مغلظات کا ذخیرہ اور ’ماما‘ !

 مغلظات بَکنے کے عادی افراد کا قول یہی ہے کہ جب تک گالی کا تَڑکا نہ لگایا جائے تو بات میں وزن پیدا نہیں ہوتا۔ یوں اپنے تئیں بات کا وزن بڑھانے کے لئے وہ ایسی ایسی گالیاں بکتے ہیں کہ عام آدمی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ گالیاں غصے کے عالم میں ہی برآمد ہوتی ہیں، البتہ ایسے میں طبیعت آپے سے باہر ہوتی ہے اور رفتار بے قابو۔ بہت سے لوگ گالیوں کو اپنا تکیہ کلام بنا لیتے ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ بات بات میں گالیوں پر ہی تکیہ کرتے ہیں، مذاق ہو یا زیبِ داستاں ،گالی اُن کے منہ میں ہی رہتی ہے۔ تسلسل قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ گالیوں کا مناسب ذخیرہ موجود ہو، ذخیرہ محدود ہونے کی صورت میں کم پر گزارہ کرنا پڑتا ہے اور تھوڑی گالیوں کی ہی گردان کرنا پڑتی ہے۔ ہر صاحبِ مغلظات اپنی بساط اور سامنے والے کی برداشت کے مطابق گالیاں دیتا ہے۔ گالیوں کی عجیب نفسیات ہے، طاقت ور اگر گالی دے گا تو کمزور صرف دل میں ان کا جواب دے سکے گا، جوڑ برابر کا ہو تو گالیاں بھی برابر ہی تقسیم ہوتی ہیں۔ طاقتور اگر کمزور کو گالیاں دینے کے ساتھ مار پیٹ بھی کرے گا تومار کھانے والا مارنے والے کی پوزیشن کے مطابق تھپڑ، گھونسے یا لاتوں کا جواب گالیوں سے دے گا۔
ابھی تک شاید کسی دُور اندیش ’مغلظاتی‘ نے گالیوں کی فہرست ترتیب دینے کی زحمت نہیں کی، یا شاید اس کارِ بد کی ہمت ہی نہیں ہو سکی ، یہی وجہ ہے کہ یہ سلسلہ سینہ بہ سینہ چلتا ہے، اورچلتاہی جارہا ہے۔ دروغ بر گردن راوی ، پاکستان کے ایک ایسے گورنر جنرل بھی گزر چکے ہیں، وہ جس سے ناراض ہوتے اسے اپنے مزاج اور موڈ کے مطابق گالیوں سے نوازتے، جب وہ اِسی عہدہ جلیلہ پر متمکن ہونے کے دوران ہی ایسی بیماری میں مبتلا ہوگئے کہ مغلظات بکنا تو درکنار بات بھی ڈھنگ سے نہ کر سکتے تھے، تو انہوں نے اپنی پسند کی گالیوں کی ایک فہرست تیار کروائی، اب وہ جس سے ناراض ہوتے تو اپنے سیکریٹری کو فہرست پر نشاندہی کرتے کہ فلاں نمبر والی گالی نکالیں، یوں تکمیلِ ارشاد کے بعد وہ اپنے مخصوص انداز سے قہقہہ لگا کر اپنے اندر کو مطمئن کرتے اور بیماریوں کے باوجود شاداں وفرحاں رہتے۔

بات گالی کی چلی ہے تو اس فہرست میں ایک گالی ’’ماما‘‘بھی ہے۔ نہ جانے کس ناہنجار نے اپنی ماں سے ناراض ہو کر کس منحوس گھڑی میں اس کے بھائی کو گالی بنا لیا۔ اﷲ ، رسولﷺ، سماج اور روایات وغیرہ میں اس عارضی دنیا کی مقدس ترین ہستی ماں ہی ہے، اس کی قدر منزلت جانتے بوجھتے بھی ماں کے بھائی کے رشتے کو بد نیتی سے ادا کرنا کسی تہذیب کے دائرہ میں نہیں آتا۔ پنجاب کے وسطی اضلاع میں یہ گالی معمول و مقبول ہے، کئی مہذب دِکھنے والے لوگ بھی بڑی بے تکلفی کے ساتھ کسی دوسرے کو ’ماما‘ قرار دے دیتے ہیں۔ بعض اوقات کسی کو کسی بات سے بے دخل کرنا مقصود ہو تب بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’توں ماما لگنا ایں‘‘۔ اگرچہ دیگر کئی خونی رشتے بھی تختہ مشق بنتے ہیں، مگر اُن الفاظ کے استعمال سے رشتوں کے تقدس میں فرق نہیں آتا اور ان کی تضحیک نہیں ہوتی۔

