حصول دَر حصول کی زنجیر

آج کا دور مشینی دور ہے ہماری سوچیں بھی کسی کمپیوٹر کی مانند الگ الگ سوفٹ ویئرز کی طرح کا م کرتی ہیں اور ہمیں بہت اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ کون سا سوفٹ ویئر کس طرح ،کس لئے اور کس وقت پر استعمال کرنا ہے جیسے ہمیں کو بخوبی علم ہوتاہے کہ کِی۔بورڈ کی کونسی کِی پَریس کرنے سے اسکرین پر کیا wordبنے گا،اسی طرح ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہم نے کس وقت اپنی سوچ کا کونسا سوفٹ ویئر استعمال کرنا ہے ہماری زندگیاں کمپیوٹر پروگرام کی طرح فکسڈ ہوچکی ہیں دوسرے الفاظ میں ہم زیادہ تہذیب یافتہ ہو گئے ہیں اور مہذہب آدمی سمجھتا ہے کہ وہ سوسائٹی کو،سوسائٹی کی ویلیوز کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے کہ اسے کس وقت،کس طرح تیار ہونا ہے،کونسا پرفیوم کس موقع پر لگانا ہے،کس کَلر کی ٹائی کس قسم کے فنکشن میں ٹھیک رہے گی ،کب اسے سوٹڈ بوٹد پروفیشنل مین بننا ہے،کس میٹنگ میں کتنا قیمتی سوٹ پہننا ہے اور کب وہ سفید کُرتے ،بیلو جینزاور سلیپر میں باہر جا سکتا ہے،کب اسے کانٹے اور چمچے کا استعمال کرنا ہے،کب اکڑ کر چلنا ہے،کب لہجہ دھیما اورکب سخت رکھنا ہے،کس گیٹگری کے آدمی کو کتنی گھاس ڈالنی ہے،کس گریڈ کے آفسر کی خوشامد کرنی ہے،کب مغربی لبادہ اُتار کر مذہب کا چُولا پہننا ہے اور جتانا ہے کہ دیکھو میں ماڈرن اور لبرل ہونے کے باوجود مذہب نامی دیوار سے نہیں پھلانگاحالانکہ جب یہ ماڈرن اور لبرل ہوتا ہے تو اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ آزاد خیال کوئی نہیں ماڈرن لوگوں کی طرح نائٹس کلب،ڈانس پارٹیاں،ڈرنک اور وہ سب کرتا ہے جو اس پر یہ لیبل لگا دیں کہ یہ ماڈرن ہے انگریز کی طرح اپنی زندگی سے حلال وحرام کا فرق مٹا دیتا ہے جیسے کوئی سَلیٹ پر لکھی عبارت کپڑے سے رگڑ کر صاف ڈالے اور اپنی مرضی کی نئی عبارت لکھ لے!!الغرض آج کا انسان جانتا ہے کہ اس نے کب کس کتاب کا صفحہ کھُولنا ہے یا کِی ۔بورڈ کی کونسی کِی پریس کرنی ہے۔

آج کا تعلیم یافتہ طبقہ خود کو دوسروں سے لائق فائق سمجھنے کی سنگین غلطی کر رہا ہے اس طبقے کا ایک محبوب مشغلہ ہوتا ہے کہ مشرق سے مغرب تک کے نئے پرانے فلسفیوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، ناول نگاروں ،مفکروں وغیرہ کے تھیوریز پر دیر تک لاحاسل بحث کرنا ،اپنی سوچ کو مرے ہوئے تجسس میں الجھنا اور کم علم لوگوں پر اپنے تیکھے الفاظ اور مستمار علم کا رُعب ڈالنا اور ثابت کرنا کہ وہ کتنے پڑھے لکھے ہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ماڈرن ،تعلیم یافتہ کتابی طبقے سے زیادہ کوئی لاجواب نہیں ہوتا،یہ طبقہ اپنے ہی سوالوں پر لاجواب رہتے ہیں جواب کی کھوج میں سرگرداں لا یعنی کشمکش میں نڈھال،تھکے ماندے تشفی اور کامل یقین کے لئے زندگی کو گمبھیر بنا لیتے ہے ریاضی کی کسی مشکل سوال کی طرح!یہی تعلیم کا المیہ ہے یہ کسی اسٹیچ پر کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیتی،ہر جواب دس نئے سوال پیدا کردیتا ہے اور یو لامتناہی کھُوج کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور یہ سفر آدمی کو تھکا چھوڑتا ہے بھگا بھگا کر ہلکان کر دیتا ہے لیکن تسلی ایک سیڑھی چڑھ کر اسے لگتا ہے کہ ابھی تو اسے تشفی نہیں ہوئی ،اس لئے زینہ درزینہ چڑھتا جاتا ہے اُلجھتا جاتا ہے۔
