حفظان ِصحت کا لائحہ عمل -تعلیماتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں

مصلحینِ عالم میں نبی ء اکرم ﷺ کا ایک واضح امتیاز یہ ہے کہ آپ ﷺ نے امت کی بھلائی اور دنیا و آخرت میں چین سے رہنے کیلیے ایسے نفیس ارشادات فرمائے ہیں جو سرمہء بصیرت ہیں۔مصنفین ومحققین ان ہی موتیوں کو پرو کر عام کردیتے ہیں۔ان مبارک تعلیمات کا ایک پہلو صحت سے متعلق ہے جس میں صحت کی حفاظت اور بیماری کا علاج دونوں پہلو ملتے ہیں۔حفظانِ صحت کی اہمیت اور اس کے حصول کے طریقہء کار کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کی تعلیمات میں ایک لائحہ عمل ملتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بین الاقوامی سطح پر علاج کو احتیاطی preventive medicineاور معالجاتیcurative medicine میں تقسیم کردیا گیا ہے۔۔اب احتیاط علاج سے بہتر ہے کہ پیشِ نظر طب کے احتیاطی پہلوؤں کو بطور خاص مرکوز کیا جا رہا ہے۔عالمی وبا کورونا اور دیگر متعدی امراض سے بچاؤ کی خاطر صفائی ستھرائی اور خوراک کے ذریعے مدافعت کے نظام کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔اس عصری رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے جب سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ صفائی اور پاکیزگی،ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام ،متوازن خوراک کے اہتمام،ورزش اور جسم کی سلامتی(فٹنس) کے حوالے سے حکیم و دانا پیغمبر ﷺ کی بیش بہا تعلیمات مشعلِ راہ ہیں۔اس کے ساتھ ایسی دعائیں بھی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ سے صحت و سلامتی طلب کی گئی ہے۔
صحت کی اہمیت:
صحت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی ء اکرم ﷺ نے اپنے ایک صحابی ؓ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
عَن ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لرجل وَهُوَ يعظه اغتنم خمْسا قبل خمس شبابك قبل هرمك وصحتك قبل سقمك وغناك قبل فقرك وفراغك قبل شغلك وحياتك قبل موتك رَوَاهُ الْحَاكِم وَقَالَ صَحِيح على شَرطهمَا(الترغیب والترھیب للمنذری،کتاب التوبۃ والزھد،رقم ۵۰۸۱)

رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو ، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ،
اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے ، اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے ، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ صحتمند ہونے کی حالت میں آدمی کی توجہ اس عظیم نعمت کی طرف نہیں ہوتی اور یہ قیمتی زمانہ ضائع ہوجاتا ہے۔عبادات کی کثرت،دین کی محنت اور خدا تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال میں مشغولیت جیسے صحت مند ہونے کی حالت میں ہو سکتی ہے ایسے بیماری کے وقت نہیں ہو سکتی۔اسی بات کی طر ف سرکارِ دو عالم ﷺ متوجہ فرماتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ "(بخاری، باب لا عیش الا عیش الآخرۃ،رقم۶۴۱۲)
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت لوگ دھوکے میں پڑے ہیں:صحت اور فراغت۔

صحت کی سلامتی کی دعائیں:
آنحضرت ﷺ نے صحت کی اہمیت بیان فرمانے ،حفظان ِصحت کے اصول اور علاج کے اسباب بیان کرنے کے ساتھ مسبب الاسباب سے صحت اور سلامتی کو بھی سکھایا۔ملاحظہ فرمائیں:
اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَسْاَلُکَ الصِّحَّۃَ وَالْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَالرِّضَا بِالْقَدْرِ(مشکٰوۃالمصابیح،باب جامع الدعاء،رقم ۲۵۰۰)
اے اللہ ! میں آپ سے صحت وتندرستی اور پاکدامنی وپارسائی امانت اور اچھی سیرت اور تقدیر پر راضی رہنے کی درخواست کرتاہوں۔‘‘
کئی جگہوں پر آپ ﷺ نے عافیت کی دعا مانگی ہے بلکہ امت کو اس کے مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بار بار عافیت کی دعا مانگنے کو ارشاد فرمایا:
عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ أَیَّامًا ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔ (ترمذی،ابواب الدعوات، ج:۲،ص:۱۹۱،ط:قدیمی)