گالی کے علاوہ ’’ماما‘‘ کو پنجابی سے نکال کر اردو کی چکّی میں ڈالا جاتا ہے، تو وہاں جاکر یہی لفظ ’’ماموں‘‘ بن جاتا ہے، یار لوگوں نے اس لفظ کو بھی معاف نہیں کیا، بلکہ اِسے الگ اور نئے معانی پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔ ’ماموں‘ کا مطلب کسی کو چکر دینا یا بے وقوف بنانا ہوتا ہے۔ اگر صوبہ کا سیاسی سربراہ کسی شہر میں دورے پر چلا گیا تو اس کے لئے بسا اوقات مصنوعی ماحول بنا دیا جاتا ہے، اس کا مقصد ’سب اچھا‘ کی رپورٹ تیار کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً سیلاب زدہ علاقے میں سیلاب زدگان کے لئے ریلیف کیمپ لگانا، اس میں تمام سہولیات فراہم کرنا،متاثرین سیلاب کے لئے خوراک، ادویات اور ضروریات زندگی کا اہتمام کرنا، جعلی اور فرضی مسحقین دکھانا، ’صاحب‘ کے جانے کے بعد تمام بندوبست سمیٹ کر بیوروکریسی کا (سامان سمیت )گھر لوٹ جانا ، ایسی ہی واردات ہے، اگلے روز کے اخبارات میں وزیراعلیٰ وغیرہ کے دعووں بھرے بیانات کے ساتھ ایک چھوٹی سی خبر یہ بھی ہوتی ہے کہ ’’فلاں شہر کی انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو ’ماموں‘ بنا دیا۔‘‘یعنی ’’ماما‘‘ گالی تھا تو ’’ماموں‘‘ بے وقوف۔

دوسری طرف آئیں تو ماں اپنے بچے کو چاند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’’وہ چندہ ماموں ہے‘‘، اس ضمن میں شاعر بھائی بھی ایک قدم آگے بڑھا کر ماں کے بیان کو پذیرائی بخشتے ہوئے اپنی شاعری کی زینت بنا لیتے ہیں، خوبصورت اور معصوم سی نظمیں تخلیق کرتے اور اپنے جذبات کی داد پاتے ہیں۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مائیں اپنے بھائی کو ہی چاند تصور کرتی ہیں، اپنے بچوں سے انہوں نے چچا کے بارے میں کبھی ’’چندہ چچا‘‘ نہیں کہا۔ ’’چندہ ماموں‘‘ کے بارے میں ماں کے پیار بھرے اظہاریے بچے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں،تاہم ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جس بھائی کو ماں اپنے بچوں کے سامنے چاند سے تشبیہ دیتی رہی تھی، اور چاند کو ماموں بتا تی رہی تھی، وہاں بڑے ہو کر بعض لوگ اسی لفظ کو گالی بنا کر اپنی ہی ماں سے کوئی اَن دیکھا انتقام لیتے ہیں۔ ماموں کے ’’ں‘‘ میں اگر نقطہ ڈال دیا جائے تو بھی ایک بامعنی لفظ ہی معرضِ وجود میں آتا ہے۔ ’مامون‘ میں جہاں امن کا پیغام ہے، وہیں اس خوبصورت معانی والے لفظ کو لوگ اپنانام بنانے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ بہرحال گالی والے ’’ماما‘‘ کا اگر کوئی اور مفہوم ہے، یا اس کے پس منظر میں کوئی اور کہانی ہے، یا سیاق وسباق سے کچھ اور ثابت ہوتا ہے ، تو بھی یہ لفظ گالی کے طور پر نامناسب ہے۔


 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429090 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.