نقش عہدِحاضر کا ہے یہ ایک المیہ
لا جواب ہے انسان ، اپنے ہی سوالوں سے

کتابوں میں جھانک تانک کبھی انسان کو تشفی نہیں دیتی بلکہ تشنگی کو اور بڑھا دیتی ہے جیسے سخت گرمی کے موسم میں ٹھنڈا پانی پینے سے پیاس بجھتی نہیں لگتا ہے کہ پانی پیا ہی نہیں،حلق بھی خشک ہورہا ہوتا ہے اسی طرح کتابیں انسان کو مزیداُلجھا دیتی ہیںوہ حقیقت سے کٹتا چلا جا تا ہے وہ فلسفیوں ،دانشوروں کی دی گئی تھیوریز میں جیتا ہے جو کب کے مرکھپ گئےزند گی کوئی کتاب پر لکھی عبارت نہیں کہ جو پڑھنا نہیں جانتا،جس نے سرے سے اسکول کی شکل نہیں دیکھی وہ ساری عمر”زندگی“کو سمجھ نا سکے یا جس نے بڑے بڑے فلاسفروں کے نظریات نہیں پڑھے وہ جان ہی نہ پائے کہ زندگی کیا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو صرف تعلیم یافتہ لوگ ہی جی رہے ہوتےدراصل زندگی نا تو کوئی راز ہے ناہی کوئی پہیلی اور ناہی کوئی سوال!!یہ تو بڑی سادہ اور آسان شے ہے جسے نئے پرانے فلسفیوں،ادیبوں،دانشوروں اور شاعروں نے اُلجھا کر،تروڑ مروڑ کر گنجلگ کرڈالا ہے اور زندگی کو ”حصول دَرحصول “کا معکوس بنا چھوڑا ہے جن کے بقول جب تک انسان حصول دَرحصول کی سیڑھی نہیں چڑھتا وہ زندگی کو نہیں پا سکتا!!!آج کا دور حصول در حصول کا فلسفہ پڑھتا ہے،معاشرہ شروع سے انسان کو لالچ دیتا ہے کہ”اگر وہ پہلی جماعت میںمحنت کرے گا تو اگلی جماعت تک رسائی پالے گاپھر اگلی جماعت سے اگلی تک کا ”حصول“مڈل سے میٹرک کا”حصول“کامیابی سے طے کرلیا تو اچھے کالج کا نیا ”حصول “ دے دیا جاتا ہے اورکا لج میں محنت کی تو کسی بڑی انجینئرنگ یا میڈیکل یونیورسٹی کے لئے کوالیفائی کرنا اس کی ترجیحات میں سب سے اہم” حصول“ بنا دیا جاتا ہے اس کے پس ِپردہ ان گنت جھوٹے بڑے مُحرکات شامل کرکے”حصول“ کو زندگی سے جوڑا جاتا ہے یونیورسٹی میں تعلیم سے زیادہ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اچھی ڈویژن کا یقینی بناﺅ، فرسٹ ڈویژن میں قابلیت کا ٹیکہ لگنے کے بعد اچھی نوکر ی کا” حصول“معاشرہ رکھ چھوڑتا ہے،نوکری کے حصول کے بعد معاشرے کا کام ختم ہو جاتا ہے اس وقت تک حصول دَرحصول کی گردان اتنی پکی ہو جاتی ہے کہ انسان میچور اور پریکٹیکل ہوجاتا ہے اب وہ نوکری کے بعد ترقی کے ”حصول“ کا گول بنا لیتا ہے یہ گول ایک طرح کا جھانسہ ہوتا ہے انسان کو خود سے غافل رکھنے کا ،اور معاشرہ کا حصول زیادہ سے زیادہ” آؤٹ پٹ“ہوتا ہے اس لئے جب وہ ایک گریڈ حاصل کرلیتا ہے توخودبخود مزید پروموشن کے لئے جت جاتا ہے ”حصول دَرحصول “کی جبلت اتنی پختہ ہو چکی ہوتی ہے کہ اسے بیرونی مُحرک کی بھی ضرورت نہیں رہتی،اندر ہی اندر وہ متحرک رہتا ہے ایک حصول کے بعد دوسرے حصول کے لئے سرگرمِ عمل ہوجاتا ہے!!پیدل سے سائیکل کا حصول،سائیکل سے موٹرسائیکل کاحصول،موٹر سائیکل سے کار کاحصول،عام کار کی جگہ کرولہ پھر پراڈو یوں لمبی لائن میں حصول درحصول انسان کو تھکا دیتے ہیں اس زنجیر میں انسان جکڑ کر رہ جاتا ہے،زندگی انسان کے لئے”حصول“کا نام بن کر رہ جاتی ہے اور خوشی ،ترقی،اسٹیٹس،بنک بیلنس سے جڑ جاتی ہے اور اس میں بندہ گھن چکر بن جاتا ہے اب اسیے بندے کے لئے تو زندگی ”آسان“ اور ”سادہ “کہاں رہے گی؟؟؟

