوصلہ دینے والا اور ان کا ہاتھ پکڑنے والا تو موجود ہوگا۔

میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان کالموں میں برطانوی عوام اور برطانوی حکومت کی قوت برداشت کا حوالہ بھی دوں۔ برطانیہ کے اکثر بڑے شہروں میں ایشین، ساؤتھ ایشین، افریقن اور دنیا کے دوسرے بہت سے ممالک کے لوگوں کا ”قبضہ“ ہو چکا ہے چنانچہ ہر طرف پگڑیاں، شلواریں اور دھوتیاں نظر آتی ہیں اور انگریز سمٹتے سمٹتے”جوئے کم آب“ بن کر رہ گئے ہیں۔ لندن، بریڈفورڈ، برمنگھم، مانچسٹر، گلاسگو اور کچھ دوسرے شہروں میں کچھ علاقے تو ایسے بھی ہیں جہاں انگریز نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی، لندن کا ساؤتھ ہال کا علاقہ اسی ذیل میں آتا ہے وہاں ایک انگریز نے ایک سردار جی کے گھر پر دستک دی، سردار جی باہر آئے تو انگریز نے پوچھا ”مسٹر ولیم یہاں رہتے ہیں؟“ سردار جی نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا ”یہاں کوئی فارنر نہیں رہتا“۔ برطانیہ کے ان شہروں میں مسجدیں، گوردوارے اور مندر وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ کالے علم کا توڑ کرنے والے نجومی اور تعویذ دینے والے اردو اخباروں میں اپنے بڑے بڑے اشتہارات چھپواتے ہیں، جن نکالنے والے بھی یہاں موجود ہیں جو جن نکالتے نکالتے لڑکی نکال کر لے جاتے ہیں ، اتنی کثیر المذاہب اور کثیر الثقافت سوسائٹی میں مقامی آبادی کے ساتھ تصادم کے امکانات ”اصولاً“ بہت ”روشن“ ہونا چاہئیں لیکن انگریز بڑی سمجھ دار قوم ہے، وہ کبھی ان کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار نہیں کرتی شاید اس لئے بھی کہ وہ جانتی ہے کہ یہ لوگ لڑائی مارکٹائی میں خودکفیل واقع ہوئے ہیں، برطانیہ میں میری موجودگی کے دوران دو بہت بڑے پیروں کے مریدوں کے درمیان ایک مسجد میں تصادم ہوا جس میں ایک دوسرے کی خوب دھنائی کی گئی۔ انگریز کو شاید یہ بھی علم ہے کہ یہ مسجدیں، گوردوارے اور مندر زیادہ سے زیادہ تین چار نسلوں تک آباد رہیں گے۔ اس دوران آہستہ آہستہ ان کی ر ونق کم ہوتی جائے گی اور پھر ایک وقت آئے گا کہ بیشتر لوگ مقامی ثقافت میں مدغم ہو جائیں گے اور اس کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں۔ بین المذاہب شادیاں ہو رہی ہیں ویک اینڈ پر کلبوں کے باہر جہاں سینکڑوں کی تعداد میں ٹکٹ کے حصول کے لئے گورے اور گوریاں قطار بنائے کھڑے ہوتے ہیں ان میں دیسی لڑکے اور دیسی لڑکیاں بھی نظر آتی ہیں، یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب اپنے وطن میں جمی پلی نسل ان کے درمیان موجود ہے۔ آگے چل کر یہ نسل جب نہیں رہے گی اور ان کی ”درآمد“ کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا تو صورتحال کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اپنی اپنی مادری زبانوں سے تو یہ لوگ ابھی سے محروم ہو چکے ہیں، باقی مناظر پردہ اٹھنے کے بعد نظر آئیں گے۔

یہ جو منظرنامہ میں نے ابھی پیش کیا ہے، میں جانتا ہوں یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ہی ہمارے ہاں کی گھٹن، ناانصافیوں اور معاشی ناہمواریوں سے تنگ آئے ہوئے نوجوان ”ہر چہ با دا باد“ کا ورد کرتے ہوئے عازم برطانیہ ہونے کی کوشش کریں گے اور یوں آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جائیں گے… اگر کوئی عزیز یہ کالم پڑھ کر اپنے ترک وطن کے ارادے پر نظرثانی کرتا ہے تو اس کے مد نظر غالب# کا یہ مصرعہ ہوگا:
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
اور جس نے بہر طور جانے کا ارادہ کیا ہوا ہے یہ کالم اس کا راستہ نہیں روک سکے گا اور وہ:
اب تو آرام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
گنگناتا ہوا ایجنٹوں کے ہاتھوں خوار ہوتا رہے گا جبکہ بر طانیہ میں آرام سے زندگی گزارنے کا مفروضہ اسے موجودہ زندگی میں میسر تھوڑے بہت را حت و آرام سے بھی محروم کر سکتا ہے۔
Faraz
About the Author: Faraz Read More Articles by Faraz: 5 Articles with 132871 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.