زمین کے جابر حُکمران اور مَجبور انسان !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ سبا ، اٰیت 31 تا 36 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وقال
الذین کفروا
لن نؤمن بھٰذالقرآن
ولابالذی بین یدیه ولو
ترٰی اذالظٰلمون موقوفون عند
ربھم یرجع بعضھم الٰی بعض القول
یقول الذین استضعفو للذین استکبروا لولا
انتم لکنا مؤمنین 31 قال الذین استکبروا للذین
استضعفوا انحن صددنٰکم عن الھدٰی بعد اذ جاء کم بل
کنتم مجرمین 32 وقال الذین استضعفوا للذین استکبروا بل
مکرالیل والنہار اذتامروننا ان نکفر باللہ ونجعل له اندادا واسروا
الندامة لما راوالعذاب وجعلنا الاغلٰل فی اعناق الذین کفروا ھل یجزون
الا ما کانوا یعملون 33 وما ارسلنا فی قریة من نذیر الا قال مترفوھا انابما
ارسلتم بهٖ کٰفرون 34 وقالو نحن اکثر اموالا ولا اولادا ومانحن بمعذبین 35
قل ان ربی یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر ولٰکن اکثرالناس لا یعلمون 36
اے ھمارے رسُول ! عھدِ رَفتہ کے مُنکرینِ قُرآن نے بھی یہی کہا ھے جو عھدِ حاضر کے مُنکرینِ قُرآن کہہ رھے ہیں کہ ھم تو اِس قُرآن کو بھی نہیں مانتے جو ھمارے زمانے میں نازل ہوا ھے اور اِس قُرآن کے اُن پہلے کتابی اجزا کو بھی نہیں مانتے جو ھمارے زمانے سے پہلے زمانوں میں نازل ہوۓ ہیں ، کتنا حیرت افزا ہوتا جو آپ بھی ماضی کے اُس منظر کی ایک جھلک دیکھ لیتے جب عھدِ رَفتہ کے ایک یومِ حساب پر زمین کے جابر اور زمین کے مجبور انسان اپنے رَب کے دربار میں کھڑے ہو کر اِس بات پر آپس میں جھگڑ رھے تھے کہ زمین کے مجبور انسان زمین کے جابر انسانوں کو یہ کہہ کر کوس رھے تھے کہ اگر زمین پر تُم ھمارے حاکم اور ھم تُمہارے محکوم نہ ہوتے تو آج ھم بھی ایمان کی دولت سے مالا مال ہوکر اللہ کی رحمت کے مُستحق ہوجاتے اور جواب میں وہ جابر حکمران وہی بات کہہ رھے تھے جو آئندہ بھی کہیں گے کہ اگر تمہیں اللہ کے نازل ہونے والے اُن اَحکام کی بات یاد ھے تو پھر یہ بات بھی تمہیں یاد ہو گی کہ ھم نے تو کبھی بھی تُم کو اللہ کے اَحکام ماننے سے منع نہیں کیا تھا ، اللہ کے وہ سارے اَحکامِ اَمر و نہی جو تُمہارے پاس موجُود تھے تُم چاہتے تو اُن پر عمل کرتے جو تُم نے نہیں کیا اور اَب تُم اپنی اُس بے عملی کا ہمیں کیوں ذمہ دار قرار دے رھے ہو جس پر وہ مجبور لوگ اپنے اُن جابر عمال و حکام سے کہیں گے کہ یہ تو ٹھیک ھے کہ اللہ کے اَحکام ھمارے پاس موجُود تھے لیکن تُم اللہ کی زمین پر شب و روز اپنے وہ دین دشمن منصوبے بناتے رہتے تھے جو تُمہارے فوری جبر سے فورا نافذ العمل ہو جاتے تھے اور ھم جب تُمہارے اُن منصوبوں پر عمل کرتے تھے تو اللہ کے اَحکام پر ھمارے عمل کرنے کی کبھی نوبت ہی نہیں آتی تھی اِس لیۓ آج تُم اپنے اُس جُرم سے ہرگز انکار نہیں کر سکتے اور پھر اسی لفظی جنگ کے درمیان میں وہ جابر و مُتکبر حکمران قیامت کے عذاب کا ایک منظر دیکھ لیں گے تو وہ خوف سے سہم جائیں گے اور اُن کے اسی خوف کے دوران اُن کی گردنوں میں آہنی طوق ڈال دیۓ جائیں گے کیونکہ زمین پر حاکمانہ قُوت و اختیار پانے والے بیشتر حکمرانوں کے حاکمانہ جبر کا ہمیشہ یہی انداز رہا ھے کہ وہ حق کی تردید اور ناحق کی تائید کرتے ہیں ، یہی وجہ ھے کہ ھم نے جب بھی زمین کے جس خطے پر اپنے رسُول بھیجے ہیں تو اِن متکبر اہلِ اقتدار نے اُن کو اپنے اقتدار کا دُشمن سمجھ کر اُن کی تکذیب کی ھے اور ماضی میں اِن پر جو یومِ قیامت گزرا ھے اُس میں بھی فردِ جُرم عائد ہونے سے پہلے وہ اِس گمھنڈ میں تھے کہ ھم لوگ تو اتنی جاہ و حشمت کے مالک ہیں کہ ھم لوگ اُن لوگوں میں شامل ہو ہی نہیں سکتے جن کو آج سزا ملنی ھے لیکن اے ھمارے رسُول ! آپ آنے والی قیامت کا سامنا کرنے والے تمام انسانوں کو بتا دیں کہ اللہ اپنی زمین پر جس کو جس مُدت تک مناسب سمجھتا ھے اقتدار و اختیار دیتا ھے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ اُن کی زندگی عارضی ھے اور اُن کا اقتدارِ زندگی بھی محض عارضی ھے !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قیامت کا آنا اور قیامت کے آنے پر انسان کا ایمان لانا قُرآنی تعلیمات کا وہ مقصدی مضمون ھے جس مقصدی مضمون کو قُرآن بار بار انسان کے سامنے لاتا ھے اور جس مضمون کے ذریعے قُرآن بار بار انسان کو یہ یقین دلاتا ھے کہ زمین پر انسان کی یہ بُھوک بَھری اور مُشقت بَھری زندگی ایک عارضی زندگی ھے اور اِس بُھوک بَھری اور مُشقت بھری عارضی زندگی کے بعد انسان کے لیۓ اللہ تعالٰی کے اسی عالَم میں وہ محبت بھری دائمی زندگی بھی موجُود ھے جس محبت بھری زندگی میں انسان کے لیۓ کوئی رَنج و غم نہیں ھے بلکہ راحت ہی راحت اور خوشی ہی خوشی ھے لیکن اِس دُنیا کی اِس موجُودہ زندگی سے نکل کر اُس دُنیا کی اُس موعُودہ زندگی میں داخل ہونے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے جو چند شرائط مقرر کی ہوئی ہیں اُن شرائط میں یومِ قیامت پر ایمان لانا بھی شامل ھے اِس لیۓ جو انسان اِس عارضی زندگی میں قُرآن کی اُن قانُونی شرائط و حدُود کی تکمیل کر لیتا ھے تو وہ اِس عارضی زندگی سے دست کش ہونے کے بعد اُس دائمی زندگی میں داخل ہوجاتا ھے جس کا اُس کے ساتھ یہ خُدائی وعدہ کیا گیا ھے بخلاف اِس کے کہ جو انسان اِس دُنیا میں اِن شرائط کی تکمیل میں ناکام رہتا ھے تو اُس کو مرنے کے بعد پہلے ایک طویل مُدت تک اُس خلقِ جدید میں داخل کر دیا جاتا ھے جس کا سُورَةُالرعد کی اٰیت 5 ، سُورَہِ ابراہیم کی اٰیت 19 ، سُورَةُالسجدة کی اٰیت 10 ، سُورَہِ سبا کی اٰیت 7 ، سُورَہِ فاطر کی اٰیت 16 ، سُورَہِ قٓ کی اٰیت 15 میں بیان ہوا ھے اور جس کا ھم نے سُورَةُالسجدة کی اٰیت 7 تا 11 میں انسان کی خلقِ جدید اور سُورَةُ الرُوم کی اٰیت 11 تا 19 میں انسانی جسم کے اعادہِ جدید کے تحت اپنی استطاعت کے مطابق تفصیل سے ذکر کیا ھے ، قُرآنِ کریم کی اِن تصریحات کے مطابق انسان کی خلقِ جدید کی طویل مُدت اور اِس کے اعادہِ جسمِ کی ایک طویل یا قلیل مُدت کے بعد اُس کے معاملاتِ نجات و حیات کا وہ مرحلہ آتا ھے جو اُس کے ارتقاۓ جدید کا آخری یا پھر محض ایک ترقی پزیر مرحلہ ہوتا ھے ، خالقِ عالَم نے اپنی اِس تخلیق کو حیات کی جن دو آتی جاتی سانسوں کے دو آتے جاتے لمحات میں قید کیا ہوا ھے انسان اگرچہ اِن آتی جاتی سانسوں کے اِن آتے جاتے لَمحات کی قید سے نکل کر اپنے ماضی و مُستقبل میں آنے جانے کی کوئی اہلیت نہیں رکھتا اور اپنے مُستقبل میں تو اپنے سارے علمِ حاضر و موجُود کے بل بوتے پر جھانکنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا لیکن وہ اپنے علمِ موجُود و شعورِ موجُود کی مدد سے اپنے ماضی کا ایک علمی و فکری جائزہ لینے کی بہر حال ایک فطری اہلیت رکھتا ھے اس لیۓ انسان کو لَمحہِ حال و مُستقبل کی ہر مُشکل بات سمجھانے کے لیۓ عھدِ ماضی کی کوئی قابلِ فہم مثال دے کر سمجھایا جاتا ھے تا کہ اُس کو عھدِ حال و مُستقبل کی جو بات سمجھانی مقصود ھے وہ بات وہ ماضی کی ایک آسان سی مثال سے ہی سمجھ جاۓ ، یہی وجہ ھے کہ قُرآنِ کریم نے انسان کو یومِ قیامت اور ساعتِ محشر کا نقشہ سمجھانے کے لیۓ یومِ قیامت اور ساعتِ محشر کا 118 مقامات پر ذکر کیا ھے اور اُس ذکر کے بیشتر مقامات پر اہلِ زمین کو اہلِ زمین پر مُستقبل میں اُمڈ کر آنے والی قیامتوں کو انسان پر ماضی میں گزر کر جانے والی قیامتوں کے اَحوال سے سمجھایا گیا ھے کیونکہ انسان ایک ایسا عجوبہِ روز گار ھے جو اپنے روشن حال کے منصوبے اپنے مُستقبل کی تاریک خیالی سے شروع کرتا ھے اور اپنے تاریک مُستقبل کے فیصلے اپنے روش ماضی کی روشنی میں اَنجام دینے کا خُو گر ھے اسی لیۓ قُرآنِ کریم نے انسان کے مُستقبل کے لیۓ دیۓ گۓ اَحکام کو انسان کے ماضی کے اَحوال سے آراستہ کیا گیا ھے اور مُستقبل کے جن مُعتقدات کو ماضی کے اَحوال سے آراستہ کیا ھے اُن مُعتقدات میں جانے والی قیامتوں کے بعد آنے والی قیامتوں کا وہ اعتقاد بھی شامل کیا ھے جس اعتقاد کو جانے والی قیامتوں کی دلیل سے مُدلل کیا ھے لیکن اٰیاتِ بالا میں قیامت کا جو ذکر وارد ہوا ھے اُس میں گزشتہ قیامت اور آئندہ قیامت کا مُشترکہ ذکر کیا گیا ھے جس میں مُنکرینِ قُرآن کے تکلّمِ قیامت کا جو ذکر آیا ھے وہ ذکر عھدِ ماضی کے تین مؤثر بہ ماضی"قال" اور دو "یرجع" اور "یقول" کے مؤثر بہ مُستقبل صیغوں کے ساتھ آیا ھے جو قُرآن کا وہ ایجازی و اطنابی اُسلوبِ کلام ھے جس کے تحت قُرآن زمان و مکان کے طویل زمانی و مکانی فاصلوں کو چند الفاظ میں سمیٹ کر انسان کو علم و عمل کا ایک ایسا وسیع میدان فراہم کردیتا ھے جو انسان کے سفرِ حیات کو دن بدن صبر آشنا کرتا رہتا ھے لیکن اٰیاتِ بالا کی تفصیلاتِ بالا کا قابلِ ذکر پہلو قُرآنِ کریم کا یہ بیانیہ ھے کہ زمین پر آنے والی گزشتہ اَقوام کا نوشتہِ ھدایت بھی یہی قُرآن تھا اور زمین پر آئندہ آنے والی اقوام کا نوشتہِ ھدایت بھی یہی قُرآن رھے گا مگر اِس مقام پر ھم قُرآن کے نزولِ ماضی کی تاریخی تفصیلات میں اِس لیۓ نہیں جائیں گے کہ یہ تفصیلات ھم سُورَةُالحجر کی اٰیات 89 تا 93 میں پہلے ہی بیان کر چکے ہیں ، قُرآنِ کریم کے اِن مُفصل حوالہ جات سے یہ بات بہر طور طے ہوگئ ھے کہ قُرآن کے اِس آخری نزول کے بعد زمین پر جس قوم نے عزت کے ساتھ زندہ رہنا ھے اُس نے ہمیشہ اسی نوشتہِ حیات کی دلیل کے ساتھ زندہ رہنا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 473497 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More