اس بے چارے کے لئے تو زندگی سے مشکل ،پیچدار اور الجھا سوال ہی نہیں کوئی اس نے بچپن سے جوانی تک مشرقی مغربی فلسفیوں،مفکروں،ادیبوں،دانشوروں کی کتابوں سے”حصول تک رسائی“کا فارمولا دریافت کیا ہوتا ہے!!یہ کتابی لوگ بڑی مشکل باتوں اورمسئلوں کاحل ڈھونڈ لیتے ہیںلیکن زندگی سے متعلق ان کے اندر ہی اندر ان گنت سوال پیدا ہوتے رہتے ہیں جنہیں یہ مختلف تھیوریز کامیٹھا ٹیکہ لگا کر سلاتے رہتے ہیں لیکن تنہا ہوتے ہی وہ تمام سوالات جاگ اٹھتے ہیں اور اٹکلیاں کرنے آدھمکتے ہیںچونکہ ان سوالوں کے جوابوں سے انہیں کبھی واسطہ نہیں رہا ہوتا اس لئے بندہ اجنبی اجنبی نظروں سے صرف دیکھے جاتا ہے اس کے دماغ میں پڑھے گئے تمام فلاسفر،مفکر،اسکالر کی کتابیں،تحریریں گول دائرے کی شکل میں گھومنے لگتی ہیں پڑھے گئے تمام الفاظ ٹکراﺅ بندے کے اندر بے ہنگم ٹریفک جیسا شور پیدا کر دیتا ہے ہر فلسفی اپنے فلسفے کی گاڑی سے سگنل توڑ دینا چا ہتا ہے ہر اسکالر اپنے نظریے کا ٹرک دوڑاتا دکھائی دیتا ہے،ٹریفک سارجنٹ سیٹی بجا بجا کر انھیں ٹریفک قوانین کا احساس دلانا چاہ رہا ہو تا ہے لیکن ایک عام روڈ پر بڑی چھوٹی گاڑیاں،سائیکل،موٹر سائیکل،رکشے،گدھا گاڑی ،اونٹ گاڑی کے ساتھ پیدل چلنے والوں کو کنٹرول کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا کتابی تعلیم بھی انسان کے اندر ایسے ہی بے ہنگم سوالوں کا ٹریفک رواں کردیتی ہے جس کو قابو کرنا بندے کے بس کا کام نہیں رہتا وہ جب سوالوں کے بہاﺅ کو نہیں روک پاتا یا جوابات سے اس کی تشفی نہیں ہوتی تو وہ نیند کی گولی اپنے کھولتے معدے میں انڈیل کر نیند کے” حصول “کی کوشش کرتا ہے چونکہ نیند بھی ایک” حصول “بن چکی ہوئی ہے اس لئے ہر بار اس کے حصول کے لئے پہلے سے زیادہ گولیاں کھانا پڑتی ہیں اپنے اندر کے بے نام تجسس کو تھپتھپانا پڑتا ہے باوجود کوشش کے بندہ اکثر بے خوابی اور بے چینی سے نرم بستروں پر کروٹیں بدلتا رہتا ہے سوالوں کا ٹریفک اس کے دماغ کے سڑک پر بڑا گُل خرابہ کرتا رہتا ہے بندہ ان سوالوں کو ”مسکہ“لگاتا ہے کبھی مغرب سے دلائل دیتا تھا کبھی مشرق کے علم سے جوابات تلاش کرتا ہے لیکن سب بے سود جواب ملتے ہیں تو نامکمل،غیر تسلی بخش!!نامکمل جواب اک نئے سوال کو جنم دے دیتا ہے، جواب پھر ندارد!کتابی بندہ سوالات کے ہاتھوں بڑا ستایا ہوا ہوتا ہے جن کے جوابات کے حصول کے لئے وہ مارا مارا پھرتا ہے لائبریریوں کا چکر لگاتا ہے لیکن جواب ملتے ہیں،ادھورے،ٹوٹے پھوٹے!!دراصل کتا بیں ان کے جوابات کے حصول کا راستہ فراہم ہی نہیں کرتیں ریاضی کی کتاب سے جمع تفریق تو سیکھی جا سکتی ہے یہ نہیں کہ نیکی کیا ہے؟