کراچی میں تشدد کی نئی لہر

صدر زرداری نے پُر تشدد واقعات کا ایک بار پھر نوٹس لے لیا
حالات خراب کرنے میں کچھ حکومتی وزراء ملوث ہیں۔ حیدر عباس رضوی
ایم کیو ایم بلیم گیم سے گریز کرے اس سے حالات خراب ہوتے ہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان

کراچی میں چار روز کے امن کے بعد تشدد کی اٹھنے والی نئی لہر نے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ملیر اور لانڈھی میں مہاجر قومی موومنٹ کا داخلہ روکنے پر خوں ریز تصادم شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق اور 3 خواتین سمیت 22 افراد زخمی ہوگئے۔ علاقے میں داخل ہونے والے مہاجر قومی موومنٹ کے کارکنان نے 4گھنٹوں میں متحدہ کے ملیر سیکٹر کے بڑے یونٹوں پر قبضہ کرکے مہاجر قومی موومنٹ اور اللہ اکبر کے سفید جھنڈے لہرادیے، تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے مہاجر قومی موومنٹ کے رہنماؤں سے بات چیت کے بعد متحدہ ملیر سیکٹر کے تمام یونٹوں پر قبضہ ختم کردیا گیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے 5، مہاجر قومی موومنٹ کا ایک، اے این پی کے 2 کارکن اور دیگر راہ گیر و عام شہری شامل ہیں۔ دہشت گردوں نے دستی بم سے حملے بھی کیے اور ایک گاڑی نذر آتش کردی۔ جبکہ مسلح تصادم کے نتیجے میں غریب آباد، عمار یاسر سوسائٹی اور سعودی کالونی سمیت متاثرہ علاقوں کے مکین اپنے گھروں میں محصور ہوگئے جس کے باعث بیشتر افراد جمعے کی نماز ادا نہیں کرسکے۔ اسی دوران نارتھ ناظم آباد میں شاہراہ نور جہاں، گلشن معمار، بلدیہ ٹاؤن اور عیسیٰ نگری میں بھی فائرنگ کے واقعات میں مزید 4 افراد لقمہءاجل بن گئے، جبکہ 9 افراد زخمی بھی ہوئے۔

پولیس و رینجرز نے ملیر اور لانڈھی کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران 40 سے زائد افراد کو حراست میں لینے اور ان سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں پُر تشدد واقعات کا ایک بار پھر نوٹس لے لیا۔ صدر نے صوبائی وزیر داخلہ کو بلاول ہاؤس طلب کرکے پیش آنے والے واقعات پر بریفنگ بھی لی۔

حکومتی ایماءپر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے گورنری کا چارج دوبارہ سنبھال لیا ہے۔ گورنر ابھی تک پوری طرح فعال بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کا مخالف گروپ میدان میں آگیا یوں گورنر کی واپسی سے کراچی کی سیاست میں جو وقتی سا ٹھراؤ آگیا تھا، تازہ واقعات سے سیاسی درجہ حرارت میں پھر اضافہ ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے حکومت پر الزام لگایا کہ یہ سب کچھ حکومت کررہی ہے۔ متحدہ کے رہنما حیدر عباس رضوی نے کہا ہے کہ کراچی میں 5 روز تک رینجرز کو طلب کیوں نہیں کیا گیا، شہر کے حالات خراب کرنے میں کچھ حکومتی وزراءملوث ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت نے متحدہ کا الزام مسترد کردیا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم بلیم گیم سے گریز کرے اس سے حالات خراب ہوتے ہیں۔