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرارہااور پھردوبارہ آپ صلی اللہعلیہ وسلم کی خدمت میں گیا اورمیں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا : اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔‘‘
عافیت ایک ایسی جامع چیز ہے جس میں دنیا اورآخرت کی تمام بھلائیاں شامل ہیں۔شارح،مشکوۃ علامہ نواب قطب الدین دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عافیت کے معنی دین میں فتنہ سے سلامتی اوربدن میں بری بیماریوں اور سخت رنج سے نجات ہے(مظاہر حق جدید،ص ۷0۷ ج۲)
وَعَنْ أَنَسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَادَ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَدْ خَفَتَ، فَصَارَ مِثْلَ الْفَرْخِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: (هَلْ كُنْتَ تَدْعُو اللَّهَ بِشَيْءٍ أَوْ تَسْأَلُهُ إِيَّاهُ) ؟ ! . قَالَ نَعَمْ، كُنْتُ أَقُولُ: (اللَّهُمَّ مَا كُنْتَ مُعَاقِبِي بِهِ فِي الْآخِرَةِ فَعَجِّلْهُ لِي فِي الدُّنْيَا) . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - (سُبْحَانَ اللَّهِ! لَا تُطِيقُهُ وَلَا تَسْتَطِيعُهُ: أَفَلَا قُلْتَ: اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؟) قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ بِهِ فَشَفَاهُ اللَّهُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ.(مشکٰوۃ،باب جامع الدعاء،رقم۲۵۰۲)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہ شخص پرندے کے بچے کی طرح لاغر اور کمزور ہوچکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ: میں اللہ سے دعا کرتا تھا کہ اے اللہ!جو عذاب تو نے مجھے آخرت میں دینا ہے، وہ دنیا ہی میں دے دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ!‘‘ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور تم میں اتنی استطاعت ہی نہیں، تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے تھے: ’’ اللّٰہُمَّ أٰتِنَا فِيْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِيْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔‘‘ یعنی ’’اے اللہ! ہمارے ساتھ دنیا و آخرت میں بھلائی کا معاملہ فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔چنانچہ انہوں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دے دی۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَمَا سُئِلَ اللَّهُ شَيْئًا يَعْنِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَ» . رَوَاهُالتِّرْمِذِيّ(مشکٰوۃ،کتاب الدعوات ،رقم ۲۲۳۹)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے اور اللہ تعالیٰ سے عافیت سے بڑھ کر اس کی پسندیدہ چیز نہیں مانگی گئی۔
مرقاۃ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ عافیت اللہ تعالیٰ کو اس لیے زیادہ محبوب ہے کہ یہ لفظ دونوں جہانوں کی بھلائیوں کا جامع ہے جس میں صحت اور سلامتی شامل ہے