انسان کا اس سے کتنا گہرا تعلق ہے یا ہونا چاہیئے؟؟معاشرتی علوم کی کتاب سے دنیا کا عرضِ بلد اور طولِ بلد معلوم کیا جا سکتا ہے ،براعظمواں کی تقافت زبان سے آگاہی لی جا سکتی ہے اس کا جواب نہیں مل سکتا کہ زند گی کی اصل کیا ہے؟موت کی حقیقت کیا ہے؟ادب کی کتابوں سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ نظم ونثرکا فرق کیا ہے؟شاعری میں ردیف و قا فیہ کا استعمال کیسا ہونا چاہیئے،شاعری میں کتنی بحریں ہیں،عروض کا شاعری کی صحت سے کیا تعلق ہے وغیرہ وغیرہ معاشیات،نفسیات،سماجیات ،نباتات،اخلاقیات کی کتابیں انسان کے ان سوالوں کا جواب فراہم نہیں کرتیں جن کی وجہ سے وہ متجسس ہے ۔میں تعلیم کو برا بھلا نہیں کہتی ،تعلیم اور علم میں فرق ہوتا ہے بالکل ویسا فرق جو آگاہی اور غیر آگاہی میں ہوتا ہے تبھی ہمیں جب بھی اللہ یا رسول صلوة وسلام سے حکم ملا تو علم کا لفظ استعمال ہوا”پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے قلم سے علم سیکھایا“”بے شک جاہل اور عالم برابر نہیں ہو سکتے“رسول اللہ صلوة وسلام نے فرمایا ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے“ایسا کہنے کی کوئی خاص وجہ تو ہو گی نا؟؟دیکھئے انسانی علم محدود ہے اور یہ مستمار ہوتا ہے کبھی معا شرے سے،کبھی انسانی فلسفے سے جوکہ ایک حد تک پائیدار ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ گل سڑ جاتا ہے اس کی جگہ نئی تھیوریز آجاتی ہے اب انسان پہلی تھیوری کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتا کہ نئی تھیوری کی آمد سے ہڑبونگ مچ جاتی ہے ابھی اس کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے کہ پتہ چلتا ہے اہلِ مغرب نے ریسرچ سے کوئی نیا نظریہ دے مارا ہے!ابھی تک سا ئنس کہتی تھی کہ خوش رہنے میں طویل عمری کا راز ہے کچھ روز قابل نئی ریسرچ کے مطا بق زیادہ خوش رہنے والا جلدی مر جاتا ہےاسی طرح کل تک ڈاکٹر کہتے تھے جتنا ہو سبزیوں کا استعمال کیا جائے ،نئی ریسرچ کہتی ہے کہ زیادہ سبزیاں کھانے سے ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں اسی طرح تحقیق سے کسی سوال کا جواب مل بھی جاتا ہے تو اگلے لمحے کوئی نئی تحقیق اسے غلط ثابت کر کے اپنی تھیوری پیش کر دیتی ہے اب ایسی صورت میں تجسس کی تشفی ناممکن سی بات ہے لیکن ایک کتاب ہے جو انسان کے تمام سوالوں کانہایت تسلی بخش جواب فراہم کرتی ہے وہ کتاب قرآنِ پاک ہے جس پڑھنے کے بجائے سمجھنا چاہیئے،جسے میں آگاہی و معرفت کا سمندر جو انسان کے لا یعنی تجسس کی آگ بجھا نے کی طاقت اور تاثیر رکھتا ہے اس کتاب کو پڑھنے والا کبھی لامتناہی تجسس کا خریدار نہیں رہتا!!اللہ رب العزت کا ارشاد ہے”ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کو ادھورا نہیں چھوڑا۔“اب سے بڑی دلیل تو نہیں ہو سکتی کہ اللہ پاک نے خود فرمایا کہ اس کتاب میں ہر چیز کا مکمل علم ہے آگاہی حاصل کرنا ہمارا کام ہے اس سے استفادہ کرنا ہماری مرضی پر ہے کہ ہم ”لا یعنی “سے” یقینی “راہ پر چلنے کے خواہشمند ہیں کے نہیں!!

