صدی کا عالی ظرف انسان،ڈاکٹر عبدالقدیر خان

قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آیا کرتے ہیں ،ایسے میں کچھ افراد سرمایہء ملت بن کر ملک وقوم کو منجدھار سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ،یہی لوگ قوم کے فرزند اور سچے رہنما کہلانے کے قابل ہوتے ہیں ۔دنیا کی تاریخ میں بہت کم رہنما ایسے گزرے ہیں جو دلوں کے حکمران بنے ،ان میں سے ایک نادر و نایاب شخصیت ڈاکٹر عبد القدیر خان کی ہے۔مشرق و مغرب میں آپ کی شہرت ایٹمی سائنسدان کی ہے لیکن ان کے قریبی لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ ملک و ملت کا درد رکھنے والے ایک مہذب و شائستہ انسان تھے ۔ ان کا شاندار تعلیمی ریکارڈ اور ذہانت انھیں اس مادہ پرست دنیا میں کہیں سے کہیں پہنچا سکتی تھی لیکن وہ یورپ میں ایک شان دار عیش والی زندگی کو تج کر اپنے وطن پاکستان کی خاطر جذبہء حب الوطنی اور ملی غیرت کے تقاضے پر وطن کو واپس لوٹے۔ 1971ء میں سانحہء مشرقی پاکستان کے بعد جب اندرا گاندھی نے کہا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو سمندر میں غرق کردیا ہے تو ڈاکٹر عبد القدیر خان سے یہ برداشت کرنا مشکل ہوگیا ۔ آپ نے 1972ء میں دھاتوں سے متعلق انجینئرنگ کے شعبہ میں پی ایچ ڈی مکمل کی تو 1974ء میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھ کر ایٹمی طاقت کے حصول کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور انھیں امید دلائی کہ وہ یہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اگرچہ پاکستان کے پرامن سویلین ایٹمی پروگرام کا آغاز 1950 ء کے عشرے سے ہوچکا تھا(بحوالہ dawnnews.tv) لیکن اس پروگرام کو منزل تک پہنچانے میں کلیدی کردار ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ادا کیا ۔1984ء میں ڈاکٹر صاحب نے جنرل ضیاء الحق صاحب کو خط لکھ کر یہ خوش خبری سنائی کہ ہم ایٹمی قوت حاصل کر چکے ہیں ۔آپ جب ارادہ کریں گے ہم ایک ہفتے کے اندر ایٹمی دھماکہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ڈاکٹر صاحب کے مستند ترین سوانح نگار اور قریبی دوست جناب زاہد ملک کے مطابق ڈاکٹر خان کی قیادت میں پاکستان نے 1978ء ہی میں بم گریڈ یورینیم کی تیاری میں پیشگی کامیابی حاصل کر لی تھی ۔جب بھارت نے اپنی تاریخی شخصیت پرتھوی راج کے نام پر پرتھوی میزائل بنایا تو ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اس کا جواب (سلطان شہاب الدین غوری سے اپنے خاندانی تعلق کی بناء پر ) غوری میزائل بناکر دیا ۔ یہ میزائل جوہری ہتھیار بھی لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز جنھیں بعد میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی بے مثال خدمات کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق نے اے،کیو خان ریسرچ لیبارٹریز کا نام دے دیا تھا ،ان کے تحت 1990ء کی دہائی میں بکتر شکن اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل، عنزہ میزائل،ریڈار سسٹمز ،الیکٹرونک سسٹمز ، لیزر رینج فائینڈر ،غوری اول ،دوم ،حتف اول اور بیلسٹک میزائل تیار کئے گئے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا فرمان ہے کہ " ایٹم بم بنانے کا مقصد خطے میں خون ریزی کو روکنا تھا تاکہ بھارت پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے ! "
آپ نے پاکستان میں کئ انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں میٹلرجی اینڈ میٹیریل سائینس انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا !
1998ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کا توازن خراب کردیا اور اس وقت پاکستان کے وزیراعظم پر ساری قوم جوابی دھماکے کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہی تھی ، ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب نے 28 مئ 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں میں بٹن دبا کر پاکستان کی ایٹمی طاقت کا اظہار کیا۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر پورے عالمِ اسلام میں خوشیاں منائ گئیں ، فلسطین اور کشمیر میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور خوفزدہ یورپ نے اسے " اسلامی بم " کا نام دیا۔
تاہم عالم کفر ،مسلسل ڈاکٹر عبد القدیر کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھا۔ برطانوی اور امریکی ایجنسیوں نے ڈاکٹر صاحب پر جھوٹے الزامات لگائے کہ آپ نے ہالینڈ سے ایٹمی راز لے کے اسلامی دنیا کو بھیجے ہیں جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ہالینڈ کی عدالت نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اس مقدمہ سے باعزت بری کردیا تھا۔ اس طرح وہ جھوٹا پروپیگنڈہ اپنی موت آپ مرگیا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب نے پاکستان کو جوہری صلاحیت کی منزل تک پہنچا دیا لیکن خود ان کے لئے چومکھی جنگ ابھی جاری تھی۔اسرائیلی اخبار ہیرٹز کے مطابق " اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے کی بار ڈاکٹر عبد القدیر خان کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی کوشش ناکام گئ ۔ موساد کا بنیادی ھدف مسلمانوں کو سائینس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی سے روکنا ہے "-
وطن عزیز پاکستان کے عوام کے دلوں میں ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کے لئے جو محبت رچی بسی تھی ،اس کا اظہار سرکاری سطح پر بھی کیا گیا ۔ 14 اگست 1996ء کو انھیں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔ 1989ء میں ڈاکٹر صاحب ہلال امتیاز بھی حاصل کر چکے تھے ۔ آپ کو ایک درجن سے زائد طلائی تمغے بھی دئیے گئے۔ آپ پوری قوم کے ہیرو تھے اور پاکستانی قوم اپنے ہیروز کی قدردان ہے۔
عالمی برادری ، جس نے کبھی مسلمانوں کا کوئ مسئلہ حل نہیں کروایا ، آرام سے نہیں بیٹھی تھی اور ڈاکٹر صاحب کے خلاف منفی پروپیگنڈہ جاری تھی۔ 4 اپریل 2004ء میں جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی تو ہر پاکستانی سرکاری ٹی وی چینل پر یہ دیکھ کے صدمہ سے دوچار ہوا کہ ڈاکٹر صاحب پرچے پہ لکھا ہوا اپنا جرم پڑھ کے معافی مانگ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کو مجبور کیا گیا کہ وہ ناکردہ جرائم کا اعتراف کریں اور اس کے بعد انھیں نظر بند کردیا گیا -وائس آف امریکہ کے مطابق ڈاکٹر صاحب کو اعترافی بیان پر مجبور کرنے والے دو افراد ایس ایم ظفر اور چودھری شجاعت حسین تھے ۔ ان دونوں نے ڈاکٹر صاحب کو یقین دہانی کروائ تھی کہ اعترافی بیان دینے پر ان پہ کوئ آنچ نہیں آۓ گی !-ڈاکٹر صاحب کو 2004ء سے 2009ء تک نظر بند رکھا گیا اور اس قید تنہائی میں کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔
~ سارے اسیر مجرم نہیں ہوتے صاحب
قید خانے میں کبھی یوسف بھی لاۓ جاتے ہیں !
ڈاکٹر صاحب کا مشہور قول ہے: " میں بھوپالی ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے کہ نہ کبھی ہمارے ہاں کوئ غدار پیدا ہوا ہے ،نہ کوئ قادیانی !"
پاکستان کا ایٹمی پروگرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق تھا کہ "خبردار رہو،
قوت ، دشمن کے نشانے پر ، دور مار ہتھیار پھینکنے کی صلاحیت کا نام ہے"(صحیح مسلم: 1917)
ایک اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ جس نے تیر بنایا وہ جنتی ہے ، جس نے تیر چلایا وہ بھی جنتی ہے اور جس نے تیر پکڑایا وہ بھی جنتی ہے۔ (بحوالہ ابو داؤد ،نسائی)
ڈاکٹر صاحب پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے اور کی بار حکومتی شخصیات کی طرف سے حال نہ پوچھنے کا گلہ کیا کرتے تھے۔ آخرکار اس دنیا کی قید سے 10 اکتوبر 2021ء کو رہائ مل گئ اور آپ رب العالمین کی جنتوں کے سفر کو روانہ ہوگئے۔ آپ کی رحلت پر پوری قوم اشک بار ہوگئ۔ آپ کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی ۔ عوام کا جم غفیر وہاں موجود تھا۔ لوگ پروانہ وار آپ کی ایمبولینس سے چمٹے ہوئے تھے۔ دن کے وقت اسلام آباد سیاہ بادلوں کے گھیرے میں رات کا منظر پیش کر رہا تھا۔آپ کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کردیا گیا۔ آپ کی بے لوث محبت کا قرض یہ قوم کبھی چکا نہیں سکتی ۔ اگر آج ہم بھارت جیسے خونخوار دشمن کی دھمکیوں کو چٹکیوں میں اڑا کے سکون سے سو جاتے ہیں تو اس کا سبب ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کی بے لوث محنت ہے ۔ اللہ پاکستان کی جوہری صلاحیت کی حفاظت فرمائے اور اے میری قوم اب جاگتی رہنا !
#