شرک کی تعریف وتوضیح

شرک کا لغوی معنی ،برابری جبکہ شرک کی واضح تعریف جو علمائِ کرام نے کی ہے وہ یہ ہے کہ اَللہ تعالیٰ کے کسی وصف کو غیر اللہ کیلئے اِس طرح ثابت کرنا جس طرح اور جس حیثیت سے وہ اَللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہے ،یعنی یہ اِعتقاد رکھنا کہ جس طرح اَللہ تعالیٰ کا علم اَزَلی، اَبدی ، ذاتی اور غیر محدود ومحیطِ کل(سب کو گھیرے ہوئے ) ہے ،اِسی طرح نبی اورولی کو بھی ہے اور جس طرح اَللہ تعالیٰ جملہ صفاتِ کمالیہ کا مستحق اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے ،اِسی طرح غیر اللہ بھی ہے تو یہ شرک ہو گا اور یہی وہ شرک ہے جس کی وجہ سے اِنسان دائرۂ اِسلام سے خارِج ہو جاتا ہے اور بغیر توبہ مرگیا تو ہمیشہ کیلئے جہنم کا اِیندھن بنے گا اور اِسی شرک کے متعلق اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً بَعِیْدًا} [النساء : ۱۱۶]
ترجمہ : ’’بے شک اَللہ تعالیٰ شرک کرنے والے کو نہیں بخشتا اور اِس کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اَللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنا تا ہے تو وہ دُور کی گمراہی میں جاپڑا۔‘‘

ایک اور مقام پر اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ وَاِذْ قاَلَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ ٰیبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ،اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ } [لقمان : ۱۳]
ترجمہ : ’’ اور جب حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے بیٹے ! اَللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت بنانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔‘‘

قرآن مجید کے بعد اَحادیث ِمبارکہ میں بھی شرک کی مذمت کی گئی ہے :
{ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍص : قَالَ اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ بِعَشْرِکَلِمَاتٍ، فَقَالَا: لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِقْتَ }
[مشکوۃ المصابیح : کتاب الایمان ، باب الکبائر وعلامات النفاق ، الفصل الثالث :۱۸]۔۔۔۔۔[سنن احمد : مسند الانصار، باب حدیث معاذ : ( رقم الحدیث للتسجیل: ۲۱۰۶۰) ]
ترجمہ :’’ حضرت معاذ بن جبل صفرماتے ہیں کہ رَسولِ اَکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دس کلمات کی نصیحت کی ، پس آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تُو اَللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت بنانا اگرچہ تجھے قتل کردیا جائے اور تجھے جلا دیا جائے ۔‘‘

[ اَلْاِنْتِبَاہْ]: دیکھئے رَسو لُ اللہ شرک سے بچنے کی یہاں تک تاکید کرتے ہیں کہ اگر جان بھی جائے تو بھی شرک نہیں کر نا کیونکہ یہ ایک سنگین جرم ہے جو کہ ناقابل معافی ہے ۔

٭ شرک کا معیار ٭
جس فعل کا شرک ہونا نص سے ثابت ہو ،وہ واقعی حرام اورممنوع ہو گا اور جس فعل کے شرک ہونے پر قرآن وحدیث میں صراحت نہ ہو تو اُس کو خواہ مخواہ اپنی طرف سے شرک ٹھہرانا اور اُس کے ممنوع ہونے کے فتوے دینا سراسر حماقت اور نادانی ہے کیونکہ اگر ہر جگہ شرک یا وہمِ شرک کابلادَلیل اِعتبار کرلیا جائے تو دَائرۂ اِسلام اِس قدر تنگ ہوجائے گا کہ تلاش کرنے سے بھی کوئی مسلمان نہ ملے گا ، مثال کے طور پر اَللہ تعالیٰ موجود ہے ،اب کسی غیر کو ہرگزموجود نہیں کہناچاہئے کیونکہ اِس سے شرک کا وہم پڑتا ہے کہ اَللہ تعالیٰ بھی موجود اور غیرُا للہ بھی موجود ، لہٰذاِس غیرُا للہ کو معدوم کہنا چاہئے حالانکہ کوئی عاقل بھی اِس بات کو ماننے کیلئے تیار نہ ہو گا ،لہٰذا یہاں کہنا پڑے گا کہ اَللہ تعالیٰ ذاتی طور پر موجود ہے جبکہ غیرُ اللہ اَللہ تعالیٰ کی عطاء سے مجازی طور پر موجود ہے ۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 409639 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.