دنیا کی زندگی سے متعلق تمام تھیوریز ایک طرف قرآنِ پاک کا فلسفہ حیات ایک طرف حصول در حصول کی زنجیر سے آزادی اسی کتاب سے واقفیت سے ملتی ہے اور ملے گی،اس کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں اپنا لیجئے تا کہ حرص درحرص کا جو طوق ہماری گردانوں میں دھنستا جا رہا ہے اور ہم پر سانس لینے کا عمل مشکل سے مشکل کر رہا ہے سے آزادی مل سکے،اور اُن تمام سوالوں کی غلا می سے ہماری سوچیں آزاد ہوجائینگی جن کی وجہ سے ہم تجسس کی بے معنٰی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیںبے چین رہتے ہیں کہ کوئی بھی ہماری اس لا یعنی تجسس کو تشفی دینے والا فلسفہ نہیں!!اللہ عزوجل فرماتے ہیں”اے لوگوں! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی ہے اور شفا،دلوں کے روگ(بیماری) کی اور ہدایت ورحمت ہے مسلما نوں کے لیے۔“(سورہ یونس)

کتابی تعلیم ہمیں تہذیب کے اصول ضرور دیتی ہے ہمیں مہذہب ہونے کا معیار نہیں دیتی،انسان اگر پڑھا لکھا ہے سوسائٹی میں اس کا مقام ہے تو ایک تکبر ،زعم اس کی شخصیت میں چور رستے آجاتا ہے اس میں ،میں اور آپ سبھی شامل ہیں۔ ہم دوسروں کو کمتر سمجھنے کی سنگین غلطی کرنے لگتے ہیں کوئی غریب اگر اچانک ہماری محفل میں اپنے اجڑے حلیے سے آ داخل ہو تو غرور سے ہم اس کی طرف توجہ دینا تو کجا دیکھنے بھی پسند نہیں کرتےجبکہ ہم معاشرے میںخود کو مہذہب انسان کے طور متعارف کرواتے ہیں ہاتھ کے بجائے چمچے اور کانٹے کا استعمال کرتے ہیں لیکن ہماری تہذیب اسٹیٹس سے جڑی ہوتی ہے۔ہم انسان سے نہیں اس کے مقام ومرتبے سے بات کرنے کا معیار طے کرتے ہیں جبکہ اسلام میں تہذیب کا معیا ر اخلاق ہے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہے تو تقویٰ کی بنا پر !!سوچئے اور احتساب کیجئے کہ ”ہم کتنے مہذب ہیں“ہمارا پڑوسی بھوکا سو جاتا ہے ہمیں پرواہ ہی نہیں ہوتی سائل کو ہاتھ خالی لوٹا تے تو ہیں ہی دو چار سخت ست بھی سنانا اپنا حق سمجھتے ہیںماں باپ کی باتیں ہمیں گراں گزرتیں ہیں کہ ”یہ بابے اپنی ہی ہانکے جاتے ہیں ان کو کیا پتہ دور بدل گیا ہے اور یہ“حسد ،کینہ ،بغض،غیبت ،عداوت،لعن طعن ہماری زندگیوں میں لازمی امر کی طرح موجود ہیں۔سوچئے ابھی بھی وقت ہے!!اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو!
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26652 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.