اس منظر نامے سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے ایک ہاتھ میں گاجر اور دوسرے میں ڈنڈا ہے۔ پیپلزپارٹی ایک طرف تو متحدہ کو حکومت میں لانے پر راضی کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے اور جب ہی سندھ کے وزیر بلدیات آغا سراج درانی نے گورنر سندھ سے ملاقات میں ایم کیو ایم کو بلدیاتی اور کمشنری نظام میں ترامیم کی مشروط پیش کش کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم حکومت میں واپس آجائے تو کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی اور کمشنری نظام میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ایک طرف پیپلزپارٹی مفاہمتی پالیسی کے تحت آزاد کشمیر کے کراچی کے حلقوں پر انتخاب سے دستبردار ہورہی ہے تو دوسری طرف متحدہ مخالف گروپ کو سامنے لاکر انہیں دباؤ میں لانے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے۔ اس حوالے سے ایڈیشنل آئی جی کراچی کا بیان قابل غور ہے۔ سعود مرزا نے پر تشدد واقعات کے بعد اپنے رد عمل میں کہا کہ ”ایسی اطلاعات ہیں کہ ایم کیو ایم آفاق گروپ کے کارکنوں نے کالعدم امن کمیٹی کے ارکان کے ہمراہ علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جس کے بعد صورتحال خراب ہوئی۔“ جبکہ کالعدم پیپلز امن کمیٹی کی سرپرستی کا الزام پیپلزپارٹی کے رہنماؤں پر لگایا جاتا ہے۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت خود ڈبل گیم کھیل رہی ہے۔ حکومت نے متحدہ کو منایا، کیا اس میں حکمران مخلص ہیں؟ کراچی میں اتنے بڑے واقعے کے بعد حکومتی رویے پر بہت سارے سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ دوسری طرف کراچی کے واقعات پر قومی اسمبلی میں جمعہ کو ایم کیو ایم اور نواز لیگ کے ارکان نے احتجاج اور علامتی واک آؤٹ کیا۔ ایم کیو ایم کے رکن ساجد احمد نے کہا کہ ملیر کے واقعات میں ذوالفقار مرزا کے زیر سرپرستی لیاری گینگ وار ملوث ہے۔ ایوان میں موجود وزیراعظم نے کراچی کے حالات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہر اقتصادی مرکز ہے، یہاں بدامنی برداشت نہیں کرسکتے۔ سیاسی جماعتیں مل کر کراچی کے مسئلے کا حل نکالیں۔

وزیراعظم کو کراچی کے مسئلے کا پس منظر معلوم ہی ہوگا۔ انہوں نے اس کے باوجود سیاسی جماعتوں سے تعاون کی اپیل کی۔ حالاں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر حکومت مخلص ہو تو کراچی کے حالات 2 دن میں ٹھیک کیے جاسکتے ہیں لیکن جب ملزمان کی پشت پناہی خود سیاست دان کریں گے جب ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری پر حکومت سیاسی رہنماؤں کے دباؤ میں آکر خود انہیں چھڑوائے گی تو پھر کہاں کا امن اور کیسا امن؟ لہٰذا حکومت کراچی میں بغیر کسی دباؤ کے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے، کراچی کو اسلحے سے پاک کرے اور بدامنی سے متاثرہ علاقوں میں آپریشن کرواکر دہشت گردوں کا صفایا کردے تو بدامنی کا خاتمہ ممکن ہے۔

دوسری جانب سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کو اپوزیشن نشستیں الاٹ کردی گئی ہیں، ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے ان کی درخواست قبول کرنے کی تصدیق کی ہے جبکہ فنکشنل لیگ، ق لیگ اور نیشنل پیپلزپارٹی کی حکومتی بنچوں پر بیٹھنے کی درخواست بھی قبول کرلی گئی ہے۔ جبکہ ہم خیال ارباب گروپ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے گا۔

اگرچہ پیپلزپارٹی اور متحدہ کی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی ہے۔ اسی کے تحت گورنر سندھ کی واپسی ہوئی ہے تاہم ایم کیو ایم فی الحال حکومتی بنچوں پر واپس آنے سے گریز کررہی ہے تاکہ حکومت کو دباؤ میں لاسکے اور بوقت ضرورت حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف موثر آواز اٹھاسکے۔ تاہم متحدہ کی حکومتی بنچوں پر واپسی کے دروازے عملاً شائد بند ہوگئے ہیں۔ گزشتہ کالم میں بھی ہم نے یہی عرض کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ متحدہ کے جانے سے خالی ہونے والی وزارتوں پر دوسرے وزراءنے حلف اٹھالیا ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم حکمت عملی کے ساتھ اپنے اپنے پتے استعمال کررہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی کس کا مقدر بنتی ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.