خودکشی۔ وجوہات، اسباب، تدارک

کیا انسانی جان اتنی معمولی ہے کہ تھوڑے سے دنیاوی و مادی فائدے پر قربان کردی جائے ؟

قارئین ! کہا جاتا ہے انسان کی روحانیت اس دنیا میں اسکو جینے کا فن سیکھاتی ہے۔ خدا کی ذات کیساتھ جیسا سلوک اس صدی میں ہوا ہے اسکی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آج انسانی زندگیوں میں ہلچل،بے سکونی، بے ربطگی خدا کے وضع کردہ اصولوں سے انحراف کا نتیجہ ہے۔

مادہ پرستی نے انسانیت کی تمام اقدار کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ آج کا انسان بنیادی اخلاقی اقدار اور انسانیت سے کہیں دور ایک زندگی جی رہا ہے جہاں اسکا مقصد دنیا میں صرف بہتر سے بہتر کی طلب میں نظر آتا ہے۔ زندگی کو مال و متاع کی عینک سے ہی دیکھا جارہا ہے۔ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والا انسان آج زندگی کی معراج کو مال سے وابستہ کیے ہوئے ہے۔

بدقسمتی سےبطور مسلمان آج ایمان کی حالت یہ ہے کہ ہر چیز کی ذمے داری ہم نے اپنے کندھوں پر سوار کرلی ہے ۔ آج ہم ان تمام تعلیمات سے بے بہرہ ہوگئے ہیں کہ جو ہمارا بھروسہ رب العالمین پر زیادہ اور دنیاوی اسباب پر کم کرنے کااموجب بن سکیں۔

اپنے دنیا میں آنے کی مقصد کو چھوڑ کر ہم نے صرف پر تعیش زندگی کو اپنا حدف بنالیا ہے۔ آج تقدیر پر ایمان بشری تقاضوں کے سبب اتنا ناقص ہے کہ انسان اپنے وجود کوکل کائنات سمجھ بیٹھا ہے۔ نتیجتا ذہنی و نفسیاتی امراض کا معاشرہ میں اضافہ ناقابل یقین حد تک ہے۔

خودکشی کرنے کا ایک بڑا سبب مذہب سے دوری ہے۔ بڑھتے ہوئے خودکشی کے واقعات اس امر کی طرف نشاندہی کرتےہیں کہ آج انسان اور رب کے درمیان کا رشتہ ضعیف ہے۔ حال ہی میں ایک اور واقعہ میڈیا کی زینت بنا ہے جس میں ایک فرد (فہیم مغل کہ جو ۵ بیٹیوں اور ۱ بیٹے کا باپ ہے ) حالات کی ستم ظریفی کے سبب خودکشی کا مرتکب ہوا۔ فہیم ۳ با ر اس سے قبل خودکشی کرنے کی کوشش کرچکا تھا مگر ہر بار ناکام ہوا۔ بالآخر وہ خودکشی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اس واقعے کے کئ محرکات ہیں مگر ان میں جو سب سے بڑا محرک ہے وہ انسان کا ذات باری تعالیٰ پر ایمان کا پختہ نہ ہونا ہے۔

اس واقعے میں میڈیا فرد کی خودکشی کو نظر انداز کر کے اپنے حریف چینل کو نشانہ بنارہا ہے۔ راقم نے اس موضوع پر جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ خودکشی اور اسکے مضمرات اخبارات کا موضوع ہی نہیں اسکے برعکس میڈیا پر نجی اداروں کی زبوں حالی کا رونا رویا جارہا ہے۔
کورونا کی عالمی وباء کے بعد تمام اداروں میں ایک کشمکش کی سی صورتحال ہے۔ ہر ادارہ اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے جسکا خمیازہ نوکری پیشہ افراد بھگت رہے ہیں ۔ سرکاری و نجی اداروں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ میرٹ کا قتل عام ہر ادارے کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ من پسند افراد کی بھرتیوں نے اداروں کی حالت قابل رحم بنادی ہے۔

مگر۔۔۔۔۔

کیا حالات انسان کیلئے کسی بھی دور میں موزوں رہے ہیں ؟
کیا حالات سے سمجھوتا اور رب العالمین کو راضی کر کے ہمارے بزرگوں نے بہترین زندگیاں نہیں گزاریں ؟
کیا ہم ایسی شریعت کے امین نہیں کہ جس میں یہ صاف صاف بتادیا ہے کہ مایوسی کفر ہے؟

صاحبو ! حالات جیسے بھی ہوں کوشش ،محنت سے جی کترانا مومن کی شان کے خلاف ہے۔ مسلمان جس شریعت کو ماننے والے ہیں اس میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ حرام قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ جو جسم بطور امانت انسان کے پاس موجود ہو اس پر صرف اسکا حکم چل سکتا ہے کہ جس نے یہ امانت انسان کے سپرد کی ہے ۔ رزق کا وعدہ رب العالمین نے انسان سے کیا ہے۔ راقم نے اپنے بڑوں سے یہ سن رکھا ہے کہ رزق انسان کو ایسے تلاش کرتا ہے جیسے ملک الموت ۔

بطور مسلمان ہمیں اپنے کردار، عمل،ایمان اور اپنی فکر کا اعادہ کرنا ہوگا ۔ آج ہمارا نوجوان مایوسی کا شکارکیوں ہے ؟ حکمران طبقے سے تو کسی خیر کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ آج تہیہ کریں کہ اپنے ارد گرد کے نوجوانوں میں ایمان کےشعلے کو کبھی بجھنے نہیں دیں گے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے روابط میں اگر کوئ انسان کسی ذہنی آزمائش سے گزررہا ہے تو اسکو خدا سے جوڑیں۔
کیا پتا یہ خیر کا عمل آپ کے آنے والوں کیلیے رحمت کا باعث بن جائے۔
کوئ بھی انتہائ قدم اٹھانے سے قبل یہ یاد رکھیں کہ اپنے ہر عمل کا جوابدہ آخرت میں آپکو رب العالمین کے حضور پیش ہوکر دینا ہے اور اسکی بارگاہ میں حساب بکتا نہیں۔
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 23143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.