شہر خموشاں

شہر کی سڑکوں پر تاریکی اور سناٹا تھا، کبھی کبھی کہیں سے فائرنگ کی آواز آتی، گھر سے فون آیا تھا، علاقے میں کشیدگی ہے، دکانیں بند ہوگئی ہیں اور فائرنگ ہورہی ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا، کس راہ کو اختیار کروں، شاہراہ فیصل لیکن جوہر موڑ سے بچ کر کیسے نکلا جائے۔ وہ علاقہ تو خطرناک ہے، پچھلی بار وہاں سے گزرا تھا۔ سڑک پر پتھروں کے ڈھیر تھے، جلتے ٹائروں سے دھواں پھیل رہا تھا۔ صدر میں لائنز ایریا کی سڑک پر ہو کا عالم تھا، کبھی کبھی کوئی گاڑی تیزی سے نکل جاتی، ہر ایک دوسرے سے سہما ہوا ‘ جانے کب کہاں سے گولی آجائے۔ رینجرز اور پولیس تو دن کی روشنی میں بھی نہیں ہوتی، اب رات کی اس تاریکی میں کہاں نظر آئے گی۔ قیصر خان نے پوچھا کیا سبزی منڈی سے نکلا جاسکتا ہے؟ اور کہاں سے جائیں گے، یونیورسٹی روڈ پر جانے کا یہی ایک راستہ ہے۔ باقی ساتھی انتظار میں تھے کہ ایک ساتھ نکلا جائے۔ گلشن میں جانے کا ایک ہی راستہ بچا ہے، پل کے نیچے سے عزیز بھٹی پارک کا راستہ۔ جب سے یہاں دن دھاڑے میرے دونوں موبائل اور پرس چھنا ہے، یہاں سے گزرتے ہو ڈر لگتا ہے۔ رات کی تاریکی میں سائے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ گلیوں کے باہر لڑکے کھڑے ہیں۔ گلی کے لڑکے سارے اپنے ہیں۔ لیکن انہی اپنوں سے ڈر لگتا ہے۔ جانے پارٹی نے کیا لائین دی ہو۔ شہر میں ایک دو قتل ہوں تو کوئی بات ہے، اب تواعداد شمار کی جنگ ہے ، کل اتنے مرے تھے، آج اتنے مرے ہیں، کوئی شمار بھی نہیں ہے۔ پہلے محلے میں کتا بھی مرجاتا تھا تو، اس پر افسوس ہوتا تھا، گلی کے کتوں تک کو سب پہچانتے تھے۔ اب کوئی بھی ایک دوسرے کو نہیں جانتا، پڑوس میں رہنے والا یا محلے میں رہنے والا سب اجنبی ہیں۔ اجنبی اجنبی.... ان اجنبی جانے پہچانے افراد سے گزر کر میں گھر پہنچ گیا۔ ٹی وی کھولا تو مرنیوالوں کی تعداد ایک چینل پر 13، دوسرے پر 15، اور تیسرے پر 19 بتائی جارہی تھی۔ شہر کے سارے علاقے متاثر تھے، اب راکٹ بھی چلنے لگے ہیں۔ کراچی میں محکمہ داخلہ سندھ نے ڈبل سواری پر تا حکم ثانی پابندی عائد کر دی ہے۔ قاتلوں کو پکڑنے یا روکنے کے بجائے پولیس اور رینجرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ پابندی پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال میں ایک وجہ جگہ جگہ موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ڈبل سواری پر بار بار پابندی لگتی ہے۔ موٹر سائیکل بندوق، پستول، راکٹ سے زیادہ خطرناک ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر گھر میں موجود ہے۔ جانے کیوں اس کی بناوٹ، خریداری، رکھنے پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی۔ میرا دوست کہتا ہے یہ ٹرانسپورٹ مافیا ہے۔ روزانہ کروڑوں روپے کا بھتہ پولیس کو ملتا ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی سے بسوں منی بس والوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ دروازوں، کھڑکیوں اور چھت پر بیٹھ کر سفر کرنے والے منہ مانگا کرایہ ادا کرتے ہیں۔ سب کو گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے اور گھر سے نکلنے کی بھی.... صبح مرنیوالوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ میرے محلے کے دو نوجوان اور ان کا ملازم بھی اس گنتی کا حصہ ہے۔ دونوں بھائیوں کو ان کی مٹھائی کی دکان پر گولی مار دی گئی۔ جنازے کے لیے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ شہر میں ایسے بہت سے محلے اور گھر ہیں جہاں جنازوں کی تیاریاں ہیں۔ عجیب شہر اور عجیب لوگ ہیں، بھتہ بھی دیتے ہیں، گولیاں بھی کھاتے ہیں، اور ووٹ بھی دیتے ہیں۔ یہ تو اس بادشاہ کی رعایا بن گئے ہیں جسے کوڑے کھانے، ٹیکس دینے پر اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ بادشاہ کے حضور التجا کرتے ہیں کہ حضور کوڑے کھانے کے لیے لائین بہت بڑی ہے۔ ذرا کوڑا مارنے والے عمال کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے۔ میری بھی یہی عرض ہے، جب مقدر تیرگی، بوری بند اور بے نام لاشیں ہی ہیں تو حضور مارنے والوں کی تعداد بڑھا دیجیے تاکہ دو کروڑ آبادی کا یہ شہر جلد شہر خموشاں میں بدل جائے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 391837 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More