صفائی ستھرائی کے متعلق
نبیء اکرم ﷺ کی مبارک تعلیمات کا ایک حصہ صفائی اور پاکی کے متعلق ہے۔لباس اور جسم کی صفائی اور طہارت سے لے کر گھر،مسجد،ماحول کی صفائی کے متعلق آپ ﷺ کے ارشادات اور عملی اقدامات موجود ہیں۔قرآنِ کریم جو آپ کا عطا کردہ زندہ معجزہ ہے اس میں ارشادِ باری ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِين(البقرۃ:۲۳۲)
بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کریں ،اور ان سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہیں،
وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّھرین(التوبۃ:۱۰۸)
اللہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے
اس آیت کے شانِ نزول میں حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے متعدد روایات ننقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے اس آیت میں جن لوگوں کی تعریف بیان کی گئی ہے وہ پانی سے استنجا کا اہتمام کرتے تھے ،چنانچہ نبی ء اکرم ﷺ نے اہلِ قبا سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے،تم لوگ کیا کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کی کہ ہم پانی سے استنجا کرتے ہیں (تفسیر ابنِ کثیر ص ۱۹۰ج ۴)
وَثِيابَكَ فَطَهِّر(المدثر:۴)
اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو
اس آیت میں نبی ءاکرمﷺکو اپنے کپڑے پاک رکھنے کا حکم دیا گیا۔مشرکین طہارت کا اہتمام نہیں کرتے تھے ،ان کے بر عکس رسول اللہ ﷺ کو پاک و صاف رہنے کا حکم دیا گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام صفائی اور پاکیزگی کا کتنا خیال رکھتا ہے۔(ابن کثیرج ۸ص۲۷۸ )
البِسوا من ثيابِكُمُ البياضَ فإنَّها مِن خيرِ ثيابِكُم، وَكَفِّنوا فيها موتاكم(سنن ابو داود،کتاب الطب،با ب الامر بالکحل،رقم۳۸۷۸)
سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا سفید لباس پہنو کہ وہ زیادہ پاکیزہ ہے۔
حدثِ اکبر(بڑی ناپاکی )سے پاک ہونے کے لیے غسل لازمی قرار دیا گیا جبکہ حدثِ اصغر(چھوٹی ناپاکی) سے پاک ہونے کے لئے وضو لازمی کیا گیا۔ایسے ہی بول و براز کے بعد پانی سے استنجا مقرر کیا گیا ۔یہ تمام اقدامات جسم کی صفائی و ستھرائی اور بیماریوں کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔موجودہ عالمگیر وبا کورونا کے پھیلاوٗ کی احتیاطی تدابیر میں ہاتھوں کو بار بار دھونے کی تاکید کی جاتی ہے۔قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق طہارت کے اصولوں کا خیال رکھنے اور نمازِ پنجگانہ کیلئے وضو کرنے سے یہ حفاظتی تدبیر خودبخود ادا ہو جاتی ہے۔گویا اسلام کے پیروکار یہ کہتے نظر آرہے ہیں:

تنگ آ جائے گی اپنے چلن سے آخر دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ تیرے انداز کبھی
ایسے ہی راستے میں بول و براز(پیشاب پاخانہ)کرنے والے کو سخت الفاظ میں ڈانٹا گیا ۔نبئ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لعنت کا مسحق بننے سے بچو۔صحابہ نے عرض کیا کہ یہ لعنت کا مورد بننے والے لوگ کون ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگوں کی گزرگاہ یا سایہ کی جگہوں پر بول و براز کرتے ہیں۔
(أبو داؤد،کتاب الطہارہ،باب المواضع التی نھی النبی ﷺ۔۔۔)
غور کیا جائے تو یہاں ایک طرف تو دیگر انسانوں کو ایذا پہنچانے سے بچایا گیا اور دوسری طرفراستوںکی صفائی ستھرائی کا بھی انتظام کر دیا گیا۔اور یہ کیوں نہ ہو کہ آپﷺ نے کامل مسلمان قرار ہی ایسے شخص کو دیا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں(بخاری)۔
اسی طرح پانی کو آلودہ کرنے سے روکا گیا:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں غسل جنابت کرے۔
(أبو داؤد،کتاب الطہارۃ،باب لا یبولن احدکم فی الماء الراکد)
ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کی ہی ایک شکل وہ ہے جسے ہم مردہ دفن کرنے کی صورت میں دیکھتے ہیں۔فوت ہونے پر مردہ کو جلایا بھی جا سکتا تھا،سمندر کے حوالے بھی کیا جا سکتا تھا اور تہ ِخاک بھی دفن کیا جا سکتا تھا ۔ہر صاحب ِفہم اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ ان سب میں بہترین طریقہ دفن کرنے کا ہےجس میں انسانی جسم کی تکریم بھی ہے اور جو آلودگی سے محفوظ بھی ہے۔نبی ﷺ نےدفن کرنے اور قبر کے متعلق امت کو تعلیم دی اور یوں جسم ِانسانی کے احترام کے پہلو کوملحوظ رکھنے کے ساتھ جسمِ انسانی کے اندر طبعی طور پر پیدا ہو جانے والی غلاظتوں اور کثافتوں سے اہل ِزمین کو محفوظ کر دیا گیا۔ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں خوشبو کا بڑا اثر ہے۔خوشبو سے طبیعت میں ایک تازگی اور فرحت محسوس ہوتی ہے۔اچھی خوشبو سے انسان کو سکون ملتا ہے۔نبٔی کریم ﷺ کی پسندیدہ ترین چیزوں میں سے ایک خوشبو ہے۔صبح نیند سے بیدارہو کر وضو فرمانے کے بعد آپ ﷺ خوشبو لگاتے تھے ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ کا ایک ْسکہ تھا جس سے خوشبو لگاتے تھے۔ (ابو داود کتاب الترجل باب ما جآءفی استحباب الطیب)
ابو ہرہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جسے خوشبو پیش کی جائے وہ اسے واپس نہ کرےکہ وہ دینے والے پر اس کا دینا بھی آسان ہے۔
(أیضًا،باب فی رد الطیب)
آنحضرت ﷺ نے رستہ صاف رکھنے کو بھی ایمان کی بات قرار دیا۔آپ ﷺ نے ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے بتلائے اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو بھی ایمان ہی کا ایک شعبہ قرار دیا :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبٔی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں ،ان میں سب سے اعلیٰ لآالٰہ الا اللہ کا اقرار ہے اور ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے اور حیا ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے ۔
(متفق علیہ (مشکٰوۃ کتاب الایمان)
غذا سے متعلق ہدایات
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلالاً طَيِّباً وَلا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (168) (البقرۃ:۱۶۸)
اے لوگو! ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال پاکیزہ ہیں، اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بے شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔
آیتِ کریمہ میں غذا سے متعلق دو معیار ذکر کئے گئے ہیں:
اول : حلال ہو
دوم: پاکیزہ ہو
درحقیقت طیب(پاکیزہ ہونا) حلال ہی کی تاکید ہے کیونکہ شریعت کی حلال کردہ تمام اشیاء پاکیزہ ہیں۔جیسا کہ نبیءاکرمﷺ کی تعریف میں ارشادِربانی ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (157) (الاعراف:۱۵۷)
وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور انھیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ سو وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
چنانچہ شریعت نے جن اشیاء کا کھانا پینا حرام کیا ہے،وہ اشیاء ایک نفیس ذوق اور سلیم طبیعت رکھنے والے شخص کے نزدیک بھی ناپسندیدہ ہیں۔حشرات الارض،درندے ، مردار اور نجاست کھا نے والے پرندوں سے ایک عام آدمی بھی گھن محسوس کرتا ہے اور صحت کے لئے ان کا مضر ہونا بھی واضح ہے۔خنزیر اور شراب کے برے اور تباہ کن اثرات کا مشاہدہ مغربی دنیا اور ان کے ہمنواوں میں بخوبی مشاھدہ کیا جا سکتا ہے۔شرا ب پینے سے آدمی کی عقل تو متاثر ہوتی ہی ہے جس کی وجہ سے وہ واہی تاہی بھی بکتا ہے لیک جسمانی صحت پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔شراب دل کے دورے کے امکانات بڑھاتی ہے،معدہ اور جگر کو شدید متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں پورا بدن متاثر ہوتا ہے۔یورپ اور امریکا میں ٹریفک ایکسیڈنٹ کی ایک اہم وجہ شرا ب وغیرہ کے نشے میں ڈرائیونگ کرنا بھی ہے۔قرآنِ کریم شراب کو گندگی اور شیطانی عمل قرار دیتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(المائدہ:۹۰)
اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں ، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو
قرآن،حکیم میں خنزیر کے گوشت کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے:۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (المائدہ:۳)
ترجمہ:تم پر مردار حرام کیا گیا ہے اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جس پر غیراللہ کا نام پکارا جائے اور گلا گھٹنے والا جانور اور جسے چوٹ لگی ہو اور گرنے والا اور جسے سینگ لگا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو، مگر جو تم ذبح کر لو، اور جو تھانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ کہ تم تیروں کے ساتھ قسمت معلوم کرو۔ یہ سراسر نافرمانی ہے۔ آج وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تمھارے دین سے مایوس ہوگئے، تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا، پھر جو شخص بھوک کی کسی صورت میں مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ کسی گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
ایک مسلمان کے لئے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے سچے رسولﷺ کا ارشادہی کافی ہے لیکن ہم جدید سائنسی تحقیقات سے بھی شہادتیں پیش کرتے ہیں۔ڈاکٹر حکیم سید قدرت اللہ قادری سابق پرنسپل نظامیہ میڈیکل کالج حیدر آباد اپنی وقیع تصنیف اسلام اور جدید میڈیکل سائنس میں لکھتے ہیں:
جدید تحقیقات(پریونٹو اینڈ سوشل میڈیسن) نے ثابت کر دیا کہ اس کے اندر ے حد نقصانات ہیں۔اس کے خون مین عام خون کی طرح یورک ایسڈ ہے جو ہر جاندار کے خون میں ہوتا ہے۔اور ذببیحہ کی صورت میں خون سے خارج ہوجاتا ہے مگر سور کے اندر اس کے خون سے اس کا اخراگ نہیں ہو پاتا اس لئے کہ سور ککے عضلات اور ان کی ساختیں کچھ اس قسم کی واقع ہوئی کی اس کے خون سے اس کا اخراج نہیں ہو پاتا۔اس لیے کہ سور کے عضلات اور ان کی ساختیں کچھ اس قسم کی واقع ہوئی کی اس کے خون سے یورک ایسڈ دو فی صد خارج ہوتا ہے اور باقی حصہ اس کے جسم کا جزو بنا رہتا ہے۔چنننانچہ سور خود بھی ہمیشہ جوڑوں کے درد میںن مبتلا رہتا ہے (اور اس کا گوشت کھانے والے بھی شدید جوڑوں کے درد میںن مبتلا رہتے ہیں)اور اس کا گوشت کھانے والے بھی شدید وجعِ مفاصل (Arthritis) اور زہریلی پیچش اور دیگر بیماریوںں مین جن کی تفصیل ہم طبِ جدید کی قابلِ قدر کتب فراڈرک کی پرائس اور بیومانٹ میں بڑی تفصیل سے سور کے جراثیم کی نوعیتوں اور اس کے مضر اثرات پر کئی صفحات لکھے ہوئے ہیں،ہم مختصرا ً لکھتے ہیں اسی کے چند مشہور امراض کی فہرست درج ذیل ہے:
جراثیمی پیچش،آنتوں کی دق،اعصابی کمزوری،مرگی،مالیخولیا،طویل بخار،جوڑوں میں دردِشدید ورم،خون کی شدید کمی وغیرہ۔
مزید لکھتے ہیں:
اس کی چربی کے استعمال سے خو ن میں کولیسٹرال بڑھتے ہیں جس سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔شریا نوں کی اندرونی نالیوں میں رکاوٹ سے دورانِ خوں مین کمی واقع ہونے اور دماغ میں مطلوبہ مقدار خون میں کمی واقع ہونے اور دماغ میں مطلوبہ مقدارِ خون کے نہ پہونچنے سے دماغی فالج ParalysisیاIschemic Heart Diseasesمیتوتۃ القلب ،دل کو خون سپلائی کرنے والی شریانیں coronary arteriesتنگ ہو کر مکمل یا نا مکمل طور پر قلب کو نسبتاًکم خون کی سپلائی کرتی ہیں جس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
قرآنِ حکیم کے علاوہ انجیلِ مقدس میں بھی سور کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ اہلِ مغرب اس کے دل دادہ ہو چکے ہیں۔اور ان کی نقل اتارنے میں اہلِ مشرق بھی مائل نظر آتے ہیں۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ خنزیر کا گوشت کھانے والی قوم اور افراد ،اس بے حیا جانور کی طرح شرم و حیا سے عاری ہوتے ہیں۔
طبِ قدیم میں صاحبِ مخزن نے اسے (۱۳) امراضِ سوداویہ کا موجب قرار دیا ہے۔(اسلام اور جدید میڈیکل سائنس از ڈاکٹر حکیم سید قدرت اللہ قادری،دار المطالعہ حاصل پور)
ویکیپیڈیا کے مطابق خنزیر کے گوشت میں کولیسٹرال کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ۔کولیسٹرال جسم میں چکنائی کو بڑھاتا ہےجس کی وجہ سے دل کی بیماریو ں کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح اس نجس گوشت کے کھانے سے پیٹ کی بیماریاں بھی وجود پاتی ہیں۔مغرب میں اگرچہ اس گوشت کو اچھی طرح پکا کر کھانے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ اس کی آنتوں میں موجود بیکٹیریا کو ختم کیا جا سکے،تاہم پھر بھی اس کے مضر اثرات کو بالکل ختم کرنا ممکن نہیں۔
شریعت نے اس جانور کو نجس العیں (مکمل نجس) قرار دیا۔قرآنِ کریم کے مطابق بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے نافرمانی کی سزا دیتے ہوئے بندر اور خننزیر بنا دیا تھا۔یہ لوگ تین دن اس طرح رہے پھر مرگئے۔جن جانوروں کی صورت میں بطور عذاب بدلا گیا ان جانوروں کو حلال سمجھ کر کھانا عقل ِ سلیم کے خلاف ہے۔
کھانے کے متعلق ایک اہم اصول یہ ہے کہ انسان کچھ بھوک رکھ کر کھائے۔اس سے معدے پر بوجھ بھی نہیں پڑتا اور انسان زیادہ کھانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔رسولِ اکرمﷺ نے کھانے کے اس اصول پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے:

عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ. بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ»(ترمذی،ا ما جاء فی کراھیۃ کثرۃ الاکل،رقم۲۳۸۰)
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا برتن نہیں بھرا۔ابنِ آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھ سکیں۔لیکن اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو ایک تہائی حصہ (پیٹ ) کھانے کیلیے،ایک تہائی پانی کیلیے اور تیسرا سانس کیلیے رکھے

ورزش کی ترغیب
صحتمند جسم اور معتدل زندگی کیلیے آدمی کا متحرک رہنا ضروری ہے۔غیر متحرک یا ساکن طرزِ زندگی sedantory life style
جدید طبی تحقیقات کے مطابق موٹاپے،بلڈ پریشر وغیرہ کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔اسلامی طرزِ حیات میں تحرک بڑی اہمیت کا حامل ہے۔نمازِباجماعت،حج ،جہاد،تبلیغِ دین، حقوق العباد کی ادائیگی وغیرہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلمان متحرک رہے اور دیگر افرادِ معاشرہ سے بالکل کٹ نہ جائے بلکہ فکری اور جسمانی ہر دو اعتبار سے پردم ہو
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُردم ہے اگر تو نہیں خطرہ ءافتاد
رسول اللہﷺ اور آپ کے بلند ہمت صحابہء کرام کی پاکیزہ زندگیاں دعوت و جہاد سے عبارت تھیں۔وہ زاہدِ شب بیدار بھی تھے اور مجاہدِبلند کردار بھی۔وہ واعظِ شیریں گفتار بھی تھے اور میدانِ عمل کے شہسوار بھی:
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاںداروں کی
کلِمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی



خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں غالب کرنے والی اس جماعت کے قائد اپنے ساتھیوں کو ایسی کھیلوں اور اشغال کی ترغیب دیتے جس سے ان کے جسم عبادت وجہاد کے لیے مستعد رہیں۔ایک جگہ ارشاد وارد ہے:

کُلُّ مَا یَلْہُوبِہ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ الَّا رَمْیَةٌ بِقَوْسِہ وَتَأدِیْبُہ فَرَسَہ وَمُلاَعَبَتُہ اِمْرَأتُہ فَانَّہُنَّ مِنَ الْحَقِّ․ (ترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الرَّمْيِ فِي سَبِيلِ اللہ ،رقم ۱۶۳۷)
یعنی مرد مومن کا ہر کھیل بیکار ہے سوائے تین چیز کے:
(۱) تیر اندازی کرنا، (۲) گھوڑے سدھانا، (۳) اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا؛ کیوں کہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔

قرآنِ کریم میں اہلِایمان کو کفار کے مقابلے میں قوت جمع کرنے کا حکم دیا گیا۔ارشادِربانی ہے:
وَاَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (الانفال:۶۰)
اے مسلمانو! تمہارے بس میں جتنی قوت ہو، اسے کافروں کے لیے تیار کرکے رکھو۔
رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قوة کی تفسیر رمی (تیراندازی) سے کی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ألاَ أَنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ۔ یعنی خبردار قوة پھینکنا ہے۔ ( مشکوٰة باب اعداء آلۃ الجھاد،رقم ۳۸۶۱ )
ایک حدیث میں آں حضرت ﷺنے ارشاد فرمایا: بے شک ایک تیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تین افراد کو جنت میں داخل کردیتا ہے۔ ایک تیر بنانے والا؛ جبکہ وہ تیر بنانے میں ثواب کی نیت رکھے۔ دوسرا تیر پھینکنے والا اور تیسرا پکڑنے والا، پس اے لوگو! تیر اندازی سیکھو (مشکوٰة ، باب اعداء آلۃ الجھاد، رقم۳۸۷۲)۔
سواری کی مشق اور گھڑ سواری کو بھی آپ ﷺ نے پسند فرمایا ہے:
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑے باندھ کر رکھا، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے، تو اس گھوڑے کا تمام کھانا پینا حتی کہ گوبر، پیشاب، قیامت کے دن اس شخص کے نامہٴ اعمال میں نیکی کے طور پر شمار ہوگا۔ (مشکوٰة ، باب اعداء آلۃ الجھاد ،رقم۳۸۶۸ )

دوڑلگانے کی بھی آپ ﷺ نے ترغیب دی ہے،طبی اعتبار سے بدن کے لیے یہ بھی مفید ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہوولعب ہے، سوائے چار چیزوں کے: (۱) آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا (۲) اپنے گھوڑے سدھانا (۳) دونشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا (۴) تیراکی سیکھنا سکھانا۔ (کنزالعمال ،۱۵/۲۱۱،رقم ۴۰۶۱۲)
پیدل دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابہٴ کرام عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ بلال بن سعد رحمہاللہ تابعی حضرات صحابہ ء کرام کی شان بیان کرتے ہیں:
قال بِلَالُ بْنُ سَعْدٍ: أَدْرَكْتُهُمْ يَشْتَدُّونَ بَيْنَ الْأَغْرَاضِ، وَيَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَإِذَا كَانَ اللَّيْلُ كَانُوا رُهْبَانًا» . رَوَاهُ فِي " شَرْحِ السُّنَّةِ ".(مشکٰوۃ،باب الضحک،رقم۴۷۴۹)
بلال بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے صحابہٴ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔
حضرت سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں: کہ ہم ایک سفر میں چلے جارہے تھے، ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا، جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے مات نہ کھاتا تھا، وہ راستہ میں کہنے لگا، ہے کوئی؟ جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے، ہے کوئی دوڑ لگانے والا؟ سب نے اس سے کہا: تم نہ کسی شریف کی عزت کرتے ہو اور نہ کسی شریف آدمی سے ڈرتے ہو۔ وہ پلٹ کر کہنے لگا ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ میں نے یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رکھتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان سے دوڑلگاؤں۔ آپنے فرمایا ٹھیک ہے، اگر تم چاہو؛ چنانچہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑلگائی اور جیت گیا۔ (صحیح مسلم،باب غزوۃ ذی قرد وغیرھا،رقم۱۸۰۶)



 

Dr Fahad Anwaar
About the Author: Dr Fahad Anwaar Read More Articles by Dr Fahad Anwaar: 2 Articles with 2650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.