آخری فیصلہ یہی ہوگا!

نظریے قوموں کے وجود کا ضامن ہوتے ہیں ۔ جو قومیں متحد رہتی ہیں وہ اپنے نظریے کی حفاظت کرتی ہیں۔کچھ فلسفیوں کی نظر میں نظریات کا ارتقاء ضروریات کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی قوموں کا کسی ایک نعرے یا نظریے پر متفق ہونا باہمی ضرورت کے تحت ہوگا ۔ بہت سے فلاسفر جو دنیا بھر میں مقام رکھتے ہیں کی رائے میں چاہے دنیا میں مختلف زبانیں بولنے والوں، بود و باش رکھنے والوں اور سکونت رکھنے والوں کے درمیان ضروریات کا تبادلہ کیوں نہ ہوتا رہے پھر بھی قوموں کے قائم رہنے میں نظریہ ء مذہب ہی سب سے مضبوط ستون ہوگا۔اگر ہم نظریہ ضرورت پر وجود میں آنے والی یا جڑے رہنے والی قوموں کے آپسی تعلق کا جائزہ لیں تو ہمیں ان کے درمیان اتحاد تب تک ہی نظر آتا ہے جب تلک باہمی تجارت یا لین دین باقی ہو۔یعنی ان کے مابین قومیت کی مقناطیسیت کو متوازن تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح سے اگر یہ کہا جائے کہ ضرورت ایجاد کی ماں تو ہو سکتی ہے لیکن کسی بھی طور نظریہ کی تعریف پر پورا نہیں اترتی تو یہی صحیح ہوگا۔ نظریہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ ایسا نعرہ یا جملہ جس پر لوگوں کی ایک بڑی یا چھوٹی آبادی عقیدتاََ متفق ہو۔ اس طرح سے مذہب کے بنیادی ستون اور تعارفی نعرے نظریہ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ یعنی یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا میں مختلف مذاہب کو ماننے والے اپنی الگ قومی پہچان رکھتے ہیں اور ان کے سکونتی، تجارت، معاشرتی و سماجی ضروریات کے تحت روابط تو ہو سکتے ہیں مگر وہ ایک قوم نہیں ہیں۔

اگر ہم دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیشہ سے ہی قائم کردہ نظریات دوسرے نظریات پر برتری قائم رکھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ عالمی منظر نامے پر دیکھا جائے تو اس وقت نظریہ مذہب ہی رائج ہے اور جن مذاہب کی قومیں طاقت ور ہیں وہ دوسرے مذاہب کی قوموں کو ہمیشہ سے دباؤ میں رکھنے کیلئے مختلف ہتھ کنڈے استعمال کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جسے نظریہ مذہب کے تحت حاصل کیا گیا تھا! جو اس نظریہ پر قائم ہوا کہ اسلام کو ماننے والے مسلمان ایک قوم ہیں اور دوسرے مذاہب کو ماننے والے الگ قوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر کی اقوام کو گلاب کے نیچے موجود کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے ۔ یعنی دنیا میں ترقی یافتہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی قومیں اسلامو فوبیا کے ساتھ ساتھ پاکستانو فوبیا کا بھی شکار ہیں ،جنہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں نظریہ اسلام غالب نہ ہوجائے۔دنیا میں جہاں کہیں بھی کچھ ایسا سانحہ ہو جائے جو انسانیت کے خلاف ہو تو اس پر مختلف آراء رکھی جاتی ہیں۔ یعنی اگر کوئی مسلمان حلیہ رکھنے والا یا مسلم نام رکھنے والا شخص کسی ایسی کاروائی میں ملوث ہو جسکی وجہ سے انسانیت متاثر ہو تو صرف اس شخص پر بات نہیں کی جاتی بلکہ اسلامی نظریہ کو برا کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی کام کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد یا افراد سے سرزد ہو جائے تو وہاں کبھی کسی نظریے کو کوسا نہیں جاتا بلکہ انفرادی طور پر مجرم قرار دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر جارج بش پراپیگنڈا پھیلا کر عراق و شام میں پچاس لاکھ معصوم لوگوں کو قتل کر دے یا افغانستان پر چڑھائی کر کے تیس سال ایک بے معنی جنگ میں پورے خطے کا مستقبل جھونک دے، یہودیوں کا ایک گروہ فلسطین کے بے گناہ لوگوں کو شہید کر کے یا قید کر کے یا انہیں ہجرت پر مجبور کر کے بے گھر کر دے، یا میانمار کے مسلمانوں کو آگ کی بھٹی میں جھونک کر باقیوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا جائے، یا مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں پر بہیمانہ لاک ڈاؤن اور قتل عام کیا جائے، یا بھارت کے اندر مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر قبضہ کر لیا جائے، مساجد کو مسمار کر کے مندر تعمیر کروائے جائیں، انہیں مذہبی ارکان کی تکمیل سے روک دیا جائے ، یا لبرل ازم کے دعویدار ممالک میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کر لی جائے تو ایسے ممالک ، ان کے نظریات و مذاہب پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا مگر دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی شخص مسلمانوں والا لباس، نام اور پہچان بنا کر گناہ کرے تو پورے اسلامک نظریے کے خلاف پراپیگنڈا شروع ہو جاتا ہے۔در اصل یہی اسلامو فوبیا ہے جس نے دنیا بھر کے دانشوروں کی عقلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ ایسے پراپیگنڈوں کی ذریعے ہی لوگوں کو اسلام کے بارے میں جاننے اور تحقیق کرنے سے باز رکھا جانا مقصود ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں ہونے والے سیالکوٹ سانحے پر پورا ملک سوگوار ہے ۔ واقعے کی تحقیقات میں حکومت کی ساری مشینری استعمال ہو گئی اور رپورٹ بھی مرتب ہو گئی۔ کئی مجرم بھی گرفتار ہوگئے ۔ لیکن ابھی تک کئی دانشوروں کی رائے میں پاکستان کیلئے سری لنکا اور عالمی برادری کو اعتماد میں لینا بہت مشکل ہے۔وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ کسی ایک گروہ یا فرد کی جانب سے کئے جانے والے غیر انسانی اور ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار پوری قوم یا اس سے جڑے نظریے کو کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ جبکہ سری لنکن پانڈواز اور ہندو مت کے مجدد کورونواز کی مہابھارت جنگ آج بھی ہزاروں سال بعد ہندومت کی کتاب مہابھارت میں پورے شان سے درج ہے، جس میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں تھیں ۔ اس جنگ میں لڑنے والے ان دونوں قوموں کے مذاہب کے بانی ہی تھے۔ کیا کالی بھیڑیں ہر جگہ موجود نہیں ہیں؟ کیا امریکہ میں ہر منٹ کے حساب سے ریپ کیسز نہیں ہوتے؟ کیا بھارت میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی میں چیلنجز کا سامنا نہیں ہے؟ کیا برطانیہ اور یورپ میں موجود مسلم خواتین کو حجاب پہننے پر مختلف ہتھکنڈوں سے پریشان نہیں کیا جاتا؟کیا فرانس اسلام کی شخصیات کو نشانہ نہیں بناتا؟ کیا سری لنکا میں سٹریٹ کرائم نہیں ہوتا؟ وہاں فیکٹریوں میں لوگوں کو ذات پات کے نام پر نہیں مارا جاتا؟ اور تف تو پاکستان کے دانشوروں پر ہے جن کی وجہ سے بھارت سے تعلق رکھنے والے سوشلسٹ پاکستان اور اسلام کی ساکھ پہنچانے میں با آسانی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کاش یہ لوگ نظریہ پاکستان کے دفاع میں بھی خود کو اتنا ہی صرف کرتے جتنا افواہوں اور پراپیگنڈوں کے بہاؤ میں بہہ کر شہرت حاصل کرنے کیلئے کرتے ہیں؟ آخر میں فیصلہ یہی ہوگا ! میری آنکھیں دیکھیں یا نہ دیکھیں لیکن ساری دنیا دو ہی نظریوں پر آمنے سامنے ہوگی! ایک نظریہ ء اسلام اور دوسرا نظریہ ء صیہونیت! اس وقت کمزوری دکھا کر ہارنے کی بجائے یا نئے سرے سے اتحاد بنانے کی کوششوں کی بجائے آج وقت ہے کہ مسلمان ایک قوم بن کر نظریہ اسلام پر متحد ہو ئیں۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 167843 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More