چوری ہونا قائدِ اعظم کی عینک کا!

 قائدِ اعظم کی عینک چوری ہو گئی، یہ سانحہ کسی عجائب گھر یا وزیر مینشن میں رونما نہیں ہوابلکہ جنوبی پنجاب کے ایک شہر وہاڑی میں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس فکر میں جان مارنے کی ضرورت نہیں کہ قائد ِ اعظم کی عینک وہاڑی کیسے پہنچی؟ پریشانی اس بات کی ہے کہ چور نے قائد کی عینک کا کرنا کیا تھا؟ اگر وہ فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو ’رنگے ہاتھوں‘ پکڑا جائے گا، خود اپنے چہرے پر سجا کر باہر نکلتا ہے تو بھی عجیب سا لگے گا اور پہلی نظر میں ہی قابو آجائے گا، اگر کسی شیشے کے بکس میں رکھ کر لوگوں کو نوادرات کی زیارت کرانے کی ہمت کرتا ہے تو بھی معاملہ مشکوک ہی ہو جائے گا۔ خیر چور نے عینک کے استعمال یا حفاظت وغیرہ کے بارے میں پہلے منصوبہ بندی کر رکھی ہوگی ، جو ممکن ہے جلد ہی سامنے آجائے گی۔ چور کو کٹہرے میں لانا انتظامیہ کاکام ہے، جس کا م کا بیڑہ پولیس اٹھا لے، وہ بھلا کیسے ادھورا رہ سکتا ہے۔ اگر چور کی منصوبہ بندی سامنے نہ آئی تو پولیس چور بھی تلاش کر لے گی اور اُس کی اصل نیت کا حال بھی جان لے گی۔

وہاڑی میں یہ عینک قائد ِ اعظم کے مجسمے کے چہرے پر سجائی گئی تھی، جسے ڈپٹی کمشنر بہادر کے کمپلیکس کے باہر کھڑا کیا گیا تھا، پولیس نے کسی نا ہنجار اور نامعلوم چور کے خلاف مقدمہ تو درج کر لیا ہے، چوری کی وجوہات البتہ ابھی تلاش کی جارہی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ بتائی گئی ہے کہ سردیوں میں برآمد ہونے والی دھند سے جب منظر نامہ عملی طور پر دھندلا جاتا ہے، تو چوری چکاری کرنے والوں کو اپنے ہاتھ کی صفائی کا موقع مل جاتا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر چور اپنا کام دکھا گیا۔ جہاں تک دھند کا معاملہ ہے ابھی اس شدت کی دھند جنوبی پنجاب کی طرف آئی تو نہیں، مگر معاملہ پر مٹی ڈالنے کے لئے یا معاملہ اٹھانے والوں کی آنکھوں میں مٹی جھونکنے کے لئے یہ جواز اچھا ہے۔

چور کے عینک لے اُڑنے کے بعد قائدِ اعظم بھی اس گہری سوچ میں ڈوب گئے ہوں گے کہ اِن لوگوں نے مجھے دھند اور اندھیرے میں کیوں کھڑا کر رکھا ہے؟ جن ڈپٹی کمشنر بہادر نے یہ مجسمہ بنوایا ہو گا، انہوں نے بھی قائد کے اقوال و افعال کا جائزہ ضرور لیا ہوگا، شاید سوچا بھی ہو کہ اُن کے دفتر کے تمام اہلکار اپنے فرائض نبھاتے ہوئے یہ ذہن میں رکھیں گے کہ قائدِ اعظم ہمارے اوپر نظر جمائے ہوئے ہیں، ہم کام کرتے وقت فرموداتِ قائد ذہن میں رکھیں، زبانی حد تک تو قائد اعظم کے اقوال و خطابات کا بہت لحاظ رکھتے ہیں، مگر عمل کی صورت ذرا مشکل ہے۔ اگر کسی افسر یا اہلکار کے ذہن میں قائد اعظم کی موجودگی کی پریشانی تھی بھی سہی تو وہ چند روز میں ختم ہو گئی ہو گی، کہ قائد اعظم نے تو ہماری ہر قسم کی کارکردگی پر خاموشی ہی اختیار کر رکھی ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ چور نے اس بات کا جائزہ لینے کے لئے عینک چرائی ہو کہ دیکھیں قائد پاکستان کو کس نظر(عینک) سے دیکھتے تھے، ان کی عینک سے محنت، ایمانداری، وقت کی پابندی اور زندگی گزارنے کے دیگر ضروری لوازمات کیسے دکھائی دیتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اِسی دفتر سے کوئی دانشور اٹھے اور قائد کے نظریات پر عملی لیکچر شروع کردے تو جان لیا جائے کہ عینک اُسی کے پاس ہے، وہ گھر جا کر اُسی عینک سے معاملات کا جائزہ لیتا اور دوسروں کو قیمتی مشورے دیتا ہے۔ڈپٹی کمشنر بہادر نے نامعلوم چور کے خلاف مقدمہ درج کروا کے حکم جاری کر دیا ہے کہ گرفتار کر کے اسے عبرتناک سزا دی جائے گی، تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت کی جرات نہ کرے۔ احتیاطاً مجسمے کے گرد حفاظتی جنگلا بھی مزید اونچا کیا جارہا ہے، ممکن ہے دفتر کے عملہ میں سے کسی کی ذمہ داری بھی لگائی جائے گی کہ وہ مجسمے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے والوں کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھے۔ یہ کہانی الگ ہے کہ اپنے ہاں کیفر کردار تک کتنے لوگ پہنچے اور کتنوں نے عبرت پکڑی؟ اور عینک چرانے جیسے جرائم پر کس درجے کی سزا ملی اور کتنی عبرت ہوئی؟ یہاں تو پورے ملک کے عوام کے احساس پر چھا جانے والے واقعات پر بھی ایسی سزا نہیں مل سکتی کہ دوسروں کو عبرت ہو، چہ جائیکہ ایک عینک چرانے پر ایسا ہو سکے۔

بہاول پور میں ہاکی کے مایہ ناز سابق کھلاڑی سمیع اﷲ کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔ چند روز بھی نہ گزرے تھے کہ کوئی ضرورت مند سمیع اﷲ کے ہاتھ سے ہاکی اچک لے گیا۔ پھر گیند بھی غائب ہو گئی، اور مزید سے مزید بھی۔ وہاں بھی مجسمہ کو محبت کرنے والوں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لئے جنگلا اونچا کرنا پڑا۔ پاکستان میں ہجوم کا قومی یا ذاتی املاک کا توڑ پھوڑ، گھیراؤ جلاؤ وغیرہ ایک تفریحی پروگرام ہے۔ دوسری طرف یہ چھوٹی موٹی چوری چکاری ، ہلکی پھلکی شرارت یا اس قسم کی سرگرمی عوامی شغل میں شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمارے ضلعی افسران کا شوق بھی یہی ہے، کہ مجسمے بنوا دیں گے، آرائش ونمائش کی کوئی اور چیز چوکوں اور پارکوں میں سجادیں گے، یقینا خوبصورتی کے لئے ان چیزوں کی معقول حد تک ضرورت بھی ہے، مگر پہلے حقیقی ضروریات پوری ہو جائیں، تب اضافی خرچ کیا جائے۔مگر کیا کیجئے، شہروں میں چند بڑی شاہراہوں کے علاوہ کھنڈر کا منظر پیش کرتی سڑکیں، جھیلوں کی صورت سیوریج کا پانی، دو کمروں پر مشتمل سرکاری پرائمری سکول ، بغیر سہولیات کے چھوٹے بڑے ہسپتال اور دیگر بے شمار مسائل پر نہ سیاستدان توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی یہ بیوروکریسی۔ بہرحال وہاڑی کی انتظامیہ چور کے پیچھے ہے، ضرور ڈھونڈ نکالے گی، قوم کو جلد خوشخبری ملے گی، اچھی خبر یہ ہے کہ انتظامیہ نے قائد اعظم کو نئی عینک پہنا دی ہے۔

 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429106 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.