گجرات اور منشیات: یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟

آدرش گجرات میں پھر ایک بار پھرانڈین کوسٹل گارڈ (آئی سی جی) اور انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) نے مشترکہ مہم میں ماہی گیرپاکستانی کشتی سے تقریباً 400 کروڑ روپے قیمت کی 77 کلوگرام ہیروئن ضبط کرلی۔ اس خبر میں پھر ایک بار کا اضافہ اس لیے کیا گیا کیونکہ گجرات میں اب یہ عام سی بات ہوگئی ہے۔ دوچار ماہ کے اندر انتظامیہ کو یہ سعادت نصیب ہو جاتی ہے کہ وہ کسی ایسی خبر کو نشر کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپائے۔ امسال اپریل مہینے میں اسی جکھاؤ ساحل کے پاس آٹھ پاکستانی شہریوں کو تقریباً 150 کروڑ روپے قیمت کی 30 کلوگرام ہیروئن کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ گجرات اے ٹی ایس نے موربی ضلع سے تقریباً 600 کروڑ روپے کی ہیروئن ضبط کی تھی اور اکتوبر میں ڈی آر آئی نے کَچھ کے علاقہ میں مندرا بندرگاہ پر دو کنٹینرس سے تقریباً 3000 کلوگرام ڈرگس کو قبضے میں لیا تھا ۔اس کی قیمت عالمی بازار میں 21ہزار کروڑ روپے بتائی گئی تھی۔ یہ تو خیر پکڑا گیا مگر ذرائع ابلاغ کے مطابق ماہِ جون (2021) میں بھی اسی طرح 25 ٹن مال سیمی ٹیلکم پاوڈر کے نام سے آندھرا پردیش کی اسی کمپنی نے درآمد کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا تھا اور اس کا کیا ہوا یعنی کہاں گیا؟ جولائی میں دہلی کے اندر 2,500 کروڑ کی منشیات اور مئی میں 882کروڑ کی منشیات پکڑی گئی۔ یہ کاروبار کس کی سرپرستی میں پھل پھول رہا ہے اور بے شمار تفتیشی ادارے کیا کررہے ہیں؟ کیا انہیں صرف سیاسی مخالفین کی نکیل کسنے میں مصروف کردیا گیا ہے؟

اس طرح خبروں کے بعد گودی میڈیا وہی اپنا راگ الاپنا شروع کردیتا ہے۔ ’پاکستان کی سازش ناکام‘۔ ’پاکستان باز نہیں آئے گا‘ وغیر وغیرہ یعنی پاکستان، پاکستان اور پاکستان کے شور شرابہ میں اصل مسائل کی جانب سے توجہ ہٹا کر انہیں دریا برد کر دیا جاتاہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر اتنی بڑی مقدار میں منشیات ہندوستان اسمگل کیوں کی جاتی ہیں ؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی مال وہیں اسمگل کیا جاتا ہے جہاں اس کی کھپت ہو یا وہاں سے اسے دیگر مقامات پر پہنچانے کی سہولت ہو؟ مثلاً اگر پاکستان سے جوتا ہندوستان اسمگل کیا جائے اور وہ مقامی تیار شدہ جوتوں سے سستا ہونے کے باوجود غیر معیاری ہونے کے سبب نہیں بکے گا ۔ اس لیے طلب نہ ہونے کی وجہ سے رسد ازخود بند ہوجائے گی۔ ایسے میں کوئی اسمگلر اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یہ مال پہنچانے کی غلطی نہیں کرے گا۔ اس حقیقت کا اعتراف ناگزیر ہے کہ وطن عزیز میں منشیات کی کھپت بہت زیادہ ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ 2019 کے پورے سال میں کل 1500 کلو منشیات ضبط ہوئی تھی اس کے بعد سال 2020 میں یہ مقدار بڑھ کر 2500 کلو ہوگئی لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ امسال ستمبر کے اندر تو ایک ہی وقت میں 3000کلو پکڑی گئی ۔

ماہرین کے مطابق ایک فرد اوسطاً 460 ملی گرام یعنی آدھا گرام سے کم نشہ آور شئے کا استعمال کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ 3000 کلو 15 لاکھ افراد کو متاثر کرسکتی ہے لیکن اس کا دارومدار ملاوٹ پر بھی ہے کیونکہ یہ منشیات اصلی حالت میں فروخت نہیں ہوتی ۔ اس میں عام طور 23 فیصد یا اس سے زیادہ کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ مقدار 75لاکھ سے ایک کروڈ افراد کی خوراک بن سکتی ہے ۔اس مال کو پاکستانی اسمگلرس بیچتے ضرور ہیں مگر اس کو خریدنے اور استعمال کرنے والے ہندوستانی ہیں ۔ یہ پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان اسمگلرس کو روکےلیکن اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو اس میں اس کا نہیں بلکہ ہمارا نقصان ہے۔ اس لیے محض پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا کر بیٹھ جانے سے یہ سنگین مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اور بھی زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ اس لیے عارضی سیاسی فائدے سے اوپر اٹھ کر مستقل حل تلاش کرنے کی سعی کی جانی چاہیے۔

دوسرا اہم سوال ہے کہ یہ منشیات گجرات سےہی کیوں آتی ہیں ؟ یعنی کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ وجئے واڈہ ( آندھرا پردیش) کی ایک گمنام کمپنی آشی ٹریڈنگ ہزاروں کروڈ کی منشیات درآمد کرنے کے لیے وشاکھا پٹنم کی بندرگاہ استعمال کرنے کے بجائے گجرات کی مندرا پورٹ کو ترجیح دیتی ہے جو وزیر اعظم کے چہیتے گوتم اڈانی کے زیر انتظام چلائی جارہی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی پوچھتا ہے کہ گجرات اور منشیات کا :’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے ؟‘ تو اس بیچارے کا کیا قصور؟ گجرات میں ڈبل انجن سرکار ہے اس کے باوجود منشیات کی بابت دونوں انجن کوئی سیٹی نہیں بجاتے۔ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ اسی صوبے سے آتے ہیں اس کے باوجود وہ اس بابت کوئی بیان تو دور ٹویٹ دینا تک گوارہ نہیں کرتے ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مرکزی حکومت نے گزشتہ 20 مہینے میں نارکوٹکس بیورو کے لیے کسی مستقل ڈائریکٹر جنرل کا تقررنہیں کیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کہیں ملک کے نوجوانوں کو نشے میں دھکیلے کی منصوبہ بند کوشش تو نہیں ہو رہی ہے؟ وزیر اعظم گجرات اور ملک کے نوجوانوں کو اپنا کیوں نہیں سمجھتے؟ اتنا لمبا چوڑا کاروبار چند معمولی لوگوں کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے پسِ پشت ایک منظم گروہ کام کررہا ہے اور اس کی نقاب کشائی لازمی ہے تاکہ نشے کی لعنت سے نجات مل سکے۔

گجرات کے اندر گاندھی جی کی عقیدت میں ہنوز نشہ بندی ہے یعنی شراب نوشی تک کی اجازت نہیں ہے اس لیے کوئی کہہ سکتا ہے کہ بھلا ایسی ریاست کے لوگ منشیات کا استعمال کیسے کرسکتے ہیں؟ ایسے لوگوں کی خوش فہمی دور کرنے والی ایک چونکانے والی رپورٹ پچھلے دنوں ہندی روزنامہ بھاسکر میں شائع ہوئی۔ اس خبر کے مطابق احمد آباد کی پولس نے گزشتہ ماہ 48 لڑکیوں کو نشے کی حالت میں گرفتار کیا۔ ان تعلیم یافتہ لڑکیوں کا تعلق خوشحال گھرانوں سے تھا اور اور یہ نشے کی خاطر جسم فروشی بھی کرنے لگی تھیں۔ ان میں سے ایک 20 سالہ لڑکی کو پولس نے ہوٹل مارویل کے اندر چھاپہ ماری میں پکڑا۔ اس نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح متمول خاندان کی لڑکیوں کو نشے کا عادی بنانے کے بعد جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے؟حراست میں لیے جانے پر ایک مشہور سائنس کالج کی طالبہ نے پولس سےانگریزی میں گفت و شنید کی مگر اس کے ہاتھوں اور جسم پر منشیات کے استعمال کرنے سے پڑے ہوئے انجکشن کے نشانات تھے۔

اس لڑکی کے مطابق ہائی پرو فائل پارٹی میں بلاکر پہلے لڑکیوں کو نشے کا عادی بنایا جاتا ہے اور جب سارا پاکٹ منی خرچ ہوجانے کے باوجود ادائیگی میں کمی رہ جاتی ہے تو انہیں عصمت فروشی پر مجبورکیا جاتا ہے۔ اس بیچاری کے والدین کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے یہ سوچ کر شادی کردی کہ سدھر جائےگی مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ اسی طرح کی کہانی دوسری لڑکیوں کی بھی ہے لیکن اس میں ریاستی یا مرکزی سرکارکو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ بی جے پی کو نشہ مکت بھارت بنانے کے بجائے کانگریس مکت بھارت بنانے کی فکر ہے اور بعید نہیں کہ اس مہم میں منشیات کی کالی کمائی کا استعمال ہوتا ہو کیونکہ آرین خان معاملے میں پکڑے جانے والے منیش بھانوشالی اور کِرن پی گوساوی کا تعلق بی جے پی سے تھا۔ بھانوشالی نے فیس بک پر اپنا تعارف بی جے پی کے نائب صدر کی حیثیت سے کرایا تھا اور بڑے فخر کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی، بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، مہاراشٹر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر دیویندر فڑنویس کے علاوہ موجودہ اور سابق مرکزی اور ریاستی وزراء اور دیگر سینیئر بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کررکھی تھیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ بھانو شالی کا تعلق اسی کچھ کے علاقے سے ہے جہاں آئے دن منشیات ضبط کی جاتی ہے۔ نشے کے اس کاروبار میں بھانوشالی سے لے کر اڈانی تک سارے کچھیوں کو دیکھ کر غالب کا شعر ترمیم کے ساتھ یاد آتا ہے؎
خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
نشے کی سرکار میں جتنے بڑھے کچھی بڑھے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